The Sindh Card

Here are two articles, first one by Hasan Mujtaba of BBC Urdu and the second one by Nazir Naji. The articles suggest that contrary to the ‘mainstream’ propaganda, the so called Sindh Card is a tool which has been successfully used by the anti-democracy establishment against the Pakistan People’s Party.

پاکستان میں سندھ کارڈ کی حقیقت
حسن مجتبیٰ
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نیویارک

نومبر میں صدر زرداری کے حق میں گڑھی خدا بخش سے کراچی تک ریلی نکالی گئی تھی
یہ ایک عجیب تاریخی مذاق ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی جس کی یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتیں جو سندھ میں قوم پرستوں کی نظر میں اکثر’وفاق پرست‘ یا اس سے بھی زیادہ ’ پنجاب نواز‘ سمجھی جاتی رہی ہیں ، موجودہ حکومت پر اس کے ’سندھ کارڈ‘ کھیلنے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ اور یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ حکومت میں ہوتے ہوئے بھی اس حکومتی پارٹی اور اس کے حکمرانوں کو ’اسٹیبلمشمینٹ‘ مخالف سمجھا جا رہا ہے۔
جبکہ الٹی حقیقت یہ ہے کہ یہ پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمینٹ ہے جو پاکستان پیپلزپارٹی کے خلاف سندھ کارڈ استعمال کرتی آ رہی ہے۔

’سندھ کارڈ‘ کا نام پہلے اسوقت سنا گیا تھا جب سنہ انیس سو ستتر میں فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے مقبول وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو اپنی زير اثر عدلیہ کے ذریعے پھانسی دلوا کر سندھ میں ہر بچے اور بڑے کے ذہن میں اس خیال کو پختہ کردیا تھا کہ ’ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت اس لیے ختم کر دی گئي کہ سندھی تھے اور پھر انہیں پھانسی محض اسی لیے دی گئي کہ ان کا تعلق چھوٹے صوبہ سندھ سے تھا۔‘
پاکستان پیپلزپارٹی ظاہر ہے کہ جس کی حمایت کا سب سے بڑا مرکز بھٹو کا آبائي صوبہ سندھ ہی تھا، کے مغموم اور غصیلے کارکنوں نے اب ’نعرہ بھٹو نعرہ سندھ، جئے بھٹو جئے سندھ‘ لگانا شروع کیا تھا۔ ضیاء الحق اور اس کی فوجی حکومت نہ فقط سندھ میں زبردست غیر مقبول تھی بلکہ اسے زبردست مزاحمت کا سامنا بغیر قیادت کی پی پی پی اور دیگر سندھی تنظیموں کی طرف سے سرگرمیوں اور تحریک سے سندھ کے کونے کونے سے کرنا پڑنے والا تھا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے ظاہر ہے کہ جس کی حمایت کا سب سے بڑا مرکز بھٹو کا آبائي صوبہ سندھ ہی تھا، مغموم اور غصیلے کارکنوں نے اب ’نعرہ بھٹو نعرہ سندھ، جئے بھٹو جئے سندھ‘ لگانا شروع کیا تھا۔ ضیاء الحق اور اس کی فوجی حکومت نہ فقط سندھ میں زبردست غیر مقبول تھی بلکہ اسے زبردست مزاحمت کا سامنا بغیر قیادت کی پی پی پی اور دیگر سندھی تنظیموں کی طرف سے سرگرمیوں اور تحریک سے سندھ کے کونے کونے سے کرنا پڑنے والا تھا۔
جنرل ضیاءالحق سندھی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو، کی پھانسی کی حمایت کے حصول میں سندھ میں ہی بھٹو مخالف میروں، پیروں، جاگیرداروں، سیاستدانوں اور سندھی قوم پرستوں کو خود سے ظاہر یا خفیہ طور پر ملانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
ان بھٹو مخالف سندھی سیاستدانوں میں پیر پگاڑو، الہی بخش سومرو، محمود ہارون، تالپور برادران اور قاضی بھی شامل تھے۔ ضیاء الحق نے بھٹو مخالف میر رسول بخش تالپور کو سندھ کا گورنر، ان کے بڑے بھائي میر علی احمد تالپور کو وزیر دفاع، قاضی عبدالمجید عابد ( سندھ کے وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کے سسر اور سپیکر قومی اسبملی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کے والد) کو وفاقی وزیر اطلاعات اور محمود ہارون کو بھٹو کی پھانسی کے بلیک وارنٹ پر دستخط کرنے والا وزیر داخلہ بنایا تھا۔

یہاں تک کہ جی ایم سید جیسے سندھی ‍قوم پرستی کے باوا آدم کو ضیاء الحق نے اپنی طرف رام کیا ہوا تھا۔ یہ بھی ایک تاریخی ستم ظریفی ہے کہ زرداری باپ بیٹوں حاکم علی زرداری اور آصف علی زرداری کو بھی ضیاء الحق نے اپنے ریفرنڈم میں حمایتی بنایا ہوا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ پنجاب میں بھی جاگیرداروں اور پیروں کی پوزیشن کوئي مختلف نہیں تھی۔ موجودہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے والد سجاد حسین قریشی پنجاب کے گورنر، اور موجودہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ضیاء الحق کی حکومت کے وفاقی وزیر بنے تھے۔ یہی حال چھٹہ اور وٹو کا تھا۔
یہاں تک کہ جی ایم سید جیسے سندھی ‍قوم پرستی کے باوا آدم کو ضیاء الحق نے اپنی طرف رام کیا ہوا تھا۔ یہ بھی ایک تاریخی ستم ظریفی ہے کہ زرداری باپ بیٹوں حاکم علی زرداری اور آصف علی زرداری کو بھی ضیاء الحق نے اپنے ریفرنڈم میں حمایتی بنایا ہوا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ پنجاب میں بھی جاگیرداروں اور پیروں کی پوزیشن کوئي مختلف نہیں تھی۔ موجودہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے والد سجاد حسین قریشی پنجاب کے گورنر، اور موجودہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ضیاء الحق کی حکومت کے وفاقی وزیر بنے تھے۔ یہی حال چھٹہ اور وٹو کا تھا۔

سندھ میں تالپور برادران کو بھٹو کی پھانسی کی حمایت سے روکنے کے لیے بائيں بازو کے مشہور دانشور اور مدیرمظہر علی خان حیدرآباد گئے تھے لیکن وہ ان کو بھٹو کی پھانسی کی حمایت سے باز نہ رکھ سکے تھے۔ پیر پگاڑو جیسے طاقتور سندھی پیر جن کے مرید نہ فقط سندھ بلکہ پنجاب اور ہندوستان تک پھیلے ہوئے ہیں کو جنرل ضیاء الحق نے اقتدارکی سیاست میں بہت بڑا ’پاور بروکر‘ بنا دیا۔ پیر پگاڑو کی ہی سفارش پر سندھ میں غوث علی شاہ کو ضياء الحق نے پہلے سینیئر وزیر اور پھر وزیر اعلیٰ مقرر کیا۔
انیس سو تراسی میں ضیاء الحق کے خلاف ’پاکستان بچاؤ تحریک‘ کے نام پر ملک بھر میں اٹھنے والی ایم آر ڈی تحریک کا زیادہ تر زور سندھ میں تھا جسے ضیاءالحق کے ریاستی و فوجی تشدد نے مزید متشدد بنا دیا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ضیاء الحق کے خلاف چلنے والی تحریک کو سندھی قوم پرست رہنما جی ایم سید نے اقتدار کے بھوکوں کی تحریک اور ضیاء الحق کی اسٹیبلشمینٹ نے اسے ’سندھو دیش کی تحریک‘ قرار دیا۔ سنہ انیس سو تراسی کی تحریک کے نتیجے میں پاکستانی اسٹیبلشمینیٹ اور میڈیا نے ایک نئي اصطلاح ’سندھ کی احساس محرومی‘ ایجاد کی اور اب ’سندھ کارڈ‘ کے طور پر ضیاء الحق نے اپنے ریفرنڈم اور غیر جماعتی انتخابات کے نتائج میں سندھی وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو منتخب کیا۔

’سندہ کارڈ‘ کھیلتے ہوئے ضیاء الحق اسٹیبلشمینٹ اور خفیہ ایجنسیوں نے نہ فقط لسانی سیاست کو مسلح کرتے ہوئے سندھ میں خونی فسادات کی داغ بیل ڈال کر اپنی فوجی آمریت کو طوالت دی بلکہ انہوں نے سندھ میں مزید قبائلی خونریزی کے لیے خانکی ملیشیا، چانڈیو اور مگسی کلہوڑا فورسز کی بھی ہمت افزائي کی۔ اب یہ کھلا راز ہے کہ ڈاکووں کے کئي ٹولوں کو خفیہ ایجنسیوں کے افسروں اور ضیاء کے غیر جماعتی وڈیروں کی پشت پناہی حاصل تھی۔
’سندہ کارڈ‘ کھیلتے ہوئے ضیاء الحق اسٹیبلشمینٹ اور خفیہ ایجنسیوں نے نہ فقط لسانی سیاست کو مسلح کرتے ہوئے سندھ میں خونی فسادات کی داغ بیل ڈال کر اپنی فوجی آمریت کو طوالت دی بلکہ انہوں نے سندھ میں مزید قبائلی خونریزی کے لیے خانکی ملیشیا، چانڈیو اور مگسی کلہوڑا فورسز کی بھی ہمت افزائي کی۔ اب یہ کھلا راز ہے کہ ڈاکووں کے کئي ٹولوں کو خفیہ ایجنسیوں کے افسروں اور ضیاء کے غیر جماعتی وڈیروں کی آشیر باد حاصل تھی۔
کئي نامی گرامی پتھاریدار ’ضیا حمایت تحریک‘ کے سندھ میں عہدیدار بنے۔ اسی طرح بینظیر بھٹو اور اس کی پاکستان پیپلزپارٹی کو روکنے کیلیے ضیا نے ’سندھ کارڈ‘ خوب کھیلا۔ سندھی قوم پرستوں کا اتحاد ’سندھ قومی اتحاد ‘ کے نام پر ضیاءالحق نے محمود ہارون اور الہی بخش سومرو کی تواسط سے جی ایم سید کے ہاتھوں قائم کروایا۔

ضیا ء الحق کی موت کے بعد انیس سو اٹھاسی کے انتخابات کے نتائج میں بینظیر بھٹو نے مرکز اور سندھ میں حکومت تو بنالی لیکن اسٹیبلشمینٹ کا سندھ کارڈ کھلینا جاری رہا جس کے تحت پنجاب میں نہ فقط تب کے وزیر اعلیٰ محمد نواز شریف نے ’جاگ پنجابی جاگ ‘ کا نعرہ لگایا پر بینظیر بھٹو حکومت کے خلاف ’پارلیمانی کوڈیٹا‘ کے تحت ان کی حکومت کے خلاف قومی اسبملی میں عدم اعتماد کی تحریک میں فوج کے تب کے سربراہ جنرل مرزا اسلم بیگ نے ایم کیو ایم کے ارکین کوتڑوا کر حزب مخالف کی حمایت کا اعلان کروایا تھا۔ اس سے قبل غوث علی شاہ اور غلام مصطفیٰ جتوئي جیسے تب کے غیر مقبول سندھی رہنماء جنہیں سندھی انتخابات میں ٹھکرا چکے تھے کو نواز شریف نے پنجاب سے ترتیب وار نارووال اور کوٹ ادو سے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں جتوایا۔

اگست سنہ انیس سو نوے میں غلام اسحاق خان کےہاتھوں فوج کی ایما پر بینظیر بھٹو کے برطرف ہونے کے بعد اسٹیبلشمینٹ نے سندھ کارڈ کھیلتے ہوئے سندھ میں سندھی قوم پرستوں کا اتحاد پاکستان پیپلزپارٹی کے خلاف جڑوانے کی کوششیں کیں اور انہی کوششوں کے تحت الاہی بخش سومرو کی سفارش پر لیاقت علی جتوئي کو سندھ کا وزیر اعلیٰ لگوایا گیا۔

اگست سنہ انیس سو نوے میں غلام اسحاق خان کےہاتھوں فوج کی ایما پر بینظیر بھٹو کے برطرف ہونے کے بعد اسٹیبلشمینٹ نے سندھ کارڈ کھیلتے ہوئے سندھ میں سندھی قوم پرستوں کا اتحاد پاکستان پیپلزپارٹی کے خلاف جڑوانے کی کوششیں کیں اور انہی کوششوں کے تحت الہی بخش سومرو کی سفارش پر لیاقت علی جتوئي کو سندھ کا وزیر اعلیٰ لگوایا گیا۔

پاکستانی فوجی اسٹیبلشمینٹ کے خلاف زخمی شیرنی کی طرح بپھری ہوئي بینظیر بھٹو اور اس کی پارٹی کو انیس سو نوے کے انتخابات سے باہر رکھنے کے لیے سندھ کارڈ کھلتے ہوئے اسٹبلشمینٹ نے وزارت اعظمیٰ کے سدا بہار امیدوار غلام مصطفی جتوئي کو نگران وزیر اعظم اور سندھ میں جام صادق علی جیسے نظام سقہ بند کو نگران وزیر اعلیٰ مقرر کروا کر بڑ ے پیمانے پر انتخابی دھاندلیاں کروائیں، اس کارروائي کو آئي ایس آئي کا بدنام زمانہ ’جنرل رفاقت الیکشن‘ سیل کہا جاتا ہے۔ آئي جے آئي بنواتے ہوئے جو آئي ایس آئي نے قومی دولت سیاستدانوں میں رشوت کے طور پر بانٹی تھی ان میں خطیر رقوم سندھی سیاستدانوں غلام مصطفیٰ جتوئي اور اسماعیل راہو کو بھی عطا کی گئي تھیں۔

انس سو چھیانوے میں پھر پی پی پی حکومت ختم کرنے کے بعد اب کے اسٹیبلشمینٹ نے جو سندھ کارڈ استعمال کیا اس میں بینظیر بھٹو کے جواب میں’جئے بھٹو جئے سندھ‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے سندھی کنفیڈریشنسٹ قوم پرست سیاستدان ممتاز بھٹو کو سندھ میں نگران وزیر اعلیٰٰ مقرر کیا۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تیس سال تک پاکستانی فوجی اسٹیبلشمینٹ نے پی پی پی اور بینظیر کے خلاف ’سندھ کارڈ‘ ہی استعمال کرتے ہوئے اس کے آبائي صوبے اور حمایت کے مرکز سندھ میں حکومت بنانے سے اسے محروم رکھتے ہوئے اس کے خلاف ایک نشست والے وزرائے اعلیٰ کی مخطوط حکومتیں قائم کی ہیں جن کو ح‍قیقت میں ایک بریگيڈئير اور دو کرنلوں نے ہی چلایا ہے۔ کور ہاوس، کنگری ہاوس، ہالا حویلی اور نائین زیرو، یہی سندھ میں طاقت کے اصل منبع بنا کر پی پی پی کو سندھ کارڈ کے تحت اقتدار سے دور رکھا گیا تھا

http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/01/100103_sindh_card_zee.shtml

….

Nazir Naji:


Comments

comments

Latest Comments
  1. Aamir Mughal
    -
  2. Aamir Mughal
    -
  3. Aamir Mughal
    -
  4. Aamir Mughal
    -
  5. Aamir Mughal
    -
  6. Aamir Mughal
    -
  7. Aamir Mughal
    -
  8. Aamir Mughal
    -
  9. Aamir Mughal
    -
  10. Aamir Mughal
    -
  11. Aamir Mughal
    -
  12. Aamir Mughal
    -
  13. Aamir Mughal
    -
  14. Aamir Mughal
    -
  15. Aamir Mughal
    -
  16. Aamir Mughal
    -
  17. Aamir Mughal
    -
  18. Aamir Mughal
    -
  19. Aamir Mughal
    -
  20. Aamir Mughal
    -
  21. Sarah Khan
    -
  22. Aamir Mughal
    -
  23. Rehan
    -
  24. Umair Wasi
    -
  25. Sarah Khan
    -
  26. Aamir Mughal
    -
  27. Aamir Mughal
    -
  28. Aamir Mughal
    -
  29. tabata mp3
    -
  30. quibids software
    -
  31. ttydvxwjl
    -
  32. Sarah Khan
    -
  33. Vaporesence San Antonio
    -
  34. rent a car in delhi
    -
  35. Timothysuic
    -
  36. fitflops outlet
    -
  37. Brandonacex
    -
  38. yqrnhyop
    -
  39. aetnguhimj
    -
  40. iibmkbwv7486
    -
  41. tzLoBphjc
    -
  42. Geewunee5026
    -
  43. izkrprqh
    -
  44. zuspouqep
    -
  45. dghuoyie
    -
  46. biulaindmsr
    -
  47. Jbmlagjyx
    -
  48. LBDBUQHC
    -
  49. grxfisdthh
    -
  50. discount oakley oil rig sunglasses
    -