What if the US generals and judges follow the Pakistan model? – by Imam Bakhsh

اگر ایسا ہو جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ توپاکستان کا مورال ڈاون ہو سکتا ہے

تحریر: امام بخش

آج میں بڑا خوش ہوں کیونکہ کل رات میں نے ایک خواب دیکھا ہے۔اور اسی جھوٹے خواب کے خمار میں صبح سے خوامخواہ سینہ پھلائے پھر رہا ہوں کیونکہ اس خواب کے مطابق اب انوویشنز کے مامووں سمیت پوری دنیا پاکستان کی نقالی کرتے ہوئے ترقی کی منزلیں طے کرے گی۔

خواب کے پہلے سین میں کیا دیکھتا ہوں کہ افغانستان میں انٹرنیشنل سیکورٹی اسسٹینس فورس کے ) سابق) کمانڈر جنرل اسٹینلے میک کرسٹل جلوہ افروز ہیں اور وہ رولنگ سٹون میگزین کو انٹرویو دے رہے ہیں اور باراک اوبامہ کو ان کی شخصیت اور ان کی افغانستان میں جنگی پالیسیوں پر سخت سست کہ رہے ہیں۔

خواب کے دوسرے سین میں جنرل کرسٹل کے رولنگ سٹون کے انٹرویو پر صدر باراک کے ایکشن لینے پر جنرل کرسٹل اپنے انٹرویو پر شرمندگی کا اظہار کر رہے ہیں اور معافی کے طلب گار ہیں۔

خواب کے تیسرے سین میں امریکی صدر باراک اوبامہ پورے کے اعتماد کے ساتھ کھڑے ہوکر تقریر کر رہے ہیں اور کہ رہے ہیں کہ آج میں نے جنرل کرسٹل کو افغانستان سے فوری طور پر واپس بلا کر اس سےاستعفی لے لیا ہے. کیا ہوا کہ اگر عراق اور افغانستان میں ۸۰ فیصد کامیابیوں میں جنرل کرسٹل کا ہاتھ ہے۔ مگر ہماری جمہوریت افراد کی بجائے اداروں کی مضبوطی پر منحصر ہے. اس میں ملٹری چین آف کمانڈ کا سویلین کنٹرول کے نیچے احکامات کی سختی سے تکمیل اور احترام بھی شامل ہے۔ میں چیف کمانڈر کے طور پر پورے یقین سے یہ سمجھتا ہوں کہ ہماری جمہوریت کی بقا صرف ملٹری پر سویلین کنٹرول میں ہے۔

جنرل کرسٹل مستفی ہونے کے بعد کہ رہے ہیں کہ میں اپنے کیے پر شرمںدہ ہوں۔ میرے دل میں صدر اوباما اور ان کی قومی سلامتی کے ٹیم کے لئے بہت بڑا احترام اور تعریف ہے۔

خواب کے اگلے مرحلے پر میں چونک اٹھا ،کیا دیکھتا ہوں کہ باراک اوبامہ بے چارہ امریکی چیف آف آرمی سٹاف جنرل ریمنڈ کے قدموں میں پڑا گڑگڑا رہا ہے۔ جنرل صاحب کو بہت زیادہ غصہ ہے۔ اور وہ پوری قوت سے امریکی صدر پر مسلسل چلا رہے ہیں۔ اور کہ رہے ہیں کہ تم نے چار ستارہ جنرل اسٹینلے میک کرسٹل سے کاغذی قانون کی جھوٹی طاقت کے ساتھ استعفی لے کر ملکی سلامتی کے ساتھ کھلواڑ کھیلا ہے ۔ جنرل کرسٹل نے ”ممتاز دفاع سروس میڈل” کے سا تھ لا تعداد تمغے لیے ہوئے ہیں۔ تم یقینا بہت بڑی غداری کے مرتکب ہوئے ہو۔ تمہیں ہرگز معلوم نہیں ہے کہ تم نے فوجی قیادت پر سنگین الزامات لگائے ہیں جس کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔

اوبامہ تم مجھے یہ بتاو کہ دنیا بھر کے ملکوں میں بارود کی بو جھاڑ میں در بدر ہم بھٹکیں اور تم صرف اور صرف ووٹ لے کر اور اوپر سے ایک غیر ملکی حبشی کے بیٹے ہوتے ہوئے دنیا کی سب سے بڑی مسلح فوج کے کمانڈر ان چیف بن بیٹھے ہو۔ تمھاری یہ مجال کہ ہمیں آئین یاد دلاو۔ آئین کی کیا وقعت ہے۔ وقعت صرف مسلح فورس کی موثر طاقت میں ہے۔ اور آئین ایک کتابچے کے سوا ہے ہی کیا جس کو جہاں سے چاہیں پھاڑ کر پھینک سکتے ہیں۔

بیوقوف اور ملک دشمن تم نے دفاہی بجٹ میں ہماری خواہش کے مطابق خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا۔ اگر آپ نے ہماری تنخواہوں میں کئ گنا اضافہ کر بھی دیا ہے تو کیا ہوا۔ کیوںکہ ان بلڈی سولینز کے لیے یعنی بنیادی ڈھانچے، تحقیق، اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے پر خرچ کرنے کی بجائے زیادہ سے زیادہ آرمی پر ہی خرچ کرو۔ کیونکہ ان سولینز کی بجائے فقط آرمی ہی محب وطن ہوتی ہے۔

دیکھو اوبامہ اب ”پی سی او” اور ”ایل ایف او” کا نسخہ ہائے کیمیا ہمارے ہاتھ لگ چکا ہے۔ ہم کسی وقت بھی ایل ایف او کا ہتھوڑا مارکر اس چڑی نما آئین کا بھرکس نکال سکتے ہیں۔ ججز تو ہمارے ڈنڈے کے ڈر سے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کے بعد نظریہ ضرورت کے تحت ہمیں تحفظ دے سکتے ہیں۔ اور تو اور وہ مجھے فرد واحد کو تین سال کے لیے اس دو ٹکے کے آئینی کتابچے کو کہیں سے بھی تبدیل کرنے کی اجازت دینے کے لیے بخوشی تیار ہیں۔

اوبامہ کان کھول کر سن لو کہ آج کے بعد کوئی ملکی خفیہ ایجنسی آپ کو رپورٹ نہیں کرے گی۔ بلکہ وہ صرف آپ اور آپ کے وزیروں کی ہر حرکت پر نظر رکھے گی۔ سی آئی اے اور ایف بی آئی کے چیفس کہیں بھی جائیں اور جو بھی کریں۔ آپ سے اجازت لینے کوئی ضرورت نہیں ہو گی۔ اور کبھی من موجی ہوکر چائے کی پیالی میں طوفان کھڑا کرنا چاہیں۔ تو ان کو پوری اجازت ہو گی اور اس پر بھی تم جوابدہ ہوگے۔

۔ اب ہیلری کلنٹن کو بتا دو کہ وزارت خارجہ ہم چلائیں گے۔

۔ لیون پنیٹا کو بھی خبر کر دو کہ آج کے بعد وزارت دفاع کے سارے معاملات ہم دیکھیں گے۔ اور اس کا کردار صرف نمائشی ہوگا۔

۔ آئندہ کوئی بھی غیر ملکی آفیشئیل امریکہ آئے گا تو وہ کسی اور سے ملے نا ملےمگرآرمی چیف سے ضرورملے گا۔ اور ان سے کوئی بھی معاہدہ ہماری ہی مرضی سے ہو گا۔

۔ آئندہ آرمی آپ سے پوچھے بغیر کوئی بھی آپریشن شروع یا ختم کر سکتی ہے۔

۔ ہم کسی بھی پارلیمنٹ کے قانون کو بلاک کر سکتے ہیں۔

۔ اورآج کے بعد امریکن آرمی کا آڈٹ بند۔

پھر خواب کا منظر بدلتا ہے اورمیں دیکھتا ہوں کہ چھوٹی موٹی اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ ساتھ ریپبلکن پارٹی کے جان مکین بھی پارلیمنٹ میں کردار کرنے کی بجائے جنرل ریمنڈ کی چاپلوسی میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا ہے۔ اور وہ چوکڑی مار کر بیٹھا ہوا جنرل صاحب کے پورے ذوق وشوق سے بوٹ پالش کرنے میں مشغول ہے۔

اگلے سین میں جان مکین اور امریکہ کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس الینا کاگن ایک دوسرے کو بھرپور تعاون کی یقین دھانی کروا رہے ہیں۔

خواب کے اگلے سین میں دیکھتا ہوں کہ چیف جسٹس الینا کاگن دھڑادھڑ سوموٹوایکشنز لے رہے ہیں اوراصل مقدموں کو چھوڑ کرحکومتی اقدامات کو معطل کر کے ملک کا خوب ”فائدہ” کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے سونے پر سہاگہ چیف جسٹس صاحب نے اپنے یار لوگوں کے بتیجھوں، دامادوں اور لاء چیمبرز سے ہی ملکی عدالتوں کو ججز نوازے ہیں۔

چیف جسٹس الیناکہہ رہیں ہیں کہ آئین کے خالق پارلیمنٹیرینز آئین کی تشریح کیا جانیں۔ آئین کی تشریح (من پسند) بھی صرف ہمارا کام ہے۔ عوام کے منتخب نمائدوں کی بجائے حکومتی کاروبار چلانا بھی ہمارا صوابدیدی اختیار ہے۔ انصاف ہو تا ہوا نظر آئے نا آئے مگر ہمارا ”انصاف” سب کو ماننا پڑے گا۔ آج کل ہم توہین عدالت کے قانون کی تلوار کو ”اندھے انصاف” کی طرح خوب چلا رہے ہیں۔ اس تلوار کی دھار بہت تیز ہے کیونکہ دھار لوہار کی بھٹی اور مسلح کاریگروں کی لیبارٹری کا شہکار نمونہ ہے۔

خواب کے آخری منظر میں امریکن ٹی وی چینلز پر ”شیخ الحدیث” رونق افروز ہیں۔ اخباروں میں ”منصوروں” کے تجزیوں کی بھرمار ہے۔ میڈیا ”ریٹنگ” کے چکرمیں ملکی مفاد کی خوب ”آبیاری” کر رہا ہے۔ اس آبیاری کو مزید ترقی دینےاور ٹاک شوز کی مقبولیت بڑھانے کے لیے پاکستانی سیاستدانوں کو امریکی سیاستدانوں کے لیے ٹریننگ ورکشاپز منعقد کرنے کے دعوت نامے موصول ہونا شروع ہو گے ہیں۔ ہمارے روئیداد خان اور شیخ رشید تو پوری آب وتاب سے اپنے ”غیرتمند جگرے” کےساتھ امریکی میڈیا پر وہاں کے سیاستدانوں کو اپنے زریں خیالات سے براہ راست نواز رہے ہیں۔

خواب سے جاگنے کے بعد خوش ہونے کے ساتھ ساتھ میں اس سوچ میں بھی گم ہوں کہ اگر ایسا ہو جائے اورامریکہ کے بعد پاکستان کے مقابلے میں دوسرے ”غیرترقی یافتہ” ملک یعنی فرانس، انگلینڈ، جرمنی، کینیڈا، چین، ڈنمارک، ناروے، آسٹریلیا، ہالینڈ، سویڈن، سوئٹزر لینڈ وغیرہ وغیرہ پاکستان کی نقالی کرتے ہوئے پاکستان سے زیادہ ترقی کی منزلیں طے کریں گے تو ہمارا ”مورال” کافی گر سکتا ہے۔ اور اس خصوصی ”ترقی” پر ہماری اجارہ داری ختم ہو سکتی ہے۔

Comments

comments

Latest Comments
  1. Abdul Nishapuri
    -
  2. Imam Bakhsh
    -
  3. Nawaz Memon
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.