In Memory of Iftekhar Naseem
ہمیں افتخار نسیم ہمیشہ یاد رہیں گے اس لئے کہ ہماری جان پہچان نہ ہونے کے برابر تھی، صرف ایک قاری اور مصّنف کا رشتہ تھا، پھر بھی وہ چند مکالمے جو ہم میں ہوئے ایک اچھا اثر چھوڑ گئے، ان کی شخصیت اور ان کے تخلیقی کام نے بہت متاثر کیا. کبھی آپ نے کوئی پھل دار درخت دیکھا ہو، جتنا زیادہ ثمر لگتے جاتے ہیں اتنا ہی جھکتا جاتا ہے، اس کے برعکس ایسے درخت بھی ہوتے ہیں جو تنومند قد آور اور زمین پر شہزادوں کی طرح ایستادہ ہوتے ہیں، خوبصورت تو دونو ہی ہوتے ہیں، مگر دل کو اصل راحت پھل دار درخت کے ساے میں ہی ملتی ہے. علم اور تجربہ بھی ثمر آور ہے کہ انسان میں انکسار بھر دیتا ہے، انسان جتنا جانتا چلا جاتا ہے اتنا ہی جھکتا چلا جاتا ہے، ہمیں افتخار نسیم صاحب سے مل کر یہی احساس ہوا کہ کسی ایسے شخص سے بات ہوئی ہے کہ جس نے زندگی کو ہر رنگ میں جانا اور برتا ہے، جس کو تجربے نے دانائی بخشی ہے، جسے انسان کے انسان ہونے کا احساس ہے، جس کے لئے انسانیت بڑی ہے. یہاں یہ کہتے چلیں کہ ہماری ملاقات انٹرنیٹ تک محدود رہی وہ بھی کوئی خاص نہیں، مگر جب بات کی تو احساس ہوا کہ وہ پوری توجہ سے پڑھتے اور جواب دیتے ہیں محض رسم نہیں نبھاتے اور شفقت ان کی شخصیت کا خاصہ ہے, اپنائیت ان کی ذات کا حصّہ ہے، انہوں نے اس وجہ سے ہمیں متاثر کیا کیونکہ اس جہاں تگ و دو میں جہاں مسابقت اول و آخر سچائی ہے، جہاں بندوں کو فائدے کے ترازو میں تولا جاتا ہو، وہاں کوئی ابھرتا ہوا شجر نیچے نظر بھی ڈال لے تو خوشگوار سی حیرت ہوتی ہے. بلا شبہ شجر سایہ دار ہونے کا افتخار ہر ایک کو نہیں ملتا.
ان کے نظریات سے اختلاف ممکن ہے اور ہم بھی کوئی عار نہیں سمجھتے کہ ان کی تحریروں اور باتوں سے ہمیشہ متفق ہونا ضروری بھی نہیں مگران کی شخصیت کے کئی اور پہلو تھے جنہوں نے ہمیں متاثر کیا، ان کی ذاتی زندگی بھی انوکھی تھی، تضاد اور بغاوت سے عبارت ، اس میں کوئی شک نہیں کہ بیشتر روایت پسند لوگ ان سے نفرت کرتے ہونگے مگر وہ اپنی جڑوں سے پیوستہ اور روایتوں سے منسلک تھے، اپنی مٹی سے اٹوٹ چاہت اور اپنے لوگوں سے اخلاص ان کی ذات کا حصّہ تھا. اسلام ان کی ذات کا حصّہ تھا اور پاکستان ان کے اندر بسا تھا، ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے مستقل گھر اور ملک یعنی امریکہ سے حاصل شدہ روایتوں پر بھی فخر کرتے تھے، یہ سب ان کی تحریروں سے چھلکتا ہے کہ وہ اپنے ماضی سے منسلک اور حال پر شاداں تھے، ساتھ ہی ساتھ امید ان کی تحریر کا حصّہ اور مثبت سوچ ان کی روایت تھی، ان جیسے کسی شخص کو جو اتنے سارے تضادات میں گھرا، ایک ایسے معاشرے کا حصّہ ہو جو ایسے لوگوں کو ہمیشہ نفرت سے دیکھنے کا عادی ہو، ایک ایسے شخص کو ہمیشہ ہنستا مسکراتا دیکھنا، ہمیشہ مثبت سوچتے هوئے پانا، ہمیشہ خوش اور مطمئن دیکھنا ایک انتہائی خوشگوار تجربہ ہے اور ایک بہت بڑا سبق جو ہم نے ان سے سیکھا اور آج اس تحریر کا محرک ہے، کہ یہ قرض وہ ہم پر چھوڑ گئے، ان کو یاد کرنا اس لئے انتہائی ضروری ہے کہ ان کی چھوڑی روایت کو قائم رکھا جا سکے. ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں اور ان کو کھونا انتہائی تکلیف دہ، اس لئے آج ان سے کوئی نسبت نہ ہوتے هوئے بھی اس بات کا اعتراف کرنا ضروری ہے کہ ان کو ہم سے ان کے ہر قاری، ہر سامع سے یہ نسبت تو تھی کہ وہ ایک مثال تھے کہ انسان کو ہر رنگ میں جینے کا ہنر سکھاتے تھے.
بحثیت ایک شاعر کے انہوں نے اپنے تجربات کو الفاظ کا قالب عطا کیا، اور قاری کو یہ کیفیت بار بار محسوس ہوتی ہے کہ میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
گھر بسا کے چھوڑ دینا کتنا مشکل ہو گیا
رفتہ رفتہ میں بھی اوروں جیسا بزدل ہو گیا
یہ شعر کیا معنی رکھتا ہے اس کا اندازہ وہی کر سکتے ہیں جن کے نصیب میں در بدری آئی ہو، یہاں سے وہاں بھٹکتے بھٹکتے ایک دن انسان رک جانا چاہتا ہے، رشتے دیوار بن جاتے ہیں، مستقبل اجازت نہیں دیتا کہ مزید خطرات مول لئے جائیں. اور وہ رشتے جو آگے بڑھنے کے لے پیچھے چھوڑ دیے تھے؟
طاق پر جزدان میں لپٹی دعائیں رہ گئیں
چل دیے بیٹے سفر پر گھر میں مائیں رہ گئیں
یہ درد جو ہر پردیس جانے والے کے حصّے میں آتا ہے، جو دنیا کی چکا چوند میں ماند پڑ جاتا ہے، وہی اس درد کا اظہار کر سکتا ہے جو اس درد سے گزرا ہو، اور پھر مسافر اگر قصد کرے کہ لوٹ جاے تو اسے یاد رکھنا چاہیے کہ صرف وہی نہیں سارا زمانہ اس کے ساتھ ساتھ آگے بڑھ گیا ہے،
چھوڑی ہوئی بستی کا وہ منظر نہ ملے گا
گھر لوٹ کے جاؤ گے تو وہ گھر نہ ملے گا
اور جانے انجانے افتی نسیم اپنے بارے میں بھی کہہ جاتے ہیں
تو تو آیا یہاں قہقہوں کے واسطے
دیکھنے والے بڑا غمگین سا منظر ہوں میں
ان کی نظم ‘میرے بابا’ انتہائی حساس موضوع پر ایک اچھی کاوش ہے. اور کچھ نہیں تو یہ سوچنا پڑتا ہے کہ کب تک ایک معاندانہ رویہ ہی اول و آخر ترجیح رہے گی؟
ان کے افسانے نے ہمیں بے حد متاثر کیا، جن موضوعات پر لکھنا ہمرے ہاں معیوب سمجھا جاتا ہے ان پر لکھنے کا حوصلہ کرنا افتخار صاحب جیسی شخصیت ہی کے لئے ممکن تھا اور وہی نبھا بھی سکتے تھے، اور یوں ادب خاص کر اردو ادب کو ان کا احسان ماننا چاہیے کہ انہوں نے اس کی رنگا رنگی میں اضافہ کیا اور وہ بند دروازے کھولے جنکے آگے اقدار ،روایت اور خوف کی دیواریں چن دی جاتی ہیں. ‘ ایک تھی لڑکی’، ‘بالغ آنکھیں’، ‘گلو’، ‘کنگ سائز بیڈ’ اور خاص کر ‘اپنی اپنی زندگی’، یہ افسانے اپنے موضوعات اور زبان و بیان کے حوالے سے نادر ہیں، منٹو اور عصمت کے بعد اگر کسی افسانہ نگار نے ممنوعہ راستوں کا سفر کیا تو وہ افتخار ہیں، مگر کیا کریں کہ اب وہ روایت ہی نہیں رہی کہ جہاں لکھنے والوں کو پڑھنے والے ہوتے، کوئی پڑھے تو نوٹس بھی لے.
‘افتی نامہ’ کے نام سے کالم بھی لکھتے رہے اور ایک رڈیو پروگرام بھی کرتے رہے, شکاگو میں پاکستان کا نام لیتے رہے، اردو میں بھی لکھا اور اپنی مادری زبان پنجابی میں بھی ساتھ ہی ساتھ انگریزی میں بھی، مختلف سماجی تنظیموں کے ممبر رہے، جنگ کے مخالف امن کے داعی ، ہند و پاک اشتراک کے بھی داعی رہے، ادیبوں شاعروں فنکاروں کے خادم بھی. افسانوں ، شاعری اور کالموں کے مجموعے شایع ہوے اور دو زیر طبع ہیں. اور بہت کچھ ہے جو ان کی شخصیت کا خاصہ تھا جس پر ان کے احباب ہی روشنی ڈال سکیں گے، یہ مختصر مضمون محض ایک قاری کا سپاس نامہ تھا ایک اچھے انسان کے نام، انسان جس کا خاک کے پردے سے باہر آنا ایک معجزہ ہے .
Thank you, Naveed, for writing this excellent article.
Thank you Abdul, happy that LUBP has given tribute to him, otherwise this sad news is largely ignored by media and scholars in Pakistan, prejudices are always steeper than tragedies.