Hectic political developments & irresponsible talk show hosts -by Saeed Ahmed
سرد ترین موسم میں اسلام آباد کے سیاسی درجہ حرارت میں شدید اضافے کی گرمی کو پورے ملک کے عوام محسوس کررہے ہیں۔ تیزی سے بدلتے ہوئے اعصاب شکن حالات اور واقعات نے عوام کے ذہنوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ملک میں ایک بار پھر افواہوں اور قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہے۔ اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے غیر سنجیدہ اور تاجرانہ رویوں کے باعث عوام کو صحیح صورت حال کا ادراک نہیں ہورہا۔ نجی ٹیلی ویږن چینلز کے اینکر پرسن مفروضوں کی بنیاد پر تبصرے اور تجزیے پیش کررہے ہیں جس میں عوام کے اندر مایوسی اور ناامیدی پھیلانا ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔ پورے ملک میں غیر یقینی کی فضائ پیدا کر دی گئی ہے۔
عجیب و غریب اور مافوق العقل سیاسی تجزیوں کے ذریعے عوام کے ذہنوں میں ابہام اور کنفیوږن کو بڑھایا جا رہا ہے۔
کیا حالات اتنے ہی بھیانک اور خطرناک ہیں کہ بہتری کی کوئی صورت باقی نہیں رہی۔ صدر مملکت اگر اپنی پارٹی کا اجلاس بلاتے ہیں یا حکومت کی اتحادی جماعتوں کے سربراہوں سے ملاقات کرتے ہیں تو اس پر بھی کچھ اس انداز سے تبصرے کیے جاتے ہیں کہ جیسے معاملہ بڑا گھمبیر ہے اور حکومت کی رخصتی میں صرف چند گھنٹے باقی ہیں۔
آرمی چیف پرنسپل سٹاف آفیسرز کا اجلاس طلب کرتے ہیں تو مارشل لائ لگنے کی خبریں گردش کرنے لگتی ہیں۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے سیکرٹری دفاع کو برطرف کیا تو چاروں اطراف سے شور مچایا گیا کہ بس اب حکومت آخری سانس لے رہی ہے۔
آئی ایس پی آر نے وزیراعظم کے انٹرویو پر اپنی پوزیشن کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ فوجی قیادت پر الزامات کے سنگین نتائج ہوسکتے ہیں۔ نام نہاد دانشوروں اور تجزیہ کاروں نے طے کر لیا کہ فوج اور حکومت کے باہمی تصادم کے نتیجے میں حکومت کو توڑ کر مارشل لائ لگا دیا جائے گا۔
بعض ایسے اینکر پرسن ہیں جنہوں نے ٹی وی ٹاک شو میں یہاں تک کہہ دیا کہ ٴٴمیرے عزیز ہم وطنوٴٴ کی تقریر کا انتظار کیا جائے۔ صدر مملکت ایک دن کے لیے دبئی روانہ ہوئے اور وزارت خارجہ نے ایک بیان میں وضاحت کی کہ وہ ایک دن بعد واپس آجائیں گے۔ صدر مملکت کسی شادی کی تقریب میں شرکت یا علاج کے لیے گئے ہیں لیکن خوش فہم تبصرہ نگاروں نے باآواز بلند کہنا شروع کیا کہ ملک کو بھیانک مسائل کا سامنا ہے اور صدر مملکت فرار ہوگئے ہیں۔ چند روزپہلے جب وہ علاج کی خاطر ہنگامی طورپر دبئی روانہ ہوئے تب بھی اسی قسم کا شور شرابہ کیا گیا مگر شکست خوردہ اور ذہنی طورپر مفلوج کالم نگاروں کو اس وقت ندامت محسوس ہوئی نہ ان کی کشادہ پیشانیوں پر شرم سے پسینہ آیا۔
اصل مسئلہ کیا ہے؟ ایسا جانبدار، غیر عقلی اور غیر منقطی رویہ کیوں اختیار کیا جاتا ہے؟ ظاہر ہے کہ میڈیا سے وابستہ افراد صرف اپنی ذاتی خواہشات کی تسکین کی خاطر تو یہ واویلا نہیں کرتے۔ میڈیا ٹرائل باقاعدہ ایک مہم کے طورپر کیا جاتا ہے۔ اینکر پرسن اپنے میزبانوں سے سیاسی سوال کرنے کی بجائے انہیں عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرتے ہوئے ان سے انتہائی نامناسب انداز میں اپنی مرضی کے جوابات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر کوئی سیاستدان ان کی مرضی کے مطابق جواب نہ دے تو بعض کم عمر اور غیر تعلیم یافتہ اینکر پرسن بدتمیزی کی سطح پر اتر آتے ہیں۔
ایک ٹی وی ٹاک شو میں ٴٴخبط عظمتٴٴ میں مبتلا ایک اینکر پرسن نے بزرگ سیاستدان رسول بخش پلیجو کے ساتھ ضد کرتے ہوئے اپنی مرضی کے جواب سننا چاہے تو رسول بخش پلیجو براہ راست نشر ہونے والے ٹاک شو سے احتجاج کرتے ہوئے اُٹھ کر چلے گئے۔ پیپلز پارٹی کی لیڈر فوزیہ وہاب نے ایک ٹاک شو میں اعلان کیا کہ وہ آئندہ اس نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں شرکت نہیں کریں گی۔
صدر مملکت نے گڑھی خدا بخش کے جلسۂ عام میں خطاب کے دوران کہا کہ سیاستدانوں کو ٹی وی ٹاک شو میں شریک نہیں ہونا چاہیے اس لیے کہ اینکر پرسن ان کی عزت نہیں کرتے۔
ایک لقوہ زدہ اینکر پرسن جس کے منہ سے آواز کم اور ہوا زیادہ نکلتی ہے اور جس کے متعلق عام آدمی بھی جانتا ہے کہ وہ ایجنسیوں کا آدمی ہے وہ شام ہوتے ہی حکومت کو رخصت کرنے کے لیے نمودار ہوتا ہے۔
خواتین میں محترمہ نسیم زہرا کے علاوہ باقی تمام جوان اور بزرگ خواتین کے بولنے کی رفتار بجلی کی لہروں سے زیادہ ہے۔ بعض اوقات یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے میزبان پر حملہ آور ہونے والی ہیں۔ بار بار جھوٹ بولنے اور عوام کو گمراہ کرنے کا سب سے زیادہ نقصان خود اس قماش کے اینکر پرسنز کا ہوا ہے کہ لوگ اب ان کی باتوں پر توجہ نہیں دیتے۔
ٹاک شو میں میزبانوں کو بلانے کے لیے ایک کسوٹی طے کر دی گئی ہے کہ مختلف نظریات کی سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کو بلا کر انہیں آپس میں لڑایا جائے۔ سیاستدانوں کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ وہ کیوں تماشہ بننے کی سازشوں میں شریک ہوتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ملک کے سیاسی درجہ حرارت میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاست میں اتار چڑھائو آتے ہیں، بڑی تبدیلیاں بھی رونما ہوتی ہیں لیکن فی الوقت نہ تو ملک میں فوج اقتدار کے لیے تیار ہے اور نہ ہی کوئی مارشل لائ لگ رہا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو عوام نے 5 سال حکومت کا مینڈیٹ دیا ہے اور حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔ یہ سارا واویلا سینٹ کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کی واضح اکثریت سے کامیابی کے خوف کی وجہ سے کیا جا رہا ہے۔ سینٹ کے الیکشن کی تاریخ مقرر کر دی گئی ہے۔
عدلیہ حکومت اور فوج کے درمیان کسی تصادم کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ یہ تینوں ادارے ایک ہی کشتی میںسوار ہیں۔ تینوں کے لیے آپس میں اتحاد ناگزیر ہے اور تینوں ادارے حالات کی نزاکت کا مکمل ادراک اور شعور رکھتے ہیں اور انہیں اس پر یقین ہے کہ ملک اور قوم کی اولین ترجیح امن، جمہوریت اور سیاسی عمل کا جاری و ساری رہنا ہے۔
Source: Daily Mashriq Lahore
Thats good and 1000% right . May u live long