aik Zardari, sab per bhari – by Shoaib Adil


ایک زرداری سب پر بھاری

جوں جوں سینٹ کے الیکشن قریب آتے جارہے ہیں الیکٹرانک میڈیا میں جمہوریت کو ایک ناکام نظام ثابت کرنے کا پراپیگنڈہ شروع ہو گیا ہے۔ تقریباً ہر ٹاک شو کا موضوع حکومت کی ناکامی کے گرد گھومتا ہے۔ 26 اکتوبر کو اے آروائی چینل پر کاشف عباسی نے اپنے ٹاک شو میں سارا زور اس بات پر صرف کر دیا کہ موجودہ حکومت ہی نہیں بلکہ جمہوری نظام ناکام ہو چکا ہے، عوام بھوکے مر رہے ہیں، خودکشیاں کر رہے ہیں لوگوں کو کھانے کو نہیں مل رہا لہذا جب تک کوئی تیسری طاقت نہیں آئے گی ملک کا نظام درست نہیں ہو سکتا وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح 27اکتوبر کو جیو نیوز پر حامد میر نے اپنے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں عبدالستار ایدھی کو مدعو کر رکھا تھا جنھوں نے فوج سے اپیل کی کہ وہ کم ازکم چھ ماہ کے لیے اقتدار سنبھالیں تاکہ پاکستان کو کرپشن سے پاک کیا جائے۔ حامد میر کے مطابق عبدالستار ایدھی نے صدر زرداری سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس میں اس کا مطالبہ کیا تھا لیکن اگلے دن کے اخبارات میں عبدالستار ایدھی کا یہ بیان کہیںبھی نظر نہیں آیا۔ جس کا مطلب یہی لیا جا سکتا ہے کہ عبدالستار ایدھی کو جان بوجھ کر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ٹاک شو میں بھرپور کوریج دی گئی اور بالواسطہ طور پر سیاستدانوں اور جمہوری حکومت کو بدنام کیا گیا۔

پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ جب بھی یہاں انتخابات کے نتیجے میں جمہوری حکومت قائم ہوتی ہے تو اس کے خلاف سازشوں کا آغاز ہو جاتا ہے۔ طاقتور حلقوں کی طرف سے جمہوریت، جمہوری نظام اور سیاستدانوں کے خلاف ایک منظم پراپیگنڈہ شروع کر دیا جاتا ہے۔ سیاستدانوں کو کرپٹ ثابت کیا جاتا ہے اور ملک کی تمام خرابیوں کا ذمہ دار انھیں ٹھہرا دیا جاتا ہے۔

جب سے موجودہ حکومت نے انتخابات کے بعد اقتدار اسنبھالا ہے تو جمہوریت مخالف قوتوں کی طرف سے اس حکومت کے جانے کی تاریخیں دی جانی شروع ہو گئیں اور ہمارے الیکٹرانک چینلز کے میزبان اور ان کے پروردہ دانشور ہر پانچ چھ ماہ بعد حکومت کے خاتمے کی پیش گوئی کرتے رہے ہیں اور آج ساڑھے تین سال ہو گئے ہیں حکومت بدستور قائم ہے مگر انھیں اپنے تجزیوں پر کوئی شرمندگی نہیں اور نہایت ڈھٹائی سے اپنے تجزیے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کے ٹاک شوز پر نظر ڈالی جائے تو تقریباً نوے فیصد ٹاک شوز میں حکومت کی تین سالہ کارکردگی زیر بحث ہوتی ہے۔ جس میں ثابت یہ کیا جارہا ہے کہ جمہوری حکومت ناکام ہو چکی ہے، عوام بھوکے مر رہے ہیں، عوام خودکشیاں کر رہے ہیں، گورنمنٹ ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے رقم نہیں، بجلی کا بحران ہے، سرمایہ کاری نہیں ہو رہی، توانائی کے بحران کی وجہ سے ملکی پیداوار نہ ہونے کے برابر ہے۔ حکومت ناکام ہو چکی ہے، جمہوریت ناکام ہو چکی ہے، سیاستدانوں نے اس ملک کو لوٹ لیا ہے لہذا ٹیکنو کریٹ کی حکومت ضروری ہے، عبدالستار ایدھی ہوں یا گلوکار ابرار احمد جو ایک جانب اپنے فلاحی منصوبوں کے لیے سیاستدانوں سے مراعات بھی لے لیتے ہیں اور دوسری طرف جمہوریت کی بجائے ٹیکنو کریٹس کی حکومت چاہتے ہیں۔

بظاہر یہ باتیں درست ہیں، پاکستانی معیشت ایک بحران سے دو چار ہے لیکن اس کی تمام ذمہ داری جمہوری حکومت پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ پاکستان کی تباہی کی ذمہ دار وہ فوجی حکومتیں ہیں جن کی مہم جو پالیسیوں کی بدولت آج ملکی معیشت دیوالیہ ہو چکی ہے۔ پاکستان کی غربت کی بنیادی وجہ ہمارے دفاعی اخراجات ہیں۔ ریاست نے وہ وسائل بھی ہتھیاروں کے حصول میں جھونک دیئے ہیں جو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے تھے۔ بلکہ جنرل مشرف نے تو اس بات کا اقرار کیا تھا کہ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں عوامی بہبود کے لیے جو فنڈز دیئے تھے وہ بھی ہتھیاروں کے حصول میں لگا دیئے گئے کیونکہ پاکستان کو بھارت سے خطرہ تھا۔

ہماری ہیئت مقتدرہ نے بھارت سے خطرے کا ایسا شوشہ چھوڑا ہوا ہے جس کے پردے میں طاقتور حلقے اپنی لوٹ مار جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستانی عوام کو ایک تو مذہب کے نام پر بیوقوف بنایا جاتا ہے اور دوسرے بھارت کی جانب سے پاکستان پر حملے کرنے کا ہوا کھڑا کیا جاتا ہے۔

پاکستان کے وسائل کہاں جا رہے ہیں۔ اس کا اندازہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چئیرمین کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے جو انھوں نے پچھلے دنوں دیا ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین نے لاہور چیمبر آف کامرس میں تاجروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس سال 30جون تک 1558 بلین روپے ریونیو اکٹھا کیا گیا جس میں سے 750 بلین قرضوں کی ادائیگی میں اور 450 ملین دفاعی اخراجات پر بقایا 350 بلین حکومتی اخراجات کی نذر ہوجاتے ہیں جبکہ ترقیاتی منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے 64 سالوں میں ہمارا تعلیم و صحت کا انفراسٹرکچر بہتر ہونے کی بجائے بوسیدہ ہو چکا ہے۔

موجودہ حکومت کی اب تک کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ صدر زرداری نے اپنے پتے اس ہوشیاری سے کھیلے ہیں کہ ان کے مخالفین کو سمجھ نہیں آرہی کہ ہمارے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔ ایک وقت تھا کہ میڈیا اور عدلیہ نے این آر او کے پردے میں صدر زرداری کو ٹارگٹ کیا ہوا تھا اور ایسا سماں باندھ دیا گیا کہ صدر زرداری کسی بھی لمحے رخصت ہو سکتے ہیں لیکن وہ بدستور ایوان ِ صدر میں براجمان ہیں بلکہ سینٹ کے انتخابات میں اپنی اکثریت حاصل کرنے کی منصوبہ بندی بھی کر چکے ہیںجس میں ان کی کامیابی واضح نظر آرہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے جیالے ایک ہی نعرہ لگاتے ہیں ایک زرداری سب پر بھاری

Source

Comments

comments

Latest Comments
  1. Amjad
    -