Mass murder by Pakistan Army in Mohmand – by Hamid Mir
یہ کارروائی کچھ ہفتے قبل کراچی میں پی این ایس مہران پر حملے سے کافی ملتی جلتی تھی۔ فرق صرف یہ تھا کہ مہران بیس میں داخل ہونے کیلئے رات کی تاریکی اور کمزور حفاظتی انتظامات کا فائدہ اٹھایا گیا اور کولاچی پولیس اسٹیشن میں دن کے وقت داخل ہونے کے لئے برقعہ استعمال کیا گیا۔ اس حملے میں مقامی ایس ایچ اوسمیت سات پولیس اہلکار اور ایک بے گناہ شخص شہید ہوگیا اور تقریباً آٹھ گھٹنے کی لڑائی کے بعد دونوں حملہ آور بھی مارے گئے۔ ڈی آئی جی سید امتیاز شاہ اور ڈی پی او محمد حسین حملے کی اطلاع ملنے پر فوراً کولاچی پہنچ گئے اور ڈی آئی جی نے خود حملہ آووں کے خلاف کارروائی کی قیادت کی۔
یہ وہ جرأت و بہادری تھی جس نے پولیس فورس کا حوصلہ بلند کیا اور پولیس نے ایک بکتر بند گاڑی کے ذریعہ تھانے میں داخل ہوکر حملہ آوروں سے براہ راست مقابلے کا فیصلہ کیا۔ مختلف ٹی وی چینلز نے بھی اس کارروائی کا کچھ حصہ براہ راست نشر کیا۔ جب یہ کارروائی ٹی وی چینلز پر دکھائی جارہی تھی تو قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے کئی اراکین پارلیمینٹ نے اس خاکسار سے رابطہ قائم کیا۔ ان صاحبان نے شکوہ کیا کہ پاکستان کا میڈیا کراچی اور کوئٹہ میں سکیورٹی اداروں کے ہاتھوں بے گناہوں کا قتل تو دکھا دیتا ہے اور کولاچی جیسے دور دراز علاقے میں جاری پولیس کی کارروائی بھی دکھا دیتا ہے لیکن جو کچھ قبائلی علاقوں میں ہو رہا ہے اس کا ایک فیصد بھی نہیں دکھایا جاتا۔
یہ بالکل درست ہے کہ پچھلے چند سالوں سے قبائلی علاقوں میں پاکستان کے آزاد میڈیا کی پہنچ کو بالکل ختم کردیا گیا ہے۔ قبائلی علاقوں کی خبریں صرف آئی ایس پی آر کے ذریعہ سامنے آتی ہیں اور آئی ایس پی آر صرف اپنے قابل اعتماد صحافیوں کو مخصوص علاقوں میں لے کر جاتی ہے۔ اگر کوئی صحافی اپنی جان داؤ پر لگا کر خود کسی قبائلی علاقے میں چلا جائے اور تصویر کے دونوں رخ دکھانے کی کوشش کرے تو انتہائی ناپسندیدہ عناصر کی فہرست میں شامل کردیا جاتا ہے۔
میں نے شکوے شکائتیں کرنے والے اراکین پارلیمینٹ سے کہا کہ آپ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں یہ مطالبہ کیوں نہیں کرتے کہ میڈیا کو قبائلی علاقوں میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے؟ اس سوال پر باجوڑ سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی اخونزادہ چٹان فرمانے لگے کہ ہم تو خود اپنے علاقوں کی پولیٹکل انتظامیہ کے سامنے بے بس ہیں۔ پولیٹکل ایجنٹ اپنے علاقوں کے منتخب اراکین پارلیمینٹ کی کوئی بات نہیں سنتے بلکہ کئی مرتبہ وہ ہمارے ساتھ ہتک آمیز رویہ اختیار کرکے عسکریت پسندوں کے اس موقف کو تقویت پہنچاتے ہیں کہ جمہوریت کسی مسئلے کا حل نہیں۔ اخونزادہ چٹان نے بتایا کہ پچھلے دنوں باجوڑ میں گورنر خیبر پختونخوا مسعود کوثر دورے پر آئے تو پولیٹکل ایجنٹ نے ان کے سامنے میری بے عزتی کی۔
مسئلہ یہ ہے کہ قبائلی علاقوں کے اراکین پارلیمینٹ اسلام آباد میں بیٹھ کر قانون سازی میں حصہ تو لیتے ہیں لیکن اس قانون کا اطلاق قبائلی علاقوں پر نہیں ہوتا وہاں فوجی افسران اور پولیٹکل ایجنٹ کی مرضی چلتی ہے اور اسی لئے دس سال گزرنے کے باوجود قبائلی علاقوں میں حالات کنٹرول نہیں ہو رہے پاکستان کا میڈیا کراچی میں رینجرز کے ہاتھوں ایک نوجوان کا قتل تو دکھا سکتا ہے لیکن شمالی وزیرستان اور باجوڑ میں ڈرون حملوں میں مارے جانے والے بے گناہوں کا المیہ نہیں دکھاسکتا۔
شمالی وزیرستان سے ملحقہ کرم کے علاقے میں کئی سڑکیں کافی عرصہ سے بند ہیں۔ یہاں روزانہ ظلم و ستم کے نئے ریکارڈ قائم کئے جاتے ہیں لیکن میڈیا یہاں تک نہیں پہنچ سکتا۔ پچھلے پانچ سالوں میں درجنوں صحافیوں کو قبائلی علاقے چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا کیونکہ میڈیا کی موجودگی نہ تو عسکریت پسندوں کو قبول ہے اور نہ ہی سیکورٹی فورسز کے مفاد میں ہے۔ قبائلی علاقوں میں آئے روز ایسے واقعات پیش آتے ہیں جو میڈیا کے ذریعہ منظر عام پر آجائیں تو عام پاکستانیوں کو احساس ہوگا کہ ان کے ملک پر جو عذاب آیا ہے اس کی اصل وجوہات کیا ہیں لیکن بہت سوچ سمجھ کر قبائلی علاقوں میں میڈیا کی پہنچ ختم کردی گئی ہے جس کا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ قبائلی عوام صرف میڈیا سے نہیں بلکہ پاکستان سے بھی مایوس ہوتے جا رہے ہیں۔ 10
/جون کو سینیٹ میں مہمند کے سینیٹر حافظ محمد رشید اور سینیٹر پروفیسر ابراہیم خان نے ایک دل دہلا دینے والے واقعے کا ذکر کیا جس میں مہمند کی تحصیل لکڑے شیخ بابا میں سیکورٹی فورسز نے 38 بے گناہ افراد کو ایک قطار میں کھڑا کرکے قتل کردیا۔ گیارہ اپریل کے دن ان افراد کو محض اس لئے قتل کردیا گیا کہ وہ اپنے گاؤں کے ایک عسکریت پسند کا سراغ بتانے میں ناکام رہے۔ قتل کے بعد ان سب کو ایک گڑھے میں ڈال کر دفن کردیا گیا لیکن مقامی اسکاؤٹس سے برداشت نہ ہوا اور انہوں نے مرنے والوں کے رشتہ داروں کو اصل صورتحال بتا دی۔ جب عوامی رد عمل کا خطرہ پیدا ہوا تو رشتہ داروں کو تمام لاشیں علیحدہ علیحدہ قبروں میں دفنانے کی اجازت مل گئی اور پھر ہر مرنے والے کے لواحقین کو 3/لاکھ روپے دے کر خاموش کرنے کی کوشش کی گئی۔ مرنے والوں میں 12/سال کا ممتاز اور اس کا 43 سالہ باپ محمد صدیق بھی شامل ہے۔ اکثر مرنے والے ایک دوسرے کے قریبی عزیز تھے۔
سینیٹر پروفیسرابراہیم خان نے چیئرمین سینیٹ کو ان 38 افراد کے نام، ولدیت، عمریں اور ایڈریس فراہم کردیئے ہیں تاکہ اس اجتماعی قتل کی انکوائری کروائی جاسکے لیکن آپ دیکھیں گے کہ جب اس اجتماعی قتل کی انکوائری کا مطالبہ ہوگا تو کچھ لبرل فاشسٹ مطالبہ کرنے والوں کو طالبان کا ہمدرد قرار دے دیں گے۔ یہی وہ رویہ ہے جس نے دہشت گردی کے شکار پاکستان کو اندر سے تقسیم کررکھا ہے۔ سچ یہ ہے کہ 25/جون کو کولاچی پولیس اسٹیشن پر خود کش حملہ کرنے والے بھی پاکستان کے دشمن تھے اور گیارہ اپریل کو مہمند میں 38/افراد کو قتل کرنے والے بھی انسانیت کے دشمن تھے۔ دونوں کا احتساب ہونا چاہئے اگر صرف ایک کے احتساب کیلئے یہ ہماری جنگ، یہ ہماری جنگ کا شور مچایا گیا تو پھر تمہاری یہ جنگ کبھی ختم نہ ہوگی اور جنگ کی آگ ہم سب کو جلا ڈالے گی۔
Its surprising that Hamid Mir showed some sense