Let us think for a while -by Naveed Ali

!سوچئے

کراچی میں کیا ہو رہا ہے؟ بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے؟ پختونخواہ میں کیا ہو رہا ہے؟ اقتدار کے ایوانوں میں کیا ہو رہا ہے؟ ہمارے لیڈروں کی تقریروں میں کیا ہو رہا ہے؟ الزام تراشی، نفرت، دھمکیاں، مجاہدے، مبادلے، خون خرابہ اور مزید خون خرابہ، چند فائدوں کے لئے بڑی غلطیاں، خود احتسابی سے دور اندھے خود غرض رہنما اور اتنے ہی لا علم اور مفلوج ان کے پیروکار. خدانخوستہ یہ جمہوریت کا مرثیہ نہیں بلکہ حالات کی عکّاسی ہے. کوئی بلوچ عالموں اور رہنماؤں کا خون بہا رہا ہے تو کوئی شیعہ کو نفرت کی بھینٹ چھڑا رہا ہے، کوئی پشتونوں کو مجرم اسمگلر اور مافیا قرار دیتا ہے تو کوئی مہاجروں کو بھوکے ننگے پناہ گزین, تو کوئی سندھیوں اور پنجابیوں کو ان سب سے ڈرا رہا ہے، قتل و غارت کا بازار گرم ہے، جہالت اور عصبیت کبھی مذہب کے روپ میں آ گھیرتی ہے تو کبھی لسانیت اور نسل کے رنگ میں، مجرم اور قاتل ان سب کی آڑ میں اپنا کام کر رہے ہیں، اصل مجرم پردوں میں چھپے بیٹھے ڈوریاں ہلا رہے ہیں اور لوگ ایک دوسرے کا گلہ کاٹ رہے ہیں. سب غافل، سب حقیقت سے کوسوں دور، نفرت کی آگ میں اندھے، ہجوم کی شکل میں بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکے جا رہے ہیں.

جناب یہ پوری قوم ہی بھوکوں ننگوں کی ہے، ہندوستان سے پناہ لینے آئے ہوں یا یہیں پیدا ہوئے ہوں، یہ بھوکے ننگے نہ ہوتے تو آج کے طرّم خان کانگریس کے ہاتھوں اپنی بچی کھچی جمع پونجی لٹا کر جوتے گانٹھ رہے ہوتے، یہ ان بھوکوں ننگوں کی غلطیوں کی سزا ہے کہ یہ سربراہ آج ہمارے سروں پر سوار تاج و تخت کے مزے لے رہے ہیں. یہ ہندوستان کے مسلمانوں کے مغالطوں کی سزا ہے، تاریخ بے رحمی سے سزا دیتی ہے، یہ سارے قصائی جو ہمارے گلے کاٹ کر، ہمارا خوں بہا کر، ہمیں سے داد طلب کرتے اور پاتے ہیں، ہماری کج فہمی یا خوش فہمی، بزدلی اور خود غرضی کا نتیجہ ہیں. ہم میں سے ہر ایک یہی سمجھتا رہے گا کہ وہ محفوظ ہے اور یہ بھیڑیے سب کو کھا جائیں گے، کراچی میں چند دن میں سیکڑوں جانیں گئیں، کیا ان میں سے کسی ایک کی صورت سے افسوس جھلکتا ہے؟ یہ ابھی بھی اپنی سیاست چمکا رہے ہیں. یہ سب ایک ہیں اور ان کو الگ الگ سمجھنے والے خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں، ان کے پیچھے نعرے مرنے والے سب سے بڑے مجرم ہیں، کیا ان کو بے قصور مجبور لوگوں کا خون نظر نہیں آتا یا سب جانور بن چکے ہیں؟ بھیڑیے جب شکار نہیں کر پاتے تو ایک دوسرے کی تاک میں بیٹھ جاتے ہیں، جو ہلکا سا بھی غافل ہوتا ہے مارا جاتا ہے تاوقتیکہ ایک باقی رہتا ہے، مگر اس ایک کو یہ پتا نہیں ہوتا کہ اب وہ کتنی دیر بچے گا؟ مزے کی بات ہے کہ سب آدرشوں کی بات کرتے ہیں، کچھ باچا خان کے، کچھ بھٹو کے، کچھ جناح کے کچھ لیاقت علی کے، سوال یہ ہے کہ کیا یہ رہنما ایسے حالات برداشت سکتے تھے؟ کیاوہ لوگ جو اٹھ گئے اپنے افکار کی ایسی تذلیل برداشت کر پاتے؟ باچا خان تمام عمر عدم تشدد کے پرچارک اور گاندھی کے پیرو رہے، وہ گاندھی جو حسین شہید سہروردی کے شانہ بشانہ کھڑا تھا تاکہ بنگال میں کشت و خون سے بچا جا سکے، وہ باچا خان جو امن کی شمع کہلاے گئے. جناح جو ہمیشہ امن کے خواب دیکھتے رہے، جن کے نزدیک امن استحکام کی بنیادی شرط تھا. لیاقت علی خان جو اپنا سب پیچھے چھوڑ آئے اور کبھی مڑ کر نہیں دیکھا، اور بھٹو جس نے جان دی مگر اصولوں پر قائم رہا، اسے کس نے روکا تھا اگر سمجھوتے کر لیتا؟ نکل جاتا کون پوچھتا ، آج تک کسی نے ایسے لوگوں پر انگلی اٹھائی ہے جو اس کو کچھ کہتے. ان سب حضرات کے نظریات سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر ان کی اپنے نظریات سے وابستگی پر نہیں، یہ سب دھن کے پکّے با ہمّت لوگ تھے اور اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوئے اسی لئے آج اور کل ہمیشہ عام آدمی میں زندہ رہیں گے، اب ذرا ان کے نام لیواؤں پر نظر ڈالئے، خوف آتا ہے، آج دوست کل دشمن کچھ پتہ نہیں چلتا، اپنی دکان چمکانے کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار، انسانوں کی لاشوں پر کھڑے سیاست کرتے ان بھیڑیوں سے کیوں کسی کو گھن نہیں آتی؟ یہ کیسا معاشرہ ہے؟ یہ کیسے لوگ ہیں؟ یہ کیوں آواز نہیں اٹھاتے؟ یہ کیوں خاموش ہیں؟ یہ کیوں احتساب کا مطالبہ نہیں کرتے ؟ یہ کیسے انسانی جانوں کے نقصان کو برداشت کر لیتے ہیں؟ یہ کیسے خود کو بانٹ لیتے ہیں؟ یہ کیسے مطمین ہو جاتے ہیں؟

یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اس گلے سڑے سیاسی نظام سے مایوسی کا مطلب یہ ہرگز نا ہونا چاہیے کہ کسی اور طاقت، کسی آمر کو گلے سے لگا لیا جاے. یہ سب کردار جو ہماری قسمت کے مالک ہیں، زیادہ تر آمریت ہی کی پیداوار ہیں. اصل زور اس بات پر ہے کہ قوم صحیح معنوں میں جمہوریت کا مطالبہ کیوں نہیں کرتی؟ کیوں سندھی ، مہاجر، پٹھان، بلوچ، پنجابی میں بٹ جاتی ہے؟ کیوں ایسے مجرموں کی پشت پناہی کرتی ہے جو نام نہاد عصبیت کی بنا پر اپنے بن جاتے ہیں ؟ کیا قاتل قاتل کے علاوہ بھی کچھ ہو سکتا ہے؟ کیا ایک مظلوم انسان جو اپنی جان ہار جائے وہ پٹھان اور مہاجر میں بانٹا جا سکتا ہے؟ کیا سندھی مہاجر کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں؟ کیا مہاجر ایسے حیوان ہیں جو کسی کو بھی زندہ نہیں رہنے دینگے؟ کیا پٹھان اتنے بے غیرت ہیں کہ نہتے انسانوں کی لاشیں بچھاتے ہیں؟ کیا بلوچ دہشت گرد ہیں اور انسانیت سے ماورہ قاتل؟ کیا پنجابی خود غرض اور اتنے بے ظرف ہیں کہ اپنے علاوہ کسی کو جینے نہ دیں اور ہر کو غلام بنا کر رکھیں؟ از حد معذرت کے ساتھ یہ سوال کتنے ہی نا شائستہ سہی مگر وقت ہے کہ اس قوم کا ہر فرد با حیثیت پنجابی، پٹھان، سندھی، بلوچ، مہاجر یہ سوال اپنے آپ سے کرے، اپنے گریبان میں جھانکے اور دوسروں کی جگہ خود کو رکھ کر سوچے، ائینے میں حقیقت نظر آئے گی کہ ہم سب عام انسان ایک ہی کشتی کے سوار ہیں، اس عصبیت اور مفلوج سوچ کا شکار کوئی اور نہیں ہم خود ہیں، ہم مجرم کو مجرم اور قاتل کو قاتل محض اس لئے نہیں کہہ پاتے کہ ہم خود کو سچ سے دور لے جاتے ہیں، ہم چند خود غرض لوگوں کے نام نہاد آدرشوں کا شکار ہو جاتے ہیں، ہم کو سمجھنا چائے کہ ایک طرف ہم سب ہیں اور دوسری طرف ہوس کے پجاری ایسے خود غرض لوگ جو ہماری بلی چڑھا کر ہم سے ہی داد پاتے ہیں، گولی کا کوئی مذہب کوئی رنگ کوئی نسل کوئی زبان نہیں ہوتی، خون کا رنگ ہر حال میں سرخ ہی ہوتا ہے، تاریخ المیوں سے بھری پڑی ہے مگر کیا ہم کوئی سبق سیکھنے کو تیار ہیں؟ نہ سیکھیں، ہم نے اپنا مستقبل ایسے لوگوں کے حوالے کر رکھا ہے جو ہر حالت میں اپنے استحقاق اور طاقت کا تحفظ چاہتے ہیں، ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا اگر یہ ملک آدھا رہ جاے یا پونا، لوگ مریں یا جیئیں، سوچنا تو لوگوں نے ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ حقوق کا مطالبہ اور ان کے لئے سیاسی جدّوجہد بہت اہم اور مبارک کام ہے، ایسے لوگ ستائش کے قابل ہیں جو اپنے لوگوں کے لئے قربانیاں دیتے ہیں جدّوجہد کرتے ہیں، ایسے رہنماؤں اور کارکنوں کا سب کو احترام کرنا چاہیے مگر کیا اس بنیاد پرکسی بھی حد تک چلے جانا جائز ہے؟ دنیا کا جغرافیہ تو ہر چند سالوں میں بدل جاتا ہے، جو زندہ رہنا جانتے ہیں وہ اتحاد کے راستے تلاش کر لیتے ہیں، وہ ایک دوسرے کو عزت اور تکریم دیتے ہیں اور سب کو برابر حققوق، ان کے رہنما ایک دوسرے کا مذاق اڑانے اور ٹانگیں کھیچنے کے علاوہ بھی بہت کچھ کرتے ہیں، وہ عوام کو جواب دہ ہوتے ہیں، ان کی قسمت کے مالک نہیں.

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کیا جا سکتا ہے؟ بہت کچھ کیا جا سکتا ہے جناب، سیاسی جماتوں میں خود احتسابی کی روایت کی بنیاد ڈالیں، رہنما اپنے طرز فکر، پالیسی اور بیانات کے لئےکہیں تو جواب دہ ہوں،درون خانہ سیاست اور محلاتی سازشوں سے باہر نکلیں، سیاست سے انتظامیہ کو باہر نکالیں، بڑی سیاسی جماعتوں کے پاس وہ بنیادیں موجود ہیں کہ بلکل نچلی جانب سے قیادت تیار کی جا سکتی ہے، جاگیرداروں سے بلیک میل ہونے کے بجائے اس طرف توجہ دیں، کچھ وقت اقتدار سے دور رہ کر کام کرنا ہوگا مگر اتنا مشکل نہیں، تعلیم پر توجہ دیں، کارکنوں کی تربیت کریں، ہتھیار رکھوا کر قلم کتاب اور بیلچہ ہاتھوں میں دیں، ٹھوس نظریاتی کارکن مسلح قاتلوں سے زیادہ کارآمد ثابت ہونگے، مزدور انجمنوں اور کسان تنظیموں کی حوصلہ افزائی کریں، سیاست کو معیشت سے مربوط کریں، ترّقی اور پیداوار کو زبان اور نسل پر اولیت دیں، صنعتوں کی حوصلہ افزائی کریں خود صنعت کار اور سرمایہ دار نہ بنیں، شکایات کے بجاے اپنے آپ سے اصلاح کا آغاز کریں. اپنے منشور کے بجاے احترام رائے کو اولیت دیں، نفرت کے بجاے اخلاص سے کام لیں، امن پسندی کی روایت ڈالیں، تشدد کا راستہ نہ اپنائیں، لوگوں کی تربیت کریں کہ تشدد اور نفرت سے دور ہٹیں. رویوں میں تبدیلی سے اصل تبدیلی کی راہ ہموار ہوتی ہے، جب تک بنیادی رویے نہیں بدلتے کچھ نہیں بدلے گا، اس قوم کو اپنے رہنماؤں کی رہنمائی کا فرض نبھانا ہوگا، ورنہ یونہی چلتا رہے گا، نہ سمجھیں تو نہ سمجھیں، تاریخ اور وقت کسی کے غلام نہیں ہوتے، ہر عمل کا کچھ نہ کچھ نتیجہ ہوتا ہے، اچھا ہو یا برا وقت کے کانٹے پر سب کو آنا ہوتا ہے، تاریخ انسان کو اس کے عمل کے نتیجوں سے یاد رکھتی ہے اور اسی طرح محبوب یا معتوب قرار دیتی ہے. کوئی ہٹلر بنتا ہے تو کوئی چی گویرا ، کوئی بھٹو کوئی ضیا، کوئی ٹیپو کوئی جعفر، کوئی ظالم کوئی مظلوم، کوئی شکار کوئی شکاری. افراد تو چلے جاتے ہیں ، سچائی تقدیر بن کر رہ جاتی ہے کبھی آبرو تو کبھی ذلّت اور قومیں دنیا میں اپنی جگہ پاتی ہیں،


ہم تو کل خواب عدم میں شب ہجراں ہونگے
تو کہاں جاۓگی کچھ اپنا ٹھکانہ کر لے ؟

Comments

comments

Latest Comments
  1. Zalaan
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.