Pakistan belongs to Captain Hammad and Mastois not Mukhtaran, Zarina and Shazia Khalid

کیپٹن حماد اور مستوئیوں کا پاکستان

ایما ڈنکن نے ضیاء دور کے اپنے قیام کا سیاسی سفرنامہ لکھتے ہوئے اپنی ہر شعبہ زندگی کے لوگوں سے ملاقاتوں کے حوالے سے اس بات کا خصوصیت سے تذکرہ کیا تھا کہ پاکستان میں باتوں اور گفتگو کے دوران جنسی طور پر ذومعنی جملوں کا استعمال انتہائی عام ہے، اورسڑکوں، چوراہوں اور بازاروں میں کھڑے مردوں کی آنکھوں سے جنسی بھوک ٹپکتی ہے. اس حوالے سے ایما نے کئی عملی مشاہدات کابھی تذکرہ کیا

اب ایما کے مشاہدات کا یہ حصہ کسی کے لئے حیران کن نہیں تھا کہ یہ ہمارے ہاں انتہا ئی عام ہے. بلکہ ہمارے ہاں تو عوامی ادب کے جدید سلسلے یعنی ایس ایم ایس میں زرداری کو گالی اور پٹھانوں کے تمسخر کے بعد سب سے پاپولر عنوان ہی جنسی تلذّذ پر مبنی لطائف کا ہے

اگر جان کی امان پاؤں توعرض کروں کہ یھاں تو مولویوں کے زور خطابت میں معاشرے کی اخلاقی گراوٹ اور مغربی تہذیب کے زوال کے دلائل بھی جنسی بے راہ روی کے واقعات کے تفصیلی اظہار اور لفظی منظر کشی کے ذریعے کرکے اپنی اور اپنے سامعین کے جنسی تلذّذ کا ساماں کیا جاتاہے

پچھلے دنوں پڑوس میں ہونے والی ایک شادی میں “بند کمرے میں پیار کریں گے” کی تکرار پر مبنی انڈین گانا شب وروزاس تسلسل کے ساتھ بجایا گیا کہ مارے جھنجھلاہٹ کے مجھے اس سمعی دلخراشی سے بچنے کے لئے خود کمرے میں بند ہونا پڑا

جب ایل یو بی پی کے فورم پر ایک وکیل دوست نے مختاراں مائی کے مقدمے کی کاروائی اورفیصلے کے مندرجات ، اس میں استعمال کی گئی زبان وبیان پر حیرت وافسوس کا اظہار کیا تو یقینا وہ سب پڑھ کر دکھ تو ہوا لیکن حیرت نہیں تھی کہ ججوں نے بھی اپنی زبان وبیان اور ذہنیت سے پاکستانی ہونے کا ثبوت دیا تھا

پرویز مشرف نے تومختاراں مائی کے معاملے کی بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے توجہ دیئے جانے پر جھنجھلاکر بڑے بے رحمانہ انداز میں کہا تھا کہ پاکستان میں شہرت حاصل کرنے کابڑا آسان نسخہ ہے کہ اپنا ریپ کرالو، مگر پرویزمشرف یہ بات فراموش کر گئے کہ ایسے افسوس ناک واقعات کی تشہیر کی بڑی وجہ ایسے واقعے کے شکار افراد کے ساتھ روارکھا جانے والا سلوک، انصاف کی عدم فراہمی اور ہر ریپسٹ کے دفاع میں مشرف اور لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا بچاو کے لئے سامنے آنا ہے

اگر یہاں اعتزاز احسن کی ریاست ماں کے جیسی ہوتی، اور وہ مختاراں مائی اور شازیہ خالد کے لئے ماں کی ممتا کی چھاؤں بن جاتی، تو شاید اس ریاست کے تنخواہ داروں کو یوں منہ کھولنے اور ایسے فیصلے لکھنے کی جسارت نہ ہوتی

جب تک ایسا نہیں ہے تب تک یہ مختاراں، زرینہ مری اور شازیہ خالد کا نہیں بلکہ کیپٹن حماد اور مستوئیوں کا پاکستان کہلائے گا

Comments

comments

Latest Comments
  1. Abdul Nishapuri
    -
  2. Saleem Ahmed
    -
  3. Saleem Ahmed
    -
  4. Saleem Ahmed
    -
  5. Saleem Ahmed
    -
  6. Saleem Ahmed
    -
  7. Saleem Ahmed
    -
  8. Saleem Ahmed
    -
  9. Saleem Ahmed
    -
  10. Saleem Ahmed
    -
  11. TARIQ SHAFI
    -
  12. Humza Ikram
    -
  13. دانیال
    -
  14. Unaiza Fatima
    -