Jamaati goons misbehaved with woman professor in Punjab University – by Aamir Hussaini

پنجاب یونیورسٹی میں خواتین سے بد سلوکی کب تک؟

فلاسفی ڈیپارٹمنٹ پنجاب یونیورسٹی کی لکچرار سہرین بخاری کے ساتھ اسلامی جمعیت طلبہ کے غنڈوں نے اس وقت بد سلوکی کی جب وہ نوٹس بورڈ پرایک احتجاج کا نوٹس چسپاں کرنےآرہی تھیں-ان کو ننگی گالیاں دی گیئں -ان کو سنگین نتائج کے دھمکیاں بھی موصول ہوئی ہیں- ایک ہفت روزہ رسالہ کےمدیررضوان عطا نے راقم کو فون کر کےاس واقعہ کی رپورٹ دی


میں نےجب اس سلسے میں سہرین بخاری صاحبہ سے رابطہ کیا تو انھوں نے نہ صرف اس واقعہ کی تصدیق کی بلکہ انھوں نے بتایا کہ گزشتہ ایک ہفتےسے غنڈوں نے فلاسفی ڈیپارٹمنٹ کے سٹوڈنٹس کے ساتھ مار پیٹ معمول بنا رکھا ہے جبکہ خواتین سٹوڈنٹس کو جنسی طورپرہراساں کرنے کاسامنا بھی ہےاوران پر شرمناک الزامات لگائےجارہے ہیں- میں نے اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم کی جاری کردہ پریس ریلیز بھی دیکھی ہے جس میں فلاسفی ڈیپارٹمنٹ کے سٹوڈنٹس پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ وہاں جنسی بے رہ راوی اور الحاد کو پروان چڑھا رہے ہیں- گویا اسلامی جمعیت طلبہ کے سٹوڈنٹس نے خود کو مامور من  الله  خیال کر لیا ہے- وہ جس کو چاہتے ہیں اس کےمسلمان ہونے اور جسے چاھتے ہیں کافر ہونے کا فتویٰ دے ڈالتے ہیں


سعودی عرب میں شرطہ اور ایران میں پاسداران انقلاب “بسیج” جو کام سرکاری طور پر سرانجام دے رہے ہیں وہ اسلامی جمعیت طلبہ وہاں سرانجام دے رہی ہے- یہ بدعت ضیاء کے زمانے میں شروع ہوئی تھی جو اب تک جاری و ساری ہے- فلاسفی اور سماجی علوم کے اکثر ڈیپارٹمنٹ انتہا پسندوں کو برے لگتے ہیں- کیوں کہ ان  ڈیپارٹمنٹس پر قبضہ کرنا یا ہولڈ کرنا ناممکن ہوتا ہے- پنجاب یونیورسٹی کا فلاسفی ڈیپارٹمنٹ وہ واحد ڈیپارٹمنٹ ہے جوضیاء کے دورسےلیکراب تک حریت فکراورآزادی اظہار کی علامت بنا رہا ہے- جمعیت کبھی اس ڈیپارٹمنٹ کو سرنہیں کرسکی- ضیاء کے دور میں سب سے زیادہ نقصان فلسفے کی تعلیم کو پھنچا- اکثر کالجوں میں فلسفے کا مضمون سرے سے ختم ہو گیا- اکثرجامعات میں فلاسفی ڈیپارٹمنٹ محض علامتی طور پر رہ گئے، ضیاء کی جہالت گردی کےاس عمل سےسنجیدگی کے ساتھ نمٹنے کی کوشش بعد میں نہیں ہوئی


ضیاء دورمیں ہم سے ہماری حریت فکر چھیننے کی کوشش ہوئی اور اس حوالے سے پہلا وار ہمارے تعلیمی اداروں پرہوا- یہ محض اتفاق نہیں کہ جہاں بھی مذہبی انتہا پسند غلبہ پاتے ہیں وہاں سب سے پہلےجامعات سے فکری آزادی سلب کرلی جاتی ہے اور یہ کام اخلاق، پاکیزگی اور تقویٰ کے نام پر کیا جاتا ہے- ایران میں یہ کام جب بھی ہوا تو ہراس آدمی پرالحاد، کفر، عریانی کا الزام لگا جو مولوی اور جماعتی کے نظریے سے اختلاف رکھتا تھا- ثقافتی انقلاب کے نام پروہاں جامعیت میں کریک ڈاون کیا گیا، اور ایرانی سکالرعبدالکریم سروش کہتے ہیں کہ ثقافتی انقلاب تعلیمی اداروں میں فکری آزادی کا گلہ دبانے کا سبب بن گیا ہمارے یہاں یہ فکری آزادی سالہا سال سے دبا ئی جاتی رہی ہے- میں سمجتا ہوں تعلیمی اداروں میں سہرین بخاری کی طرح دیگر اساتذہ کو بھی آواز بلند کرنی چاہے۔


موجودہ وفاقی حکومت نےاپنےتمام ترروشن خیالی کےدعوؤں کے باوجود عملی طورپرجب بھی فیصلہ کن لمحہ آیا انتہا پسندوں کے سامنےآگےسرجھکانےکےاورکچھ نہیں کیا- پنجاب کا چانسلر اور وی سی بھی اس بارے میں کچھ نہیں کرسکے- جب کہ پنجاب حکومت کے ساتھ راجہ انوراور پرویز رشید جیسے سابق ترقی پسند طلبہ تنظیم کے نامی گرامی طالب علم رہنما ہیں لیکن وہ بھی اس غنڈہ گردی پر چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہے- یہ جامعہ ایک عرصے سے انتہاپسندوں کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے-قانون کی حکمرانی کے  دعوے دار کب اس تعلیمی ادارے کو انتہا پسندوں سے آزاد کرانے کے لئے اقدام اٹھائیں گے۔

 

کہاں ہے راحیلہ قاضی صاحب آپ کی اسلامی فیمنسٹ تعلیمات کا اثر-خواتین کواسلام جو حقوق دیتا ہےان حقوق کے پاسداری لاہور کے اس تعلیمی ادارے میں کہاں چلی جاتی ہے- بیگم عائشہ منورحسن صاحبہ! آپ کیوں خاموش ہیں؟

کیا سہرین بخاری صاحبہ ماں، بہن، بیٹی کی زیل میں نہیں آتی؟ کیاعافیہ صدیقی کے لئے ہی سارے حقوق مخصوص ہیں؟ جماعت اسلامی کا شعبہ خواتین کیوں خاموش ہے؟ اسلامی جمعیت طلبہ کی طالبات کیوں خاموش ہیں ایک استاد کی بےحرمتی پر؟ کیا وہی خاتون قابل احترام ہےجس کا تعلق آپ کی تنظیم سے ہے؟ باقی سب عورتوں کو بےعزت کرنے کا حکم اسلام دیتا ہے؟ خواتین کے حقوق اسلام میں گن گن کر گنوانے والے مولوی اور پاسداران شریعت کہاں ہیں؟ سب کو سانپ کیوں سونگھ گیا ہے ؟اردو پرنٹ میڈیا کیوں ان خبروں کا بائیکاٹ کیے ہوئے ہیں؟

Comments

comments

Latest Comments
  1. Imran Zahid
    -
  2. hassaan
    -