Taliban/Sipah-e-Sahaba’s terrorists massacre 50 Barelvi and Shia Muslims at Sakhi Sarwar shrine in D.G.Khan, scores injured

Related articles: Taliban and Sipah-e-Sahaba’s attack on Eid Milad-un-Nabi rallies

Sipah-e-Sahaba’s attack on Lahore’s Data Darbar, at least 37 killed, 175 injured

Sectarian attack in D.G. Khan: 36 Shia killed, over 30 injured in DG Khan blast

It is widely known that according to two of the most dangerous groups of ISI’s footsoldiers, i.e., extremist Deobandis of the Taliban and Sipah-e-Sahaba and extremist Wahhabis of the Lashkar-e-Taiba, Barelvis are polytheists (mushrik) and Shias are infidels (kafir).

Today’s attack on the Sakhi Sarwar shrine in D.G.Khan which took lives of at least 20 Barelvi Muslims is yet another reminder that ISI’s ‘Good Taliban’ doctrine is destined to fail. Those who are attacking innocent Pakistanis of all faiths and ethnicities have clearly demonstrated times and again that more than anything else they remain loyal to their own sectarian priorities and inclinations.

According to The News: Police have apprehended an alleged suicide bomber. His suicide jacket has been defused while he has been shifted to undisclosed location for investigation.

According to The News: At least 36 devotees were killed and more than 80 people in two blasts near Sakhi Sarwar Shrine, Geo News reported on Sunday. The blasts occurred near the main gate of Shrine blast. Rescue teams have rushed towards the shrine after blast. The injured and dead bodies were being shifted to near by hospitals. The condition of several injured is said to be critical.

According to Xinhua, at least 20 people were killed and over 80 others injured in three serial blasts that occurred Sunday afternoon at a crowded shrine in Pakistan’s central city of Deraghazi Khan, reported local Urdu TV channel Express. According to the report, police have foiled another suicide attack attempt at the shrine following the first two blasts were reported and another two militants were also reportedly arrested at the blast site.

اگرچہ دیوبندیوں اور اہل حدیثوں کی اکثریت امن پسند اور اعتدال پسند ہے لیکن ایک معمولی مگر مؤثر اقلیت کو آئ ایس آئ اور پاکستانی فوج نے اپنے جہادی ایجنڈا کے لیے خوب استعمال کیا ہے . ان دیوبندی اور اہل حدیث یا وہابی جہادیوں میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو بریلویوں کو مشرک اور شیعوں کو کافر سمجھتے ہیں. پاک فوج ان کو ہتھیار اور تربیت فراہم کرتی ہے انڈیا اور امریکہ سے لڑنے کے لیے، لیکن یہ انہی ہتھیاروں اور تربیت سے مسلح ہو کر پہلا حملہ نہتے بریلویوں، شیعوں ، مسیحیوں ، احمدیوں، اور ایسے تمام افراد پر کرتے ہیں جن کو یہ اپنے تنگ نظر اور دقیانوسی فرقہ وارانہ خیالات کی وجہ سے اسلام دشمن سمجھتے ہیں.

سرائیکی وسیب کے مشھور صوفی حضرت سلطان سخی سرور کے دربار پر آج کا حملہ سپاہ صحابہ یعنی انتہا پسند دیوبندیوں کی بربریت کا ایک تازہ ترین نمونہ ہے. افسوس اس بات کا ہے کہ یہ حملہ نہ تو پہلا ہے نہ ہی آخری. پاکستان کے عوام پر اس طرح کے حملے اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک پاک فوج ان جہادی اور فرقہ وارانہ سنپولوں کو دودھ پلانا بند نہیں کرتی. جنرل کیانی اور پاشا کو اس بات کا احساس کرنا ہو گا کہ اسلام کے نام پر جہاد کرنے والے پاک فوج کے نظم و ضبط کی بجاے اپنے مولوی اور مسلک کے غلام ہوتے ہیں. اچھے طالبان اور سٹرٹیجک گہرائی جسے بیکار نظریات پاکستان کو نظریاتی اور مادی گہرائیوں میں دھکیل رہے ہیں .

Express TV report
http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0& www. youtube.com/watch?v=NK4jSeABw-Y

According to Press TV

Pro-Taliban militants and Saudi-inspired Wahhabi extremist groups have launched a violent campaign against Shia Muslims and Sufi gatherings. They appear to have widened their terror campaigns in major Pakistani cities. Several religious gatherings have been targeted in different parts of the country over the past few months.

Since the 1980s, thousands of people have been killed in sectarian-related incidents in Pakistan. Despite an offensive by the Pakistani government against pro-Taliban militants, they have spread their influence in various regions, killing people and security forces every day. More than 4,000 people have died in bomb attacks across Pakistan since 2007.

A brief history of Sakhi Sarwar

Sakhi Sarwar is a town and union council of Dera Ghazi Khan District in the Punjab province of Pakistan. This town is named after a famous Saint Syed Sakhi Sarwar.

Syed Ahmad Sultan Sakhi Sarwar is also known as Lakh Data, Sakhi Sultan and Lalan Wali Sarkar. He was the son of Hazrat Zainul Abedin, who migrated from Baghdad and settled in Shahkot (near Multan) in 1220 AD. He studied in Lahore and later went to Dhounkal, near Wazirabad for higher education. Sakhi Sarwar preached Islam in Sodhra, near Wazirabad. He also stayed at Dhounkal with his contemporary saints Shaikh Shahabuddin Suhrawardy and Hazrat Moinuddin Ajmeri. From Dhounkal, Sakhi Sarwar came to Dera Ghazi Khan and settled in Nagaha, now named after him, Sakhi Sarwar. Many villages in Punjab, India have shrines of Sakhi Sarwar who is more popularly referred to as Lakha Data Pir. (Source)

The town of Sakhi Sarwar was renamed after its saint while previously it was known as Nigaha or Moqam, a sacred place for Hindus. According to the Hindu mythology, god Shiva was born in Moqam and spent his childhood here. Islam started spreading in the area after the arrival of Hazrat Sakhi Sarwar Syed Ahmed in the thirteenth century. Now the Hindus, the Muslims and the Sikhs have great respect and reverence for the saint’s shrine and the town. According to the gazetteer of Dera Ghazi Khan district (1893-97), Hazrat Sakhi Sarwar was born to Hazrat Zainulabdeen in 1220 AD, who had come from Baghdad. Devotees mainly from Punjab and Sindh come here in large numbers to take part in urs which continues almost for two months.

Sher Miandad Khan – Sakhi sarwar Dha Mela

Here is another resource (in Urdu) on Hazrat Sakhi Sarwar:

حضرت سید سلطان احمد سخی سرور

ڈیرہ غازی خان کو اگرچہ ڈویژن کا درجہ حاصل ہےلیکن بلحاظ ترقی بےحد پسماندہ ہے۔
یہاں کی زبان سرائیکی ہے جس میں بےحد مٹھاس اور شیرینی ہے۔ لوگ سادہ‘ ملنسار‘ مودّب اور محبت کرنے والے ہیں۔ شاید یہ نمایاں خصوصیات ان بزرگانِ دین کی تعلیمات کا ثمر ہیں۔ جو اس علاقےمیں بطرف جنوب پچاسی میل کےفاصلے پر کوٹ مٹھن میں حضرت خواجہ غلام فرید بجانب مشرق اڑتالیس میل دور تونسہ شریف میں حضرت سلیمان تونسوی اور مغرب کی سمت پچیس میل دور حضرت سید احمد سلطان سخی سرور شہید آسودہ خواب ہیں۔

سخی سرور میں صرف ایک ہی چھوٹا سا ٹیڑھا میڑھا بازار ہے جس کےشمالی کنارے پر بسوں کا اڈا اور جنوبی سرے پر حضرت سلطان سخی سرور شہید کےمزارِ اقدس کی عمارت کا صدر دروازہ کھلتا ہے۔ اس کےاوپر دو منزلہ کمرے بنےہوئے ہیں اندر داخل ہوں تو سامنےکشادہ صحن اور تین کمرے ہیں جن میں سےایک میں مزارِ مبارک پر چڑھائےگئے پرانےغلاف رکھےہیں۔ اس کےساتھ چھوٹےسےتاریک کمرے میں ہر وقت شمع روشن رہتی ہے۔ دیوار کےساتھ اونچا سا تھڑا ہے جس پر مصلیٰ بچھا ہوا ہے اس پر حضرت صاحب عبادت و ریاضت کیا کرتےتھے۔ اس سےملحقہ کشادہ کمرے میں دائیں کونےمیں آپ کا مزار ہے۔ اس کےقریب چھوٹےسےچبوترے پر ہر وقت چراغ روشن رہتا ہے۔ مزارِ اقدس کےقدموں کی طرف نیچےزمین کےاندر ڈیڑھ دو بالشت چوڑا سوراخ ہے جو قبرمبارک کےاندر جاتا ہے۔ زائرین اس میں ہاتھ ڈال کر کچھ تلاش کرتےہیں۔ بعض اوقات کسی کو کوئی چیز مل بھی جاتی ہے تو وہ خود کو بڑا خوش نصیب سمجھتا ہے۔ مقامی لوگوں کےسوا آٹھ صدیاں قبل جب حضرت سلطان سخی سرور شہادت کےبعد یہاں دفن کئےگئےتو اس ویرانےمیں آپ کی بیوی اور دو بچے بھی ساتھ تھے۔ آپ کی بیوی نےبارگاہِ خداوندی میں فریاد کی کہ اب مجھےکس کا سہارا ہے تو حکم ایزدی سےاس جگہ سے زمین شق ہو گئی جس میں آ پکےبیوی بچےسما گئے۔ اس واقعہ کی کسی مستند حوالےسےتصدیق نہیں ہو سکی لیکن اتنا ضرور ہےکہ آپ کی محترمہ بیگم کی قبر یہیں پر ہے۔

حضرت سلطان سخی سرور شہید کا شجرہ نسب

حضرت سید احمد سخی سرور لعلاں والا بن سید زین العابدین بن سید عمر بن سید عبدالطیف بن سید شیخار بن سید اسمٰعیل بن امام موسیٰ کاظم بن امام جعفر صادق بن امام محمد باقر بن زین العابدین بن حضرت حسین بن حضرت علی۔

مقبرے کےکمرےاور صحن کےبائیں جانب مسجد ہے۔ جس کےتین محراب ہیں، اور کمرے کے ہر کونےمیں آپ کےچار یاروں سخی بادشاہ سید علی شہید، سیدنور شہید، سید عمر شہید اور سید اسحاق شہید کےاسمائےگرامی رقم ہیں۔

مسجد کےبالمقابل مشرقی سمت اونچی سی جگہ پر دو بہت بڑی دیگیں پڑی ہیں جن میں منوں اناج پک سکتا ہےکہتےہیں جب حضرت سخی سرور حیات تھےتو بغیر آگ جلائےان دیگوں میں جو چاہتے پکا لیا کرتےتھے۔

بجانب مغرب جدھر آپ کا چہرہ انور ہے آپ کےچار یاروں کی قبور ہیں۔ حضرت سید علی شہید اور حضرت سیدنور شہید کی پختہ قبریں ایک پہاڑی کی چوٹی پر ہیں جبکہ حضرت سیدعمر شہید اور حضرت اسحاق شہید کی کچی قبور اس کےبالمقابل دوسری پہاڑی کی چوڑی پر ہیں۔ چشم باطن سےدیکھنےوالوں کو یوں احساس ہوتا ہےجیسےآپ اپنےیاروں کی طرف دیکھ رہےہوں۔

حضرت سید احمد سلطان سخی سرور شہید کےوالد بزرگوار حضرت زین العابدین سرزمین پاک و ہند تشریف لانےسےقبل بائیس سال سےروضہ رسول اطہر کی خدمت کرتےچلے آ رہے تھے۔ ایک روز سیدالانبیاء وختم المرسلین نےعالم خواب میں ہندوستان جانےکا حکم دیا۔ آپ نےفوراً رخت سفر باندھا اور ضلع شیخوپورہ میں شاہکوٹ میں قیام کیا۔ یہ 520 ہجری (1126ء) کا واقعہ ہے۔ آپ ہر وقت یادِ الٰہی میں مشغول رہتےتھے۔ گزر اوقات کیلئےآپ نےزراعت کےعلاوہ بھیڑ بکریاں بھی پال رکھی تھیں۔ دو سال کےبعد آپ کی اہلیہ محترمہ بی بی ایمنہ جنت الفردوس کو سدھاریں۔ ان کےبطن سےتین لڑکےحضرت سلطان قیصر، حضرت سید محمود اور حضرت سید سہرا تھی۔ شاہکوٹ کا نمبردار پیرا رہان آپ کا مرید تھا۔ اس نےاپنی کھوکھر برادری سےمشورہ کےبعد اپنی بڑی دختر بی بی عائشہ کو آپ کے عقد میں دے دیا۔ ان کےبطن سے524 ہجری (1130ء) میں حضرت سید احمد سلطان پیدا ہوئےاور پھر ان کے بھائی حضرت عبدالغنی المعروف خان جٹی یا خان ڈھوڈا نےجنم لیا۔

بچپن ، تعلیم و تربیت

آپ بچپن سے ہی بڑے ذہین و فہمیدہ تھے۔ اکثر اوقات اپنے والد مکرم سےشرعی مسائل سیکھتےرہتےتھے۔ ان دنوں لاہور میں مولانا سید محمد اسحاق ظلہ العالی کےعلم و فضل کا بڑا شہرہ تھا۔ آپ کو علوم ظاہری کےزیور سےآراستہ کرنےکیلئےلاہور بھیج دیا گیا۔ حضرت مولانا کی محبت و تربیت و تعلیم کی بدولت آپ ان تمام صلاحیتوں اور صفات سےمتصف ہو گئےجو کسی عالم دین کا خاصہ ہوتی ہیں۔ تحصیل علم کےبعد واپس آکر باپ کا پیشہ اختیار کیا لیکن زیادہ تر وقت یادِ الٰہی میں ہی بسر ہوتا تھا۔ ظاہری علوم کےہم آہنگ علوم باطنی حاصل کرنےکا جذبہ اشتیاق سینےمیں کروٹیں لینےلگا جس میں روزافزوں طغیانی آتی گئی۔ آپ کےوالد محترم نےجب اپنےاس ہونہار بیٹےکا رجحان دیکھا تو اس طرح تربیت فرمانےلگےجیسےمرشد مرید کی تربیت کرتا ہے۔ لیکن دل کی خلش برقرار رہی۔ چاہتےتھےکہ سلوک و معرفت کی راہوں پر گامزن ہوں۔ علم لدنی سےمالامال ہوں اور کسی صاحب حال بزرگ کےدستِ حق پرست پر بیعت ہوں۔

جب 535 ہجری (1141ء) میں آ پ کےوالد گرامی نےرحلت فرمائی اور شاہکوٹ میں ہی مدفن ہوئےتو آپ کےخالہ زاد بھائی ابی۔ جودھا ساون اور مکو نےآپ کو تنگ کرنا شروع کر دیا۔ روزافزوں ان کی چیرہ دستیوں اور زیادتیوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ انہوں نے پیرا رہان کی وفات کےبعد زرخیز زمین اپنےپاس رکھ لی اور بنجر ویران اراضی آپ کےحوالےکر دی لیکن اللہ کےکرم سےوہ زرخیز و شاداب ہو گئی تو وہ بڑے نالاں وافسردہ ہوئےاور حسد کی آگ میں جلنےلگے۔ وہ ہمیشہ اس تاک میں رہتےتھےکہ حیلے بہانے سے آپ کو نقصان پہنچائیں۔

باپ کےوصال کے بعد آپ کی شادی گھنو خاں حاکم ملتان کی بیٹی بی بی بائی سے ہو گئی۔ امراءروساء نےنذرانے پیش کئے۔ جب آپ دلہن کو گھر لائےتو آپ کی والدہ ماجدہ حضرت مائی عائشہ نےگھی کےچراغ جلائےاور خوب خوشیاں منائیں۔ اس پر آپ کےخالہ زاد بھائی سیخ پا ہو گئےاور دل ہی دل میں آپ کو بےعزت کرنےکےمنصوبےبنانےلگے۔ انہوں نےلاگیوں اور بھانڈ میراثیوں کو بہلا پھسلا اور لالچ دےکر بھیجا کہ وہ حضرت سید احمد سلطان کو بدنام و شرمسار کریں اور ترکیب یہ بتائی کہ اگر وہ سیر دے تو وہ سواسیر مانگیں۔ انہوں نےایسا ہی کیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ اپنےنیک بندوں کی خود حفاظت فرماتا ہے۔ آپ نےنہ صرف لاگیوں‘ بھانڈوں‘ میراثیوں کو ہی نہیں بلکہ غربا و مساکین اور محتاجوں کو بےشمار دولت جہیز کا سامان اور دیگر اشیاء سے خوب نوازا اس دن سےآپ سخی سرورر‘لکھ داتا‘ مکھی خاں‘ لالانوالہ‘ پیرخانو‘ شیخ راونکور وغیرہ مختلف القابات سےنوازے جانےلگے۔ لیکن سخی سرور کا لقب ان سب پر حاوی ہو گیا۔ آپ کےخالہ زاد بھائی بھلا یہ کب برداشت کر سکتےتھے لہٰذا ان کی آتش حسد و انتقام مزید بھڑک اٹھی۔ اسی اثناء میں آپ کی والدہ محترمہ اور سوتیلے بھائی سید محمود اور سید سہر راہی ملک عدم ہوکر شاہکوٹ میں ہی دفن ہوئےتو آپ دل برداشتہ ہو گئے۔ کسی مردحق کے ہاتھ میں ہاتھ دینےکا جذبہ بڑی شدومد سےبیدار ہو گیا۔ چنانچہ تلاش حق کیلئے آپ بغداد شریف پہنچےجو ان دنوں روحانی علوم کا سرچشمہ تھا۔

بیعت و روحانی تربیت

آپ نےسلسلہ چشتیہ میں حضرت خواجہ مودود چشتی سلسلہ سہروردیہ میں حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی اور سلسلہ قادریہ میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہم اللہ علیہم سےخرقہ خلافت حاصل کیا۔
بغداد شریف سےواپسی پر آپ نےچند دن لاہور میں قیام فرمایا اور پھر وزیرآباد کےقریب سوہدرہ میں دریائےچناب کےکنارے یادِ الٰہی میں مشغول ہو گئے۔ عشق، مشک اور اللہ کےاولیاءکبھی چھپےنہیں رہتے۔ یہ الگ بات ہےکہ عام دنیادار انسان ان کےقریب ہو کر بھی فیضیاب نہ ہو۔ آپ کی بزرگی و ولایت کا چرچا چار دانگ عالم میں ہو گیا۔ ہر وقت لوگوں کا ہجوم ہونےلگا۔ جو بھی حاجت مند درِ اقدس پر پہنچ جاتا تہی دامن و بےمراد نہ لوٹتا۔ آ پکو جو کچھ میسر آتا فوراً راہ خدا میں تقسیم فرما دیتے۔ ہر جگہ لوگ آپ کو سخی سرور اور سختی داتا کےنام نامی اسم گرامی سےیاد کرنےلگے۔ آپ کی خدمت میں حاضر ہونےوالےدنیا کےساتھ دین کی دولت سےبھی مالامال ہونےلگے۔ دن بدن آپ کےمحبین، معتقدین اور مریدین میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
دھونکل میں بھی آپ نےچند سال قیام فرمایا۔ جہاں آپ نےڈیرہ ڈالا وہ بڑی اجاڑ و ویران جگہ تھی۔ اللہ تعالیٰ نےاپنےفضل و کرم سےوہاں پانی کا چشمہ جاری فرما دیا۔ مخلوق خدا یہاں بھی جوق درجوق پہنچنےلگی۔ میلوں کی مسافت طےکر کےلوگ آگےاور اپنےدکھوں، غموں اور محرومیوں کےمداوا کے بعد ہنسی خوشی واپس لوٹ جاتےایک دن دھونکل کےنمبردار کا لڑکا مفقود الخبر ہو گیا۔ نمبردار نےحاضر خدمت ہو کر عرض کیا تو ارشاد فرمایا ‘مطمئن رہو شام تک لوٹ آئےگا‘۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
وطن مالوف سےنکلےکئی سال ہو گئےتھے۔ لہٰذا واپس شاہکوٹ تشریف لےگئے۔ اس اثناء میں آپ کی شہرت و بزرگی کےچرچے پورے ہندوستان میں پہنچ چکےتھے۔ سینکڑوں میلوں کا سفر طےکر کےلوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتےتھے۔ آپ کےخالہ زاد بھائیوں کو آپ کی یہ شہرت و مرتبہ ایک آنکھ نہ بھایا۔ اپنےلئےخطرہ محسوس کرنےلگے۔ لہٰذا ان کی دیرینہ دشمنی پھر عود کر آئی۔
جب خالہ زاد بھائیوں کی عداوت انتہا کو پہنچ گئی تو آپ نقل مکانی فرما کر ڈیرہ غازی خان تشریف لےگئےاور کوہِ سلیمان کےدامن میں نگاہہ کےمقام پر قیام فرمایا اور عبادتِ الٰہی میں مصروف ہو گئے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں آج کل آپ کا مزار اقدس ہے اور اب سخی سرور کےنام سےمشہور ہے۔ لوگوں کا یہاں بھی اژدہام ہونےلگا۔ ہر مذہب و ملت کےلوگ آپ کےدرِ دولت پر حاضر ہونےلگے۔ کئی ہندو، سکھ اور ان کی عورتیں بھی آپ کےعقیدت مندوں اور معتقدوں میں شامل تھیں جو سلطانی معتقد کہلاتےتھےاور اب بھی پاک و ہند میں موجود ہیں۔
آپ کےارادت مند ‘عقیدت مند‘ معتقد اور مریدین بےشمار تھےلیکن ان میں سےچار اصحاب خاص الخاص تھے۔ یہ چار یاروں کےنام سےمشہور تھے۔ انہیں آپ سے بےحد عشق تھا۔ آپ بھی ان سے بہت محبت کرتے تھے۔

آپ کےخالہ زاد بھائیوں نےآپ کو یہاں بھی سکھ کا سانس نہ لینےدیا۔ انہوں نےاپنی قوم کےان گنت لوگوں کو آپ سے بدظن کر دیا اور جم غفیر لےکر آپ کو شہید کرنےکیلئے چل پڑے۔ ان دنوں آ پ کےسگے بھائی حضرت سید عبدالغنی المعروف خان ڈھوڈا نگاہہ سے بارہ کوس دور قصبہ ودود میں عبادت و ریاضت میں مشغول رہتےتھے۔ ان کےخادم نےجب خالہ زاد بھائیوں کےعزائم کےبارے میں اطلاع دی تو تن تنہا ان کےمقابلے پر اتر آئےاور بہتر اشخاص کو حوالہ موت کرنےکےبعد جامِ شہادت نوش کیا۔ اس کےبعد وہ سب لوگ نگاہہ پہنچے۔ اس وقت حضرت سید احمد سلطان سخی سرور نماز پڑھنےمیں مصروف تھے۔ چند ایک خادم اور چاروں یار موجود تھے۔ نماز سےفراغت کے بعد جب آپ کو اطلاع دی گئی تو آپ گھوڑی پر سوار ہو گئے۔ بھائیوں نےحملہ کیا تو آپ نے بھی جنگ شروع کر دی اور یاروں سمیت مقام شہادت سےسرفراز ہوئے۔ دم واپسی آپ نےارشاد فرمایا کہ میرےیاروں کو مجھ سے بلند مقام پر دفن کیا جائے۔ چنانچہ حسب الارشاد ایسا ہی کیا گیا۔

شہادت

22رجب المرجب 577 ہجری (1181ء) کو تریپن سال کی عمر میں جب آپ کی شہادت ہوئی تو یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ پہنچ گئے۔ لاکھوں محبین کےقلوب ورد و غم اور ہجر و فراق سےفگار ہوگئے۔ مختلف محبین و مریدین نےآپ کےمزارِ اقدس کی تعمیر میں وقتاً فوقتاً حصہ لیا لیکن بستی سخی سرور کےمکینوں کےبقول مزار کی عمارت کی تعمیر بادشاہ بابر نےاپنی نگرانی میں کرائی تھی اور اس ضمن میں اس نےایک مہر شدہ دستاویز بھی لکھی تھی۔ مغرب کی جانب ایک بہت بڑا حوض بنوایا تھا تاکہ اس میں پانی جمع رہے۔ مسجد کی محراب کےنیچےاور سطح زمین سےتقریباً پچاس فٹ اونچی بابا گوجر ماشکی سیالکوٹی کی قبر ہے کہتے ہیں کہ آپ پہاڑ پر سے پانی لا کر نمازیوں کو وضو کرایا کرتےتھے۔

حضرت سخی سرور شہید کی یاد میں ہر سال مختلف شہروں میں میلہ لگتا ہے جس میں بےشمار لوگ حصہ لیتے ہیں۔ پشاور میں اسےجھنڈیوں والا میلہ کہتےہیں۔ دھونکل میں جون، جولائی کےمہینےمیں بہت بڑے میلےکا اہتمام ہوتا ہے۔ لاہور میں اسےقدموں اور پار کا میلہ کہا جاتا ہے اور ڈیرہ غازی خان میں آ پ کا عرس گیارہ اپریل کو بڑی دھوم دھام سےمنایا جاتا ہے۔ اس میں لوگ دور و نزدیک سےشریک ہو کر اپنی محبتوں اور عقیدتوں کے چراغ روشن کرتےاور فیضیاب ہوتےہیں۔

Source1 Source 2

Situated in the foothills of the Koh Suleman range. Devotees are moving towards the shrine there (you can't see the shrine in this shot). The shrine of Hazrat Sakhi Sarwar, maintaining its peculiarity of being the most frequently visited place in the district since the ancient times.

Comments

comments

Latest Comments
  1. Usman Ghani
    -
  2. Usman Ghani
    -
  3. Abdul Nishapuri
    -
  4. Abdul Nishapuri
    -
  5. Abdul Nishapuri
    -
  6. Abdul Nishapuri
    -
  7. Khalid Aziz
    -
  8. Sarah Khan
    -
  9. Sarah Khan
    -
  10. Abdul Nishapuri
    -
  11. Zalaan
    -
  12. Abdul Nishapuri
    -
  13. Khalid Aziz
    -
  14. Farrukh
    -
  15. Fasi Malik
    -
  16. Abdul Nishapuri
    -