accounts of family members of jihadis


From BBC Urdu

جہادی کہانیاں

یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ ماضی میں جہادِ افغانستان اور جہاد کشمیر میں شریک کئی شدت پسند تنظیموں کو پاکستان کے ریاستی اداروں کی مکمل سرپرستی حاصل رہی ہے۔ مارے جانے والے بیشتر شدت پسندوں کو متعلقہ تنظیمیں یا پھر ’خفیہ فرشتے‘ طویل عرصے تک مالی معاونت بھی فراہم کرتے رہے

پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرح جنوبی پنجاب میں آج بھی کئی ایسے ہلاک شدگاں جہادیوں کے اہل خانہ کو مستقل بنیاد پر امداد ملتی ہے۔ پنجاب کے ضلع بھکر کے محمد حسین جاوید نے بتایا کہ ان کے بھائی عمران عباس کشمیر میں مارے گئے۔ انہوں نے اپنے بھائی کی کہانی کچھ اس طرح بیان کی۔

’میرے بھائی کی عمر اٹھارہ سال تھی، دسویں میں پڑھتے تھے اور بھکر میں داخلہ لے لیا۔ میرے والد صاحب بیمار تھے میں ان کے ساتھ تھا۔ جب واپس آگیا۔ ایک دفعہ میری امی نے ایس پی کے پاس جا کر ان کو درخواست دی کہ میرا بیٹا گم ہو گیا ہے تقریباً تین سال سے، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ پھر یہاں کے کچھ لوگ تھے جو حزب المجاہدین کے نام سے تنظیم تھی ان لوگوں کی۔ ان لوگوں نے بتایا کہ کہ آپ کی امی نے ہمارے خلاف درخواست دی ہے پھر وہ گھر آگئے۔ تقریباً تین مہینے گھر میں رہے اور میں نے ان کی شادی کروا دی۔ اس کے بعد کچھ عرصہ وہ گھر میں رہے اور پھر اس کے بعد چلا گیا اور آج تک واپس نہیں آیا۔ جب وہ گھر آتا تھا تو بتاتا تھا کہ ہم کشمیر میں جاتے ہیں جہاد کے لیے۔ شادی میں نے اس لیے کروائی تھی کہ وہ گھر میں رہ جائے۔ جب میں نےان کی شادی کروا دی تو شادی کرنے کے چھ سات ماہ بعد وہ چلے گئے۔ ان کے جانے کے تین یا چار ماہ بعد ان کی بیٹی پیدا ہوئی۔ اس نے اپنی بیٹی بھی نہیں دیکھی۔ سنہ دو ہزار میں ایک دن میں دکان پر بیٹھا تھا کہ ایک ٹیلیفون آیا۔

’ان لوگوں نے کہا کہ آپ کو مبارک ہو آپ کے بھائی کی شہادت ہوگئی ہے۔ نہ لاش آئی نہ کسی نے رابطہ کیا، یہاں کے مقامی لوگوں نے کہا کہ ہمارے افسر آئیں گے آپ کے بھائی کی غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھائیں گے۔ تو پورے اہلِ علاقہ نے اس غائبانہ نمازِ جنازہ میں شرکت کی۔ میں اتنا بیمار تھا اس وقت مجھے ٹائی فائڈ تھا۔ بہت مشکل سے وہ وقت گزارہ میں نے۔ پھر اس کے بعد ان کے افسر آئے تھے، کمانڈر تھے، کون تھے یہ میں نہیں جانتا۔ ان لوگوں نے مجھے کہا تھا کہ آپ کے بھائی شہید ہو گئے ہیں۔ ہم ان کے وصیت نامے ہیں جو کہ آڈیو اور وڈیو کی شکل میں اور ان کے کپڑے ہیں اور کچھ امانتیں ہیں وہ آپ کو واپس لوٹائیں گے تاکہ آپ کو بھی یقین ہو جائے کہ آپ کا بھائی شہید ہو گیا ہے۔ لیکن آج تک نہ کوئی چیز نہیں ملی جس سے یقین ہو کہ ہمارے بھائی شہید ہو گئے ہیں۔

“شہید ہونے والے بھائی کی بیٹی اور میری والدہ کے نام کا مشترکہ اکاؤنٹ ہے اس میں ہر سال بارہ ہزار جمع کرواتے ہیں کہ یہ شہید کی بچی کی شادی وغیرہ کے لیے کام آئیں گے۔”

محمد حسین جاوید

’ہم توغریب لوگ ہیں تازہ مزدوری کرنے والے لوگ ہیں۔ میری بھتیجی میرے پاس ہے اور اب ان کی عمر تقریباً نو سال ہو گئی ہے لیکن ان کی بیوی ان کے شہید ہونے کے چھ ماہ بعد یہاں سے چلی گئی اپنے ماں باپ کے گھر۔ بعد میں میرے دوسرے چھوٹے بھائی سے شادی کی لیکن ان کے ساتھ بھی اس کی نہیں بنی اور بعد میں دو شادیاں اس نے اور کرلی ہیں۔ تنظیم کے کوئی بندے ہیں یا پھر کسی سرکاری ادارے کے لوگ مجھے نہیں پتہ وہ شہید ہونے والے بھائی کی بیٹی اور میری والدہ کے نام کا مشترکہ اکاؤنٹ ہے اس میں ہر سال بارہ ہزار جمع کرواتے ہیں کہ یہ شہید کی بچی کی شادی وغیرہ کے لیے کام آئیں گے۔ ایک دفعہ میں نے پیسے جمع کرانے والے ایک بندے سے پوچھا کہ آپ کون ہیں، کہاں سے آتے ہیں تو انہوں نے کہا تھا کہ آپ ہمیں اپنا بھائی ہی سمجھیں۔‘

پنجاب کے ضلع بھکر میں ہی ایک ریٹائرڈ فوجی بہتھر سالہ محمد شریف سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ایک اور کالعدم جہادی تنظیم کے ساتھ مارے جانے والے اپنے بیٹے محمد تنویر کا قصہ سنایا۔

’میرا بیٹا حرکت المجاہدین والوں کے ساتھ چلا گیا۔ ان کے ساتھ رہا ٹریننگ کرتا رہا، خوشاب میں کمانڈو ٹریننگ کی، مانسہرہ میں بھی انہوں نے ٹریننگ کی۔ اس کے بعد پھر وہ یہاں ایک دفعہ آئے، ہمیں پتا لگا تو ہم نے انہیں کہا کہ آپ یہ کام چھوڑ دیں اس کام میں نہ لگیں۔ آپ کے چھوٹے بچے ہیں ان کی نگرانی کریں۔ انہوں نے کہا کہ نہیں میری آفس میں ڈیوٹی لگ جائے گی میں محاذ پر نہیں جاؤں گا لیکن وہ اندرونی طور پر محاذ میں جانے کے لیے تیار تھا اور جانے کے لیے بھرتی ہو چکی تھی۔

“سنہ دو ہزار ایک میں رمضان شریف کے بعد میرے پاس حرکت المجاہدین کی طرف سے ایک لیڈر آیا۔ انہوں نے مبارکباد لکھی کہ آپ کا بیٹا بارڈر کراس کر گیا۔ میں اس کے پیچھے جاتا رہا مجھے کوئی اطلاع نہیں ملی۔ پھر مجھے تیس مئی دو ہزار ایک کو ایک اطلاع ملی کہ وہ شہید ہو گئے ہیں”

محمد شریف

’سنہ دو ہزار ایک میں رمضان شریف کے بعد میرے پاس حرکت المجاہدین کی طرف سے ایک لیڈر آیا۔ انہوں نے مبارکباد لکھی کہ آپ کا بیٹا بارڈر کراس کر گیا۔ میں اس کے پیچھے جاتا رہا مجھے کوئی اطلاع نہیں ملی۔ پھر مجھے تیس مئی دو ہزار ایک کو ایک اطلاع ملی کہ وہ شہید ہو گئے ہیں۔ (بھارت کے زیر انتظام کشمیر کےشہر) ڈوڈا سے وہ کہیں جا رہے تھے کسی مشن کے لیے دس بارہ آدمی تھے تو وہاں پر ان کا ڈوگرا ریجمنٹ نے محاصرہ کر لیا۔ اس محاصرے میں سے انہوں نے دس اپنے ساتھی باہر نکلوا دیے جو بچ گئے۔ لیکن خود دو ساتھیوں سمیت دس گھنٹے تک پوری ریجمنٹ کا مقابلہ کیا اور پھر شہید ہو گئے۔

’حرکت المجاھدین کے اس کے کچھ ساتھی میرے پاس آئے اور انہوں نے یہ قصہ مجھے بتایا۔ بھکر میں ایک محلہ ہے چمنی محلہ، اس میں حرکت المجاہدین کا دفتر ہوتا تھا عباس چوک کے قریب۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہاں پر ایک کشمیری عورت اور مرد تھے انہوں نے ڈوگرا ریجمنٹ کو کہا کہ یہ ہمارے اپنے بچے ہیں تو ہمارے حوالے کرو۔ اس زبیدہ نامی عورت کو شوہر سمیت ڈوگرا ریجمنٹ والوں نے شہید کر دیا۔ جب میرا بیٹا غائب ہوا تو میں راولپنڈی گیا مولانا فضل الرحمان خلیل سے ملا، مولانا عمر فاروق ہیں کشمیری ان سے بھی ملا انہوں نے مجھے کہا کہ آپ کا رابطہ وائرلیس پر کرواتے ہیں۔ کچھ دیر کے بعد انہوں نے مجھے کہا کہ رابطہ نہیں ہو رہا ہے۔

’میں پھر وہاں ایک رات ٹھہرا اور واپس آگیا۔ پھر مولانا فضل الرحمان خلیل یہاں بھکر میں مولانا سرفراز صاحب کے مدرسے جامعہ فاروقیہ میں آئے۔میں ان سے بھی ملا اور کہا کہ چلو میرا بچہ تو شہید ہو گیا کم از کم اس کی نشانی تو، اس کا بیگ تھا وہ تو مجھے مل جائے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ تلاش کر کے آپ کو دیں گے ابھی تک کچھ نہیں ملا۔ ایک دفعہ انہوں نے مجھے دس ہزار روپے دیے اور اس کے بعد میرا ان کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ بیٹے کی شہادت کی خبر سن کر کافی تکلیف ہوئی لیکن جب یہ جہاد کا معاملہ ہے تو مجھے خوشی بھی ہوئی ہے۔ اس میں تو یہ ہے کہ چلو اچھا کیا جو بھی کیا۔ ہو سکتا ہے اس کی وجہ سے اللہ تعالی میری مغفرت فرمائے۔‘

بھکر سے ڈیرہ غازی خان پہنچے تو بعض مقامی صحافیوں نے بتایا کہ ان کے ضلع میں چند برس قبل تک تو کشمیر اور افغانستان میں مارے جانے والے جہادیوں کی آئے روز غائبانہ نماز جنازہ ہوتی تھی۔ لیکن آج کل صورتحال اس طرح کی نہیں ہے۔ ڈیرہ غازی خان کے غلام علی کھوسہ نے افغانستان میں طالبان کے ساتھ مارے جانے والے اپنے بیٹے تئیس سالہ نیاز احمد کا قصہ سنایا۔

’میرے بیٹے نے قرآن شریف پڑھنے کے بعد ٹرکوں کے انجن کے ایک ورکشاپ میں کام شروع کیا۔ سال دو سال وہاں کام کرتا رہا اور ایک دن شام کو آیا اور کہنے لگا کہ ابا جی مجھے اجازت دو میں جہاد پر جا رہا ہوں۔ انہوں نے اپنے استاد اور بھائیوں سے پوچھا اور چلاگیا۔ بارہ جولائی دو ہزار ایک کو ایک بجے ہمیں اطلاع ملی کہ آپ کا بیٹا قندوز بارڈر پر شہید ہو گیا۔ چار دن کے بعد ان کی میت تابوت میں مجاھدین نے ہم تک پہنچائی۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ امریکہ نے میزائل گرایا یا کسی نے گولی ماری۔ وہ جیش محمد کے ساتھ گئے تھے ان کا ڈیرہ غازی خان میں پہلے دفتر تھا اور پھر دفتر ہی ختم ہو گیا حکومت نے ان پر پابندی لگا دی۔ شروع میں کفن دفن کے لیے تنظیم والوں نے کچھ پیسے دیے بعد میں کسی نے خبر نہیں لی۔‘

(اگلی قسط میں چند مختلف تنظیموں کے ایسے ہی جہادی نوجوانوں کے قصے پیش کریں گے اور بعض کو ملنے والی سرکاری امداد کا تذکرہ بھی ہوگا)

Comments

comments

Latest Comments
  1. Sarah Khan
    -