Military establishment’s new plan against Asif Zardari and Nawaz Sharif – by Nazir Naji


کوشش پھر سے شروع ہے
…سویرے سویرے…نذیر ناجی

چند روز پہلے سابق رکن پارلیمنٹ اور اسمبلی (پنجاب اسمبلی) میاں آصف کے ساتھ ایک نئے دوست سے ملاقات ہوئی‘ ان کے سیاسی نظریات سے اندازہ ہوا کہ وہ اسوقت مختلف ذرائع سے پھیلائے جانیوالے اس تصور کے زبردست حامی ہیں کہ سیاست میں شخصیات کے اثرورسوخ کو ختم ہونا چاہیے اور عوامی نمائندگی کا حق صرف ایسے لوگوں کو حاصل ہو‘ جو ایک منشوراور پارٹی کی نمائندگی کریں۔

اس سوچ کو فروغ دینے والوں کی اکثریت ‘ اس خیال کی حامی ہے کہ تمام ہمخیال جماعتوں کو مل کر ایک اتحاد تشکیل دینا چاہیے‘ جو چہروں کے بجائے اپنے پروگرام پر ووٹ مانگے۔

میاں آصف چونکہ مسلم لیگ (ق) کے ہمخیال گروپ سے تعلق رکھتے ہیں اسلئے ان کی دلیل یہ تھی کہ یہ گروپ موروثی قیادت کے خلاف کام کر رہا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ آئندہ اسمبلیاں جماعتی بنیادوں پر ایک منشور کے لئے کام کرنے کے وعدے پر منتخب ہوں۔ ایسی اسمبلیاں ہی عوامی اور قومی مفادات کے تحت کام کر سکتی ہیں۔ وہ کسی ایک لیڈر کی محتاج نہیں ہوں گی اور نہ ہی اس کے اشاروں پر فیصلے کرنے کی پابند۔ وہاں فیصلے اصولوں اور عوام کے دیئے ہوئے مینڈیٹ کی روشنی میں ہوا کریں۔ اسی میں ملک و قوم کی نجات ہے۔

معززمہمان کی باتیں سن کر اندازہ ہوا کہ یہ بھی انہی طاقتوں کے حامی ہیں‘ جو پاکستانی سیاست پر مقبول راہنماؤں کے اثر و رسوخ اور ان کی طاقت کا خاتمہ چاہتی ہیں اور ہر دور میں مختلف نعرے اور سیاسی نقشے پیش کر کے‘ اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔

پہلی کوشش میں پاکستان کو تحریک آزادی کے ممتاز قائدین سے چھٹکارا دلانے کے اقدامات کئے گئے۔ ان کے تحت قومی سیاست کے تمام بڑے ناموں کو عملی سیاست سے باہر کر دیا گیا۔ ان میں سید حسین شہید سہروردی‘ خواجہ ناظم الدین‘ مولوی اے کے فضل الحق‘ تمیزالدین‘ میاں ممتاز محمد خان دولتانہ‘ بادشاہ خان‘ میاں افتخار الدین‘ خان عبدالقیوم خان‘ غرض یہ کہ قائد اعظم کے ساتھ کام کرنے والے راہنماؤں سے لے کر‘ تحریک پاکستان میں حصہ لینے والے لیڈروں تک‘ سب کو مختلف طریقوں سے قومی سیاست میں حصہ لینے سے روک دیا گیا۔ ان میں ایبڈو سمیت تمام حربے استعمال کئے گئے۔ حقیقت میں ایسا کر کے ملک و قوم کو ان تمام آزمودہ اور تجربہ کار سیاسی لیڈروں کی خدمات سے محروم کر دیا گیا‘ جو پاکستان کے اندر طاقت ور جمہوری ادارے تشکیل دینے کی اہلیت رکھتے تھے اور کہا یہی گیا کہ ہم سیاست کو شخصیتوں کے اثر سے آزاد کر کے منشور اور پروگرام کے تابع لانا چاہتے ہیں۔

اس تصور کا نقطہ کمال ‘مادرملت محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی انتخاب میں‘ ریاستی طاقت کے بے رحمانہ استعمال سے شکست دینا تھا۔ درحقیقت یہ مادر ملت کی شکست نہیں‘ قوم کو قائد اعظم کے سیاسی ورثے اور سیاسی روایت کے تسلسل سے محروم کرنا تھا۔ مادر ملت قائد اعظم کی سیاست اور ان کے نظریات کے تسلسل کا ایک وسیلہ تھیں اور ان کے ساتھ وہ پوری ٹیم موجود تھی‘ جسے قائد اعظم کی راہنمائی میں کام کرنے کا تجربہ حاصل تھا۔ لیڈرشپ کا رول دیکھنا ہو‘ تو قائد اعظم کی مثال سے دیکھنا چاہیے کہ سیاسی زندگی سے تعلق رکھنے والے تمام عناصر جانتے تھے کہ مسلم لیگ اور پاکستان کی اصل شناخت قائد اعظم کا چہرہ ہے۔ یہ شناخت تحریک آزادی کے دوران خدانخواستہ ختم ہو جاتی‘ تو پاکستان کا وجود ہی نہ ہوتا۔

لیڈرشپ اور سیاسی عمل کو ایک دوسرے سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ جن ملکوں میں منظم جماعتیں اپنے واضح منشور کے ساتھ صدیوں سے کام کر رہی ہیں‘ لیڈرشپ کا کردار وہاں بھی ہمیشہ اہمیت کا حامل رہتا ہے۔ طاقتور سے طاقتور جماعت کو بھی انتخابات میں حصہ لینے کے وقت کوئی طاقتور لیڈر دستیاب نہیں ہوتا‘ تو وہ الیکشن ہار جاتی ہے۔ یہ ان کے انتخابی نظام کا کمال ہے کہ وہاں کوئی لیڈر زیادہ عرصے تک قیادت کے رتبے پر فائز ہی نہیں رہ سکتا۔

امریکہ میں کئی ایسے صدر رہے ہیں‘ جو تیسری یا چوتھی مرتبہ‘ الیکشن میں حصہ لیتے تو بھاری اکثریت سے جیت سکتے تھے۔ ایسے لیڈروں میں آئزن ہاور‘ کینیڈی‘ ریگن اور کلنٹن کے نام نمایاں ہیں۔ وہ اپنی مقبولیت کے عروج پر بھی سسٹم کی وجہ سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ برطانیہ میں یہ کام جماعت کرتی ہے۔ پارٹی میں مسلسل محنت اور کام کے ذریعے لیڈرمنتخب ہوتا ہے لیکن انتخابات میں کامیابی پارٹی پالیسیوں کی بنیاد پر ملتی ہے اور وزیراعظم بننے پر لیڈر پارٹی کی انہی پالیسیوں کو آگے بڑھاتا ہے اور پالیسیوں پر عملدرآمد ہی کے سوال پر پارٹی اور لیڈر میں اختلافات شروع ہوتے ہیں اور آخر کار پارٹی غالب آتی ہے اور لیڈر پس منظر میں چلا جاتا ہے۔ لیکن انتخابی عمل میں پارٹی کی طاقت کی علامت اس کا لیڈر بنتا ہے اور انتخابی جیت ہار میں اس کی شخصیت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ دنیا کے دیگر جمہوری نظام‘ انہی دو نظاموں کے ملے جلے عناصر سے مرتب ہوتے ہیں۔

ترقی پذیر ملکوں میں نو آبادیاتی نظام کے خلاف جدوجہد کی قیادت کرنے والے لیڈر‘ عمومی طور پر سیاسی طاقت کی شناخت بن کر سامنے آتے رہے۔ آزادیوں کے بعد یہی لیڈر ہر ملک کی قومی سیاست پر چھائے رہے اور انہی کی جماعتیں کسی نہ کسی شکل میں حکمرانی کے زیادہ مواقع حاصل کرتی رہیں۔ کچھ بدنصیب ملک ایسے بھی ہیں‘ جہاں قومی آزادی کی تحریکوں کی قیادت کرنے والے لیڈر اور جماعتیں ‘ اقتدار کے کھیل سے یا تو نکل گئیں یا نکال دی گئیں۔ برصغیر میں دونوں تجربات ہوئے۔

پاکستان اور آج بنگلہ دیش ایسے بدنصیب ملک ہیں‘ جو تحریک آزادی کی قیادت اور جماعت کے تسلسل سے محروم ہو گئے۔ دونوں آج تک بھٹک رہے ہیں۔ طرح طرح کے نظام حکومت کے تجربوں سے گزر رہے ہیں۔ اتنی تعداد میں نئے کپڑے نہیں سلواتے‘ جتنے آئین بنا اور توڑ چکے ہیں۔ ریاست کو کوئی شناحت دینے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ ایسا معاشرہ تشکیل نہیں دے پائے‘ جس میں ادارے‘ طبقے اور علاقے‘ کوئی متعین کردار رکھتے ہوں۔ ہر کوئی بے لگام ہے اور ہر کوئی اپنے آپ کو درست سمجھتا ہے۔ بنگلہ دیش حکمران طاقتوں کے مسلط کردہ مصنوعی نظریات اور تصور ریاست کے فریب سے نکلنے میں اس حد تک کامیاب ہو گیا ہے کہ اس نے ریاست کو مذہبی معاملات میں ملوث ہونے سے روکنے کی تدبیرکر لی اور سکیورٹی سٹیٹ کے گمراہ کن تصور سے نجات پا کر ویلفیئر سٹیٹ کا درجہ اختیار کر لیا۔ہم اس خوش نصیبی سے محروم ہیں۔

مارشل لا کے مسلسل دھچکوں اور غیرسیاسی اداروں کے سیاست اور حکومت پرتسلط کے طویل تجربوں کے دوران‘ ہمارا سب کچھ برباد ہو گیا۔ قائد اعظم اور ان کے ساتھیوں کی عملی قیادت سے محرومی کے ساتھ‘ ہمیں ان کے پروگرام اور نظریات سے بھی محروم کر دیا گیا۔ حصول پاکستان کی جدوجہد کے فلسفے کو چند الفاظ میں سمیٹا جائے‘ تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ ”مسلمانوں کی ویلفیئر سٹیٹ“ اور یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے جس قیادت کی ضرورت تھی‘ وہ ہمیں اسی صورت میں دستیاب رہ سکتی تھی کہ ہمارا آئین اور حکومت کرنے کا اسلوب تحریک آزادی کے قائدین کے زیرسایہ پروان چڑھتا۔ یہ سلسلہ بے رحمی سے توڑ دیا گیا اور جب کسی طاقتور سیاسی لیڈر نے آگے بڑھ کر عوامی جذبات اور امنگوں کی علامت کے طور پر مقبولیت حاصل کی‘ اسے منظرسے ہٹا دیا گیا۔

خواجہ ناظم الدین‘ سہروردی‘ شیخ مجیب الرحمن اورذوالفقار علی بھٹو اس کی مثال ہیں۔

پاکستان میں جو دو لیڈر بچے ہیں‘ یہ طاقتیں انہیں مٹانے پر تلی ہیں اور ایسا کرنے کے لئے طرح طرح کے فلسفے پیش کئے جا رہے ہیں۔ کوشش پھر سے شروع ہے۔

Source: Jang 9 Feb 2011

Comments

comments

Latest Comments
  1. Abdul Nishapuri
    -