Four types of politicians are joining Imran Khan’s PTI – by Saleem Safi
حق تو یہ ہے کہ تحریک انصاف کے وابستگان انصاف سے کام لے رہے ہیں اور نہ ان کے مخالفین۔ یہ دعویٰ کرنا بھی قرین انصاف نہیں کہ تحریک انصاف کے نئے جنم میں نادیدہ طاقتوں کا کوئی ہاتھ نہیں اور وہ لوگ بھی ناانصافی سے کام لیتے ہیں جو یہ دہائی دے رہے ہیں کہ جو بھی تحریک انصاف کے ساتھ جارہا ہے، کسی نادیدہ قوت کے کہنے پر ہی جارہا ہے ۔
لاہور کے جلسے کے بعد تحریک انصاف میں جانے کے لئے یہ جو الیکٹیبلز کی قطار لگی ہوئی ہے ، انہیں چار حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔
ایک وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ سے نادیدہ قوتوں کے مہرے سمجھے جاتے ہیں اور ہر فیصلے کے لئے وہاں سے حکم کے منتظر ہوتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنے والوں میں ایک گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہے ۔
دوسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جو براہ راست مہرے تو نہیں لیکن وہ نادیدہ قوتوں کے مزاج شناس ہیں ۔ ان کو براہ راست حکم نہیں ملا ہوتا ہے لیکن وہ ان قوتوں کے موڈ اور رجحان کو دیکھ کر راستہ اور کیمپ بدلتے ہیں ۔
تیسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جو عوام اور ووٹر کے موڈ سے اپنے آپ کو آگاہ رکھتے ہیں اور وہ ان کے موڈ کو دیکھ کر سیاسی کیمپ بدلتے رہتے ہیں ۔
چوتھا گروہ ان لوگوں کا ہے جن کو کسی اور پارٹی میں حسب منشا جگہ نہیں مل رہی تھی اور اب جب انہوں نے دیکھ لیا کہ تحریک انصاف ایک بڑی پارٹی بننے جارہی ہے تو انہوں نے اس کی کشتی میں چھلانگ لگا دی۔ پانچواں گروہ ان لوگوں کا ہے جو مفاد پرست ہیں اور نہ اسٹیبلشمنٹ کے مہرے ہیں لیکن وہ سابقہ جماعتوں میں قربانیاں دے کر بھی اپنی قیادت کے ہاتھوں رسوا ہوتے رہے ۔ اب ان کو ان مغرور لیڈروں کے ساتھ حساب برابر کرنے کا موقع ہاتھ آگیا ہے چنانچہ انہوں نے تحریک انصاف کا رخ کرلیا ۔ اس گروہ کے لوگوں کی تازہ ترین مثال مخدوم جاوید ہاشمی ہیں۔
پی پی پی ، مسلم لیگ (ن) ، ایم کیوایم اور اے این پی پر اب دباؤ بڑھ جائے گا اور شاید وہ اپنے کارکنوں اور وابستگان کو مزارع سمجھنے کی بجائے انسان سمجھنے لگ جائیں۔ دوسرا مثبت نتیجہ یہ نکلے گا کہ مایوسی کا شکار وہ جذباتی اور امریکہ مخالف نوجوان جو ماضی میں اپنا غصہ نکالنے کے لئے انتہاپسند مذہبی گروہوں کی طرف جاتے تھے، ان کو اب تحریک انصاف میں ایک مین اسٹریم سیاسی جماعت کی صورت میں متبادل پلیٹ فارم مل گیا ہے جہاں جاکر وہ نظام اور امریکہ کے خلاف اپنے جذبات کو ٹھنڈا کرسکتے ہیں۔ تیسرا یہ کہ ملکی اسٹیبلشمنٹ اور نادیدہ طاقتیں ماضی میں اپنے اسٹریٹجک اور خارجہ پالیسی کے مطلوبہ اہداف کے حصول کے لئے مذہبی اور انتہاپسند گروہوں کی سرپرستی کیا کرتی تھیں، اب ہوسکتا ہے کہ ان کی طرف سے ان عناصر کی سرپرستی میں کمی آجائے کیونکہ وہ خدمت اب تحریک انصاف بھی سرانجام دے سکتی ہے
آزمودہ کھلاڑیوں کی کوشش ہوگی کہ تحریک انصاف کی انقلابیت ختم کردیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان اس انقلاب کے آرزومند کارکن کی آرزوؤں کا لحاظ کرتے ہیں یا پھر انہیں اسی طرح نئے آنے والے سیاسی مداریوں کا مزارع بناتے ہیں جس طرح دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین نے بنا رکھا تھا۔ انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ نئے آنے والے لوگ پرانے لوگوں یعنی عمرسرفراز چیمہ، اسد قیصر،حامد خان، اعجاز چوہدری اور عارف علوی وغیرہ کی اقتداء میں کام کریں لیکن جب سے نئے چہرے آرہے ہیں، پرانے چہرے غائب ہوتے جارہے ہیں ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پرانے ساتھی بھی مایوس ہوجائیں اور یہ نئے آنے والے فصلی بٹیرے بھی کوئی نئی جگہ دیکھ کر بھاگ جائیں۔ ان لوگوں کا مسئلہ ہے کہ جس تیزی سے ساتھ آتے ہیں اسی تیزی سے ساتھ چھوڑتے بھی ہیں۔ عمران خان کے بارے میں پہلے بھی یہ رائے تھی اور گزشتہ ہفتے ان کے ساتھ گپ شپ کے نتیجے میں مزید پختہ ہوگئی کہ ارادے ان کے نیک ضرور ہیں لیکن سہانے نعروں اور مخالفین پر اعتراضات کے سوا ان کے ذہن میں تبدیلی کا کوئی واضح خاکہ اور روڈ میپ نہیں ہے ۔ بہت سارے قومی ایشوز سے متعلق اب بھی وہ خالی الذہن یا پھر کنفیوز ہیں۔ اب جبکہ وہ ایک بڑی سیاسی قوت کے لیڈر بننے چلے ہیں تو انہیں صرف نعروں کی بجائے مناسب ہوم ورک کرکے ٹھوس اور قابل عمل پالیسیاں سامنے لانی ہوں گی۔ نہیں تو تحریک انصاف بہت جلد ایک دوسری مسلم لیگ (ق) بن جائے گی ۔ ظاہری لیڈر عمران خان ہوں گے اور پارٹی کسی اور قسم کے لوگوں کے ہاتھوں میں یرغمال بنی رہے گی۔
Source: Jang, 27 Dec 2011
پیامن بھائی پارٹی…سویرے سویرے…نذیر ناجی
میڈیا کا کمال ہے کہ لوگوں کو بغیر پانی کے سونامی اور بغیر انقلابیوں کے انقلاب آنے کا یقین دلا دے۔ یہ جلسوں کا موسم ہے اور گزشتہ چند روز کے دوران جتنے جلسے ہوئے ہیں‘ سبھی تھوڑے بہت فرق کے ساتھ بہت بڑے جلسے تھے۔ لاہور میں عمران خان کے بعد دفاع پاکستان کے نام سے مینار پاکستان پر ہی ایک جلسہ ہوا۔ جو حاضری میں کسی بھی اعتبار سے پہلے کے مقابلے میں کم نہیں تھا۔بنیادی طور پر یہ مذہبی جماعتوں کا جلسہ تھا لیکن اس میں دو بڑی جماعتوں نے حصہ نہیں لیا۔یعنی جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے پاکستان۔ اگر یہ دونوں جماعتیں بھی جلسے میں شریک ہو جاتیں‘ تو یقینی طور پر یہ بے نظیرشہید کے جلسے کی یاد دلا سکتا تھا۔اس کے بعد چشتیاں میں نوازشریف کا جلسہ بھی بہت بڑا تھا اور چھوٹے شہر کے تناسب سے جلسے کی حاضری کو دیکھا جائے‘ تو بلاشبہ یہ بھی ایک بہت بڑا جلسہ تھا۔ انہی دنوں ایم کیو ایم نے ملتان میں ایک جلسہ کیا‘ جو پنجاب میں ایم کیو ایم کے جلسوں میں سب سے بڑا جلسہ تھا اور سیاسی اعتبار سے یہ خصوصی اہمیت کا حامل تھا۔ اس کے اثرات یقینی طور پر پنجاب کی سیاست پر بہت گہرے ہوں گے۔ مگر ان سارے جلسوں کو حاضرین کی تعداد کی مناسبت سے میڈیا پر وہ اہمیت نہیں دی گئی‘ جو تحریک انصاف کے جلسے کو نصیب ہوئی اور بعض چینلز پر تو ٹی وی پر لائیورپورٹنگ کرنے والوں نے ایسے جوش و خروش سے تقریریں کیں‘ جیسے وہ خود پرجوش سیاسی کارکن ہوں۔ ان کے انداز سے لگتا تھاکہ بس چلے تو یہ اعلان بھی کر دیں کہ قائد اعظم نے تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کر دیا ہے۔ اس وقت فوجی قیادت ‘ سیاسی معاملات میں سختی سے لاتعلقی کی پالیسی پر گامزن ہے۔ ورنہ جنرل ضیا یا جنرل یحییٰ خان کا زمانہ ہوتا‘ تو مزار کی ڈیوٹی پر مامور گارڈز سے یہ بھی کہلوایا جا سکتا تھا کہ قائد اعظم نے جلسے کے شرکاء کو اپنی حمایت کا یقین دلا دیا ہے۔
ان دنوں ذوالفقار علی بھٹو کی مثالیں کثرت سے دی جا رہی ہیں۔ مثالیں دینے والوں کو شاید یاد نہیں کہ اس وقت کے میڈیا میں بھٹو کا نام تک شائع نہیں ہوا کرتا تھا۔ جماعت اسلامی کی کارنر میٹنگ بھی ہوتی تو اس کی بڑی بڑی تصویریں شائع ہوا کرتیں اور مقررین کی تقاریر کو تفصیل سے نقل کیا جاتا اور بھٹوصاحب لاکھوں کے جلسے سے بھی خطاب کرتے‘ تو ان کی خبر اندرونی صفحات پر سنگل کالم شائع ہوتی۔ جماعت اسلامی نے یوم شوکت اسلام کے نام سے ایک جلوس نکالا‘ تو اس کی خبریں آٹھ آٹھ کالم میں تصاویر کے ساتھ ہیڈلائنز کے طور پر شائع ہوئیں۔ چند ہی روز بعد پیپلزپارٹی اور جمعیت العلمائے اسلام نے مل کر کاروان جہاد کے نام سے ایک جلوس نکالا‘ جس کے شرکاء کی تعداد جماعت اسلامی کے جلوس سے کئی گنا زیادہ تھی۔ مگر اس وقت کے اخباروں میں اس کی ایک چھوٹی سی تصویر اور دو کالمی خبریں شائع ہوئیں اور بڑے اخباروں نے تو انہیں بھی اندرونی صفحات پر جگہ دی۔میڈیا نے اس زمانے میں جو فضا پیدا کر رکھی تھی‘ اسے دیکھ کر کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پیپلزپارٹی مغربی پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرے گی۔ خود سٹیک ہولڈرز غلط فہمیوں میں مبتلا ہو گئے تھے۔ جماعت اسلامی کے حامی مبصرین جو ایک بار پھر سے پیش گوئیاں کرنے لگے ہیں‘ اس زمانے میں جماعت اسلامی کو عوامی لیگ سے بھی زیادہ انتخابی کامیابی دلایا کرتے تھے اور انتخابی نتائج کے بارے میں ان کے اندازوں کے مطابق پیپلز پارٹی کو صرف بیس اکیس نشستیں ملا کرتی تھیں اور عوامی لیگ کو اس سے دوگنا‘ باقی ساری نشستیں دائیں بازو کی جماعتوں کے حصے میں دکھائی جاتی تھیں۔ لیکن جب نتیجہ سامنے آیا‘ تو85فیصد سے زیادہ نشستیں انہی دو جماعتوں کو ملیں‘ جن کا جیتنے والوں میں شمار تک نہ ہوتا تھا۔ میڈیا کے دھوم دھڑکے اور اصل عوامی موڈ ہمیشہ یکساں نہیں ہوتے اور بعض اوقات تو میڈیا اتنی سینہ زوری دکھاتا ہے کہ حنیف عباسی سے دو مرتبہ ہارنے والے ایک سیاستدان کو ہرانے والے کے مقابلے میں 20گنا زیادہ کوریج دی جاتی ہے۔ آپ کسی بھی دن غور سے ٹی وی نشریات دیکھیں ‘ حنیف عباسی اگر ایک مرتبہ ٹی وی پر نظر آئیں گے‘ تو ان سے ہارنے والے سیاستدان مختلف چینلوں پر 20مرتبہ دکھائی دیں گے۔اسی طرح تقسیم سے پہلے کانگریس کے مقابلے میں مسلم لیگ کو بہت کمزور ظاہر کیا جاتا تھا۔ لیکن جب انتخابات ہوئے‘ تو مسلم لیگ مسلمانوں کی نشستوں پر فیصلہ کن اکثریت سے کامیاب ہو گئی۔ حالانکہ ایک دو کے سوا برصغیر کے تمام علمائے کرام کانگریس کی حمایت یا مسلم لیگ کی مخالفت کر رہے تھے۔ لیکن ایک بات بہرحال ماننا پڑتی ہے کہ میڈیا جس لیڈر یا جماعت کے بارے میں بھرپور مہم چلانے لگے‘ تو ایک عمومی تاثر ضرور اس کے حق میں پیدا ہو جاتا ہے اور یہ امیدیں ابھرنے لگتی ہیں کہ انتخابی کامیابی بھی اسی جماعت کے حصے میں آئے گی‘ جس کے حق میں میڈیا فیصلے جاری کر رہا ہے اور ان فیصلوں پر شک و شبہے کا اظہار کرنے والے کو ہمہ جہتی تنقید کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔
ان دنوں عمران خان کی لہر کو خوب اٹھایا جا رہا ہے اور بڑے بڑے سیاستدان اس لہر کا حصہ بننے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لے جا رہے ہیں اور جاوید ہاشمی کی تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد تو شمولیت کا اعلان کرنے والوں کی قطاریں لگیں گی۔ سردار آصف احمد علی اس کی پہلی مثال ہیں۔ میرے بے شمار دوست تحریک انصاف میں جا چکے ہیں اور ان میں اکثریت کی شہرت کافی اچھی ہے۔ خورشید محمود قصوری‘ جہانگیر ترین‘ اسحق خاکوانی‘ جاوید ہاشمی اور سردار آصف احمد علی تو بڑے لیڈر ہیں‘ مقامی سطح کے لیڈر بھی جوق در جوق عمران خان کی طرف آ رہے ہیں۔ سیالکوٹ سے میرے دوست امتیازالدین ڈارجو بلدیاتی سطح پر اپنا ٹھوس حلقہ انتخاب رکھتے ہیں‘ وہ بھی اپنے بیٹے کے ساتھ تحریک انصاف میں شامل ہو چکے ہیں۔ سیالکوٹ سے یاد آیا کہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان بھی جاتے جاتے رہ گئیں۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ وزیراعظم گیلانی نے انہیں اپنی وزارت کے سارے اختیارات دے دیئے۔ وہ اختیارات بھی جو روایتی طور پر ہمیشہ سیکرٹری کے پاس رہے ہیں۔ واقفان حال ان اختیارات میں بھرے رس کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے پیپلزپارٹی سے اپنے اکتائے ہوئے دل کو تھوڑی دیر کے لئے بہلاتے ہوئے ”قیام و طعام“ کے عرصے میں تھوڑا سا اضافہ کر دیا ہے۔ لیکن انتخابات سے پہلے وہ حتمی فیصلہ ضرور کریں گی۔ انتخابی سیاست کے ماہرین نے بغیر پانی کے سونامی کی لپیٹ میں آنے والے بڑے بڑے ناموں کی فہرست بنا کر جو تجزیئے کئے ہیں‘ ان کے مطابق نام ضرور بڑے ہیں مگر ان کی انتخابی طاقت اس طرح یقینی نہیں‘ جس طرح ن لیگ‘ پیپلزپارٹی اور ق لیگ کے انتخابی امیدواروں کی ہے۔ میں نام نہیں لکھ رہا لیکن تحریک انصاف میں شامل ہونے والے بڑے بڑے ناموں کی گنتی کر کے دیکھ لیں‘ جن کے بارے میں لغاری برادران کی طرح وثوق سے کہا جا سکے کہ وہ انتخابات میں کامیاب ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ابھی انتخابات میں بہت وقت پڑا ہے۔ کچھ نہیں کہا جا سکتاکہ تب تک تحریک انصاف کے زور میں اضافہ ہوتا ہے یا وقت کا فاصلہ طے کرتے کرتے سونامی کے زور میں کمی آتی ہے۔جلسوں کی حاضری دیکھ کر اندازے لگائے جائیں‘ تو پھر دینی جماعتوں‘ ایم کیو ایم‘ جماعت اسلامی اور نواز شریف کے جلسے بھی چھوٹے نہیں ہیں۔ بس وہ پیا یعنی میڈیا کے من کو نہیں بھائے۔کراچی کے جلسے میں واضح تھا کہ یہ ایم کیو ایم کی ”رضامندی“ سے ہو رہا ہے۔
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=584172