متوسط طبقے کا المیہ
بر صغیر کے مسلمانوں کی تاریخ کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ جہاں باہر سے آنے والوں نے مقامی تمدن، زبان , رہن سہن کو اپنا کر مقامی تہذیب و تمدن کو ایک نیا رنگ دیا اور اس کی آبیاری کی وہیں ایک ایسا طبقہ بھی زندہ رہا جو اپنے غیر ملکی ہونے پر فخر کرتا رہا، حالانکہ وقت کے ساتھ ساتھ تہذیبی اختلاط نے ہر ایک کو اس کے اجداد کے انداز رہن سہن اور تمدن سے دور کر دیا اور سبھی ایک ہندوستانی تہذیب کا حصّہ بنے مگر چند ایک ایسے پہلو برقرا رہے جو اس طبقے کے تفاخر کو زندہ کئے رہے جیسے زبان، مذہبی تعلیم، خاندانی نجابت اور نسلی امتیازات، مخصوص اشرافیہ اور ان کو حاصل سہولتیں جیسے حکومتی عھدے اور جاگیر وغیرہ. یہ طبقہ آغاز سے ہی اپنے وسائل اور اختیارات کو برقرار رکھنے کے لئے حکومتی تحفظ کا محتاج تھا اور ساتھ ہی ساتھ عوامی تہذیب بلکہ عوام سے خائف بھی تھا, مقامی مراعات یافتہ طبقہ کبھی ان کے مخالف نہیں تھا کیونکہ دونوں کے مفادات ایک تھے اس لئے وقت کے ساتھ ساتھ یہ ایک ہی رنگ روپ دھار گئے. مگر مغلوں کے اختتام اور انگریزوں کے ہندوستان پر قابض ہونے کے بعد اس طبقے کو نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑا، خصوصاً ١٨٥٧ کی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے بھرپور کوشش کی کہ وہ ایک نیا طبقہ پیدا کریں جو ان کا حمایت یافتہ اور پروردہ ہو اور ساتھ ساتھ مغلوں کی باقیات کا ہر ممکن صفایا کیا جائے. مسلمان اشرافیہ اس صورت حال میں خاص نشانہ بنی خصوصاً شمال مغربی ہندوستان میں جو مغلوں کا مرکز تھا. یہ طبقہ کسی بھی طرح اس قابل نہیں تھا کہ انگریزی قوّت کا مقابلہ کر سکے یا بدلتے وقت کا سامنا کر سکے نتیجتاً جہاں ایسی تحریکیں پیدا ہوئیں جو حالات سے مفاھمت اور تبدیلی کی حمایت کرتی تھیں وہیں بے جا فخر و انبساط پر مبنی خیالات نے اور بھی زور پکڑ لیا، یہ سب اس طبقه کی خود کو برقرار رکھنے کی کوشش کا نتیجہ تھا. یہ کوشش بہرحال انگریزوں کے مفاد کے خلاف نہیں تھی کیونکہ ان کو ان طبقات کی ضرورت تھی جو حکومتی انتظام و انصرام اور قبضہ برقرار رکھنے میں ان کا ساتھ دیں. یہ طبقہ ان کے اور کام آیا جب وقت کے ساتھ ساتھ ایسی تحریکوں نے جنم لیا جو آزادی کا مطالبہ کر رہی تھیں, کیونکہ واضح طور پر ایک عوامی آزاد حکومت میں ان کے لیے اتنی ہی جگہ تھی جتنی دیگر طبقات کے لئے، اس لئے یہ فطری طور پر حالات کو جیسا تیسا برقرار رکھنا چاہتے تھے، یہ وہ طبقہ ہے جس کو حمزہ علوی تنخواہ دار طبقہ کہتے ہیں.
آزادی کے بعد نو زائدہ ریاست پاکستان میں بھی اس طبقے نے اپنی مراعات کو برقرار رکھنا چاہا اور اس لئے وہ سوچ بھی برقرار رکھی جو اپنی معراج غیر ملکی تہذیب اور بے جا فخر و انبساط میں ڈھونڈتی تھی. یہ سوچ اسی طرح حکمران طبقے کے مفاد میں تھی جس طرح انگریز کے مفاد میں تھی، پاکستانی حکمران طبقات بھی عوام کو اختیارات کی منتقلی سے خوفزدہ تھے لہٰذہ اس سوچ کو مزید پروان چڑھایا گیا. نتیجہ یہ نکلا کہ وقت کے ساتھ ساتھ متوسط اور اعلیٰ طبقات کا اتحاد بن گیا اور نچلے طبقات اور اس اتحاد کے درمیان خلیج بڑھتی چلی گئی، ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ مقامی تہذیب اور تمدن کو نظر انداز کیا گیا ایک یک رنگی تہذیب اور تمدن کو نافذ کرنے کی کوشش کی گئی اور یہ بات مد نظر نہیں رکھی گئی کہ پاکستان کی مقامی تہذیبیں اور تمدن ہزاروں سال کی تاریخ کا تسلسل ہیں اور ان کی نفی کسی بھی طرح ممکن نہیں ہے، یہ تضاد جو پاکستانی حکمران طبقات نے پیدا کیا اور متوسط طبقے نے ان کا ساتھ دیا، اس تضاد کی بدولت پاکستانی تاریخ کا دھارا بدل گیا. ان خوفزدہ طبقات نے غیر جمہوری حکومتوں کی حمایت اور پروردگی کی، انھوں نے کوشش کی کہ نچلے مقامی طبقات کی کسی سطح پر حوصلہ افزائی نہ ہو سکے. سیاست میں بھی ان طبقات نے دائیں بازو کی بیشتر انتہا پسند جماعتوں کا ساتھ دیا جن کے آدرش اور مقاصد کسی بھی طرح اس ملک کی تہذیبی جڑوں سے پیوستہ نہیں تھے. نتیجہ یہ نکلا کہ عوام اور ان طبقات میں خلیج دن بدن گہری ہوتی چلی گئی, مشرقی پاکستان کی علحیدگی اور بنگلہ دیش کے قیام کی وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے. اسی رویے کے تسلسل کا نتیجہ یہ نکلا کہ انتہا پسندی بڑھتی چلی گئی اور اس رویے کے خلاف بھی انتہا پسندی میں اضافہ ہوا لہٰذہ علاقائی سیاست میں مرکزیت کے خلاف شدت میں اضافہ ہوا، قومی اور لسانی عصبیت نے زور پکڑا، مرکز گریز اور مرکز گیر طاقتوں کے اس ٹکراؤ نے تشدد میں اضافہ کیا، اسلحہ پھیلا، جرائم پھیلے، منشیات اور دیگر سماجی مسائل پیدا ہوئے.
وقت کے ساتھ ساتھ حالات یہاں تک آ پنہچے ہیں کہ ایسے کئی شدت پسند اعتقادات اور خیالات جن کا آج سے ساٹھ ستر سال پہلے وجود تک نہ تھا، آج امر مسلمہ سمجھے جاتے ہیں. ہمارے حکمران آج بھی طاقت برقرار رکھنے کے لئے ملک سے باہر دیکھتے ہیں اور ہماری عوامی تہذیب اور تمدن کو کچلے جا رہے ہیں. متوسط طبقہ حکمران طبقے کا ساتھی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنی غلطیوں کی سزا بھی بھگت رہا ہے. سب سے بڑھ کر آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے، تعلیم میں کمی، سہولیات ختم ہوتی جا رہی ہیں، جرائم میں اضافہ، متوسط طبقے نے انتہا پسندی کو اپنایا ہے تو اس کا نشانہ بھی بنا ہے. مگر ابھی تک اس طبقے نے اپنی سوچ کا رخ نہیں بدلا ہے. یہ آج بھی ان قوتوں کی حمایت کرتا ہے جو تبدیلی کے خلاف ہیں. آبادی کی اکثریت کو ساتھ لئے بغیر کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی، اور متوسط طبقے کو چاہیے کہ وہ شہروں سے نکل کر دیہات کی طرف دیکھے. یہ دور دراز کے لوگ جو کہیں نظر نہیں آتے، یہ اصل پاکستان ہیں، متوسط طبقے کے ناخدا بھول جاتے ہیں کہ یہ لوگ بھی زندہ لوگ ہیں، ان کی اپنی زبانیں ہیں، ان کی اپنی اقدار ہیں، ان کی اپنی تہذیب ہے اور اس سب کو زندہ رہنے اور پھلنے پھولنے کا حق ہے، عوام کی اکثریت کو ساتھ لئے بغیر کوئی تبدیلی ممکن ہی نہیں، اور اس لے لئے ان قوتوں کا ساتھ دینا ہوگا جن کی جڑیں عوام میں ہوں، اور وہ خیالات اور نظریات جو عوام کی نفی کرتے ہوں ان کے ساتھ عوام کو ساتھ لے کے چلنا ممکن ہی نہیں ہے. متوسط طبقہ اپنے مسائل کو اول و آخر پورے ملک کے مسائل سمجھتا ہے اور آبادی کی اکثریت کو نظر انداز کر دیتا ہے، یہ بشمول اعلیٰ طبقات جس تہذیبی خود فریبی کا شکار ہے اس کی وجہ سے مقامی تہذیبی رنگا رنگی کو حقیر گردانتا ہے. پاکستان کا متوسط اور اعلیٰ طبقہ جب تک اس فکری غلط فہمی کا شکار رہے گا جب تک غلط راستوں پر بڑھتا اور نقصان اٹھاتا رہے گا، نتیجے میں مزید خوں ریزی اور مزید بٹوارے بعید از قیاس نہیں ہیں .
وقت کے ساتھ ساتھ حالات یہاں تک آ پنہچے ہیں کہ ایسے کئی شدت پسند اعتقادات اور خیالات جن کا آج سے ساٹھ ستر سال پہلے وجود تک نہ تھا، آج امر مسلمہ سمجھے جاتے ہیں
Hey, you forgot to thank Saudi Arabia and the increasing Saudi-ization of Pakistan and India.
In my opinion external forces can only take advantage of internal situation and get support in internal elements. Root cause of any ill will cannot be located outside but within the system. Most right wingers are very blunt in blaming conspiracies of foreign powers; probably it is wrong for the liberals and democrats as well to blame external forces and they should concentrate on internal elements and root causes.