Pakistan is heading towards judicial dictatorship – Asma Jahangir

Asma says judicial dictatorship on the cards

KARACHI: People will soon witness a judicial dictatorship in the country if the judiciary continuously moves ahead in its present direction and then we would forget military and political dictatorships, HRCP chairperson Asma Jahangir said on Wednesday.

While speaking at the Karachi Press Club, she said, “People want an impartial judiciary, and it is their right.” She said the HRCP was preparing a charter about judges’ appointments that would comprise requirements such as practice period of the person, and their proceedings of human rights’ cases and about other public interest matters. “We would not like pro-establishment judges.”

Referring to a meeting between Prime Minister Yousaf Raza Gilani and Chief Justice of Pakistan Iftikhar Mohammad Chaudhry, she said the HRCP would not accept any give-and-take as an outcome of the meeting.

To a query, she said neither the parliament nor the judiciary were supreme; only the people are supreme because both the institutions have to serve the masses.

She criticised a section of the media and said civil society had always supported freedom of the media, but suppressing any voice in the opposition would go against the rights of the freedom of expression.

The HRCP demanded the government to make public the details of detained or arrested militants during the military operation in Malakand and Swat. The HRCP chairperson said hundreds of women and children of the militants had also been detained.

Source

’عدالتی آمریت کی طرف بڑھ رہے ہیں‘
ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

پاکستان میں انسانی حقوق کمیشن کی سربراہ عاصمہ جہانگیر نے کہا ہے کہ وہ ملک میں عدلیہ کی آمریت آتے دیکھ رہی ہیں جسے کے بعد لوگ سیاسی آمریت بھی بھول جائیں گے۔

انہوں نے اعلان کیا کہ انسانی حقوق کا کمیشن آئین میں اصلاحات کے لیے ایک چارٹر تیار کر رہا ہے جس میں یہ مطالبہ کیا جائے گا کہ اعلیٰ عدالتوں میں جج بننے والوں کے بارے میں عوام کو ان کی پروفیشنل زندگی کے بارے میں آگاہ ہونا چاہیئے اور اس چارٹر پر وہ عوام کی رائے لینے کے لیے مہم چلائیں گے۔

عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا ’میں نے عدالتی آمریت دیکھی ہے ہم اس طرف جا رہے ہیں وہ ایسا سخت وقت ہوگا کہ عوام سیاسی آمریت کو بھول جائیں گے یہ رویہ رکھنا کہ ہمارے منہ سے جو بھی لفظ نکلے اور اسے فوری پورا کیا جائے ورنہ کالے کوٹ والے آپ کو ٹھیک کردیں گے یہ ایک آزاد اور غیر جانبدار عدلیہ کو زیب نہیں دیتا‘۔

کراچی پریس کلب میں بدھ کے روز میڈیا سے بات کرتے ہوئے عدلیہ اور حکومت میں جاری کشیدگی کے بارے میں عاصمہ جہانگیر نے سخت موقف کا اظہار کیا۔ جس وقت وہ میڈیا سے مخاطب تھیں اس وقت وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی ملاقات جاری تھی۔

عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ لوگ سپریم ہیں، پارلمنٹ اور عدلیہ لوگوں کی بنائی ہوئی ہیں، انہوں نے کہا کہ خود عدلیہ کی پالیسی میں بھی یہ ہی لکھا ہے کہ عدلیہ کو انتظامیہ سے فاصلہ رکھنا چاہیئے ۔

وزیراعظم اور چیف جسٹس کی ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملاقات بھی دیکھیں گے ان کی حرکات و سکنات بھی دیکھیں گے،اس سے پہلے ملاقاتیں تو نواز شریف اور آصف علی زرداری کی بھی بہت ہوئیں تھیں۔

ججوں کی معزولی کے وقت سرگرم اور بحالی کے بعد ان ہی ججوں سے مایوس عاصمہ جہانگیر کا کہنا ہے کہ معاملہ حل ہو بھی گیا تو یہ مستقل حل نہیں ۔

میں نے عدالتی آمریت دیکھی ہے ہم اس طرف جا رہے ہیں وہ ایسا سخت وقت ہوگا کہ عوام سیاسی آمریت کو بھول جائیں گے یہ رویہ رکھنا کہ ہمارے منہ سے جو بھی لفظ نکلے اور اسے فوری پورا کیا جائے ورنہ کالے کوٹ والے آپ کو ٹھیک کردیں گے یہ ایک آزاد اور غیر جانبدار عدلیہ کو زیب نہیں دیتا۔

انھوں نے کہا’ ہم آئینی اصلاحات کے حق میں ہیں اگر سرکار اور چیف جسٹس کا آج مک مکا ( فریقوں کے درمیان سودے بازی) ہوگیا تو یہ عوام کا مک مکا نہیں ہے، عوام کے لیے یہ ضروری ہے کہ آئینی اصلاحات ہوں وہ یہ دیکھیں کہ اعلیٰ عدالت کے ججوں کی تعیناتی کا طریقہ کار کیا ہے‘ ۔

عاصمہ نے کہا یہ کہا جاتا ہے کہ اے کو نہیں بی کو جج لگایا جائے مگر یہ اختیار تو عوام کو ہونا چاہیئے جو انصاف کے لیے پریشان ہیں۔ ان کے مطابق انسانی حقوق کمیشن ایک چارٹر بنا رہا ہے جس پر لوگوں کے دستخط لیے جائیں گے اور ان کی رائے کو شامل کیا جائے گا ۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم یا ہائی کورٹ میں کسی بھی جج کی جب تقرری ہو تو ایک شہری کو یہ پتہ ہونا چاہیئے کہ اس نے کتنے اور کس نوعیت کے مقدمات کی پیروی کی اور کتنا ٹیکس ادا کیا ۔

عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ آئندہ جج بننے والوں کے ماضی سے بھی عوام کو آگاہ کیا جانا چاہیئے۔ اگر سارے جج وہ ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کا ذہن رکھتے ہیں یا سارے جج پراسیکیوٹر برانچ سے آئے ہیں یا بڑی بڑی صنعتوں کی نمائندگی کرتے ہیں تو یہ ایک ایلیٹ عدلیہ ہوگی۔ ان کے مطابق یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آنے والے جج نے لیبر یونین کے کتنے مقدمات کی پیروی کی، خواتین، بچوں اور اقلیتوں کے مقدمات کی کبھی پیروی کی ہے یا نہیں کیونکہ جب کوئی جج بنتا ہے تو اس کے لیے سب برابر ہوتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انسانی حقوق کمیشن کی سربراہ عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ حکومت کی تبدیلی کے بعد اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اختیارات کی منتقلی ہوگئی ہے تو یہ اس کی خوش فہمی ہے، ان کے مطابق فوجی آمریت اب کھلے عام سامنے نہیں آئیگی کیونکہ اس نے لوگوں کا غصہ دیکھ لیا ہے۔

Source: BBC Urdu.com

جسٹس ناصر زاہد اسلم

سندھ ہائی کورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس ریٹائرڈ جسٹس ناصر زاہد اسلم نے پاکستان کے وزیر اعظم اور چیف جسٹس پاکستان کے درمیان ملاقات اور عدالتی معاملات بحسن و خوبی طے ہونے کو تو خوش آئند قرار دیا تاہم انھوں نے موجودہ حالات پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا معاملات کو اس نہج پر آنا ہی نہیں چاہیے تھے۔ بلکہ مشاورت کے ذر یعے پہلے ہی طے ہوجانے چاہیے تھے۔

جسٹس ناصر زاہد اسلم نے کہا کہ اسی طرح کے تنازعات ماضی میں بھی اٹھتے رہے ہیں جن سے بچنے کے لئے دونوں بڑی جماعتوں نے میثاق جمہوریت نامی ایک دستاویز میں ججوں کی تعیناتی کا طریقہ کار طے کیا تھا۔

انہوں کہا کہ اس طریقہ کار پر عملدرآمد کے لیے پالیمان کو آئین میں جلد از جلد آرٹیکل 177 میں ترمیم کر کے جوڈیشیل کمیشن تشکیل دینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ایسا نہیں کیا جائیگا اس وقت تک عدالت عالیہ کو مقننہ پر برتری حاصل رہیگی۔

واضح رہے کہ چارٹر آف ڈیموکریسی یعنی میثاق جمہوریت پر پاکستان پیپلز پارٹی کی چییر پرسن بے نظیر بھٹو اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے سربراہ میاں نواز شریف نے 2006 میں لندن میں دستخط کیے تھے۔ یہ دستاویز دونوں جلا وطن سابق وزرائے اعظموں کے ماضی کے تلخ تجربات کی پس منظر میں کئی برسوں کے رابطوں اور صلاح مشوروں کا نتیجہ تھا۔

دستاویز کے مطابق ایک عدالتی کمیشن عدالت عالیہ کے ججوں کی تقرری سفارشات کرے گا۔ جبکہ حتمی منظوری عدلیہ کے لیے بنائی گئی سو ارکان پر مشتمل ایک پالیمانی کمیٹی دیگی۔ جس میں سرکاری بینچوں اور حزب اختلا ف کی مساوی نمائیندگی ہوگی۔

Source: BBC Urdu.com

Comments

comments

Latest Comments
  1. Aamir Mughal
    -
  2. Aamir Mughal
    -
  3. PSF Lahore
    -
  4. PSF Lahore
    -
  5. PSF Lahore
    -
  6. Aamir Mughal
    -
  7. Aamir Mughal
    -
  8. Aamir Mughal
    -
  9. Shoaib Mir
    -
  10. PSF Lahore
    -
  11. Aamir Mughal
    -
  12. truth
    -
  13. Honest
    -
  14. human,s right hahaha
    -