President’s illness and the memo-phobes – by Moazzam Raza Tabassam
میموگیٹ کیس میں بغیر کسی نظرثانی درخواست سپریم کورٹکا وفاق کو سننے کا فیصلہ صدر آصف علی زرداری کی بیماری کوسیاسی بحران بنا کر پیش کرنے والوں کو ایکبار پھر بے نقاب کرگیا۔میمو گیٹ پر شور و غوغا کرنے والوں کو پاکستان اور اسکی سیاسی تاریخ کو نہیں بھولنا چاہئے۔ ایسے میمو اور غیر ملکی مدد سے اقتدار کو برقرار رکھنے کی کوششیں مسلم لیگ کا تاریخی طرئہ امتیار رہا ۔
لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد گورنرجنرل کے عہدہ چھوڑ کر وزیراعظم بننے والے خواجہ ناظم الدین نے اپنے اقتدار کو بچانے کےلئے ملکہ برطانیہ کو مداخلت کےلئے اپیل بھیج کر” میمو ہیلپ لائن“ کی بنیاد رکھی ۔ میاں نواز شریف نے اپنے بھاری مینڈیٹ والے دور حکومت میں کارگل جنگ اور پھر ستمبر 1999ءمیں امریکہ کو اسی میمو ہتھیار کے ذریعے اپنی حکومت بچانے کی کوششٰیں کیں ۔ کارگل جنگ کے دوران اس دور کے امریکی صدر بل کلنٹن کے معاون خصوصی بروس ریڈل جو اس واقعہ کا حصہ تھے اپنی تصنیف” ©امریکی ڈپلومیسی اینڈ 1999کارگل سمٹ ایٹ بلئیر ہاﺅس ©©© “ میں منکشعف کرتے ہیں کہ ” نواز شریف نے کارگل جنگ کے موقع پر جون 1999ءمیں امریکہ کو بیوی بچوں سیمت واشنگٹن آنے کا پیغام بھجوا یا جو واضح اشارہ تھا کہ اگروہ کارگل معاملہ حل کرنے میں کامیاب نہ رہے تو پاکستان واپس نہیں جا سکیں گے اور انکی حکومت کی چھٹی کروا دی جائیگی ۔ “
بروس ریڈل تو یہ بھی بتاتے ہیں کہ کارگل مذاکرات میں نواز شریف نے ایک نان پیپر معاہدہ بھی کیا جو خطے میں امریکی ترجیحات کو جاری رکھنے کےلئے تھا مگر نواز شریف اس نان پیپر معاہدے پر عمل درآمد ہی نہیں کر سکے۔کلنٹن انتظامیہ کارگل تنازعہ حل ہونے کے بعد ستمبر 99ءتک انتظار کرتی رہی ۔ستمبر میں نواز شریف نے شہباز شریف کو واشنگٹن بھجوایا ۔امریکی انتظامیہ کا خیال تھا کہ شہباز شریف نان پیپر معاہدہ پر پیش رفت کےلئے بات چیت کرنے آئے ہیں مگرشہباز شریف نے کلنٹن کی مذاکراتی ٹیم انڈرفرتھ اور بروس ریڈل کو بتایا کہ انکی تو حکومت خطرے میں ہے اس لئے امریکہ مدد دے یعنی نواز شریف حکومت کے خلاف متوقع سازش کو روکنے کےلئے پاکستان کے سیکیورٹی آپرٹس پر اثر انداز ہوا جائے۔اور اس میمو کا ہی نتیجہ تھا کہ کلنٹن نے اپنی ٹیم کو ہدایت دی کی نواز شریف کو پھانسی پر جھولنے سے بچایا جائے اور پھر جنرل مشرف کو عرب حکمرانوں کی مدد مچھر والی جیل سے ” سرور پیلس “ منقل کرنے کا معاہدہ ہوا ۔
پیپلزپارٹی پر عوام میں موجود اعتماد متذتذل کرنے کےلئے آصف علی زرداری پر ماضی میں بنائے گئے جھوٹے مقدمات جن کو بنانے والوں نے این آر او کے ذرےعے خود ساختہ تسلیم کیاکہ یہ سیاسی مقاصد کےلئے قائم کئے گئے تھے ۔این آر او کو پھر متنازعہ انداز میں اچھالا گیا اور اپنے فیصلے پر منصف نظر ثانی کرتے ہوئے بھول گئے کہ ایک آمر سے انہیں بھی ایسے ہی جھوٹے الزامات کا سامنا کرنا پڑا تھا ، اور ان الزاما ت کا ٹرائل کرانے والوں کا انجام بھی قوم کے سامنے ہے۔اب میمو ایشو بھی ایوان صدر کو نشانہ بنانے کےلئے نیا ہتھیار ٹھہرا۔
دیکھا جائے تو حسین حقانی کے حوالے سے جس میمو کا چرچا کیا جا رہا ہے ۔ اس کے کئی نکات پر جنرل پرویز مشرف اپنی کتاب میں اعتراف کر چکے ہیں ۔ دور مشرف کی پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی آن ریکارڈ تقاریر میں سب ہی نکات موجود ہیں ان کی کسی بھی مرحلے پر نواز شریف یا کسی بھی اس دور کے اپوزیشن جماعت نے تنسیخ نہیں کی۔ پھر کمیشن بنانے کا اختیار بھی تاحال ایک سوال ہے اور متنازعہ معاملہ ہے کہ کمیشن بنانے کا آئینی استحقاق چیف ایگزیکٹو کا ہے ۔ کمیشن کےلئے سربراہ کی تقرری پر اعتراض پر نامز د سربراہ طارق کھوسہ کا انکار بھی اس مقدمہ کے ٹرائل میں نقائص کو واضح کر گیا ۔
صدر آصف علی زرداری کی بیماری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مصنوعی سیاسی بحران پیدا کرکے پیپلزپارٹی کا عوام میں اعتماد متزلزل کرنے کی کوشش کی گئی یہ گذشتہ ساڑھے تین سالوں میں روز کی کہانی ہے ۔ اب توتجزیہ کار اور سیاسی حریف بھی اس امر کا اعتراف کرتے ہیں کہ عوام سے منتخب حکومت اور پاکستان کی تاریخ میں دوتہائی اکثریت سے منتخب کردہ سویلین صدر ا نتہائی نازک حالات میں ملک کو کسی بڑے سانحے سے دوچار کئے بغیر ملک کو نہ صرف ترقی کے راستے رکھا ، دہشتگردی کےخلاف کامیابیاں حاصل کیں ۔
جمہوریت کی بحالی کے بعد عبوری دور میںپیپلزپارٹی کے بانی چیئر مین شہید ذوالفقار علی بھٹو کا پاکستان کے عوام کو دیا 1973 کا آئین بحال کیابلکہ اس آئین میں تشکیل کے مرحلے پر کئے زیر التواءوعدوں کو بھی پورا کردیا ۔ صوبائی خودمختاری دیکر وفاق پاکستان کو مضبوط کرنے کےلئے آئینی حقوق کی صوبوں کو منتقلی کا عمل شروع کردیا ۔پاکستان میں جمہوریت کو مضبوط بنانے کےلئے مفاہمت کا کلچر رائج کیا۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار صدر مملکت نے اپنے اختیارات پارلیمنٹ کو از خود واپس کئے ، پارلیمنٹ خود مختار بنائی ۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہو ا کہ اٹھارویں ترمیم کے نتیجہ میں بے اختیار ہونے والا صدر عوام کے اعتماد کی حقیقی طاقت رکھتا ہے جو کسی بھی سیاسی رہنما کا سب سے بڑا ہتھیار بھی ہوتا ہے اور ڈھال بھی۔اسے اقتدار کو بچانے کےلئے امریکی مدد کی ضرورت کیوں ہوگی جبکہ پیپلزپارٹی کی طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔جب میمو ایشو پر سپریم کورٹ میں وفاق کا موقف آئے گا ، ایبٹ آباد کمیشن اور پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی میں صدر مملکت کے بیانات سامنے آئیں گے تو ےقینا عوامی جمہوری حکومت کیخلاف ان سازشوں کی مزید گرہیں کھلیں گی۔
zardari Mulk ka Gaddari hai