Javed Hashmi’s wise words in the National Assembly
Also read: LUBP Archive on Javed Hashmi
پاکستان میں کئی تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ ملک کا سیاسی کلچر تبدیل ہو رہا ہے اور دو بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اب کی بار ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے سے گریزاں ہیں۔
پاکستان کے بدلتے ہوئے اس سیاسی کلچر کی ایک نمایاں جھلک جمعرات کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں اس وقت دکھائی دی جب مسلم لیگ (ن) کے سرکردہ رہنما جاوید ہاشمی طویل علالت کے بعد بولے۔
جاوید ہاشمی کی آواز میں وہ ماضی والی گھن گرج تو نہیں تھی لیکن لڑ کھڑاتی زبان سے جو انہوں نے باتیں کیں وہ شاذ و نادر ہی سننے کو ملتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کوئی ایسا سیاسی لیڈر نہیں ہے جو اس ملک کو مسائل سے نکالے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی جدہ میں جائیداد بناتا ہے تو کوئی دبئی میں، کوئی سپین میں املاک خریدتا ہے تو کوئی کوریا میں۔
لیکن ان کے بقول پاکستان کی دھرتی کو کوئی سیاسی لیڈر قبول نہیں کرتا اور وہ یہاں صرف سیاست کرتے ہیں مال بناتے ہیں اور باہر لگاتے ہیں۔
انہوں نے صدر آصف علی زرداری، میاں نواز شریف، چوہدری شجاعت حسین، الطاف حسین، اسفند یار ولی، مولانا فضل الرحمٰن کے نام لے کر کہا کہ وہ مل بیٹھیں اور پاکستان کی تقدیر بدلنے کی کوشش کریں۔
جاوید ہاشمی نے اراکین اسمبلی سے کہا کہ وہ اپنی جماعتوں کے لیڈرز سے بحث کریں اور غلط بات پر ڈٹ جائیں اور انہیں عوام کی بہتری کے لیے پالیسیاں بنانے پر مجبور کریں اور ان کا احتساب کریں۔ جس پر ایوان کی دونوں جانب سے اراکین نے بھرپور انداز میں ڈیسک بجا کر ان کی تائید کی۔
پاکستان میں تمام معدنی وسائل ہیں اور کسی چیز کی کمی نہیں ہے لیکن پھر بھی غربت، بدحالی، بھوک بد امنی ہے اور عوام کے حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ جس کی بڑی وجہ سیاسی قیادت کا ملک سے مخلص نہ ہونا ہے
جاوید ہاشمی
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تمام معدنی وسائل ہیں اور کسی چیز کی کمی نہیں ہے لیکن پھر بھی غربت، بدحالی، بھوک بد امنی ہے اور عوام کے حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ جس کی بڑی وجہ سیاسی قیادت کا ملک سے مخلص نہ ہونا ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ مہنگائی اور غربت کی وجہ سے جو حالات خراب ہیں اگر وہ فوری ٹھیک نہیں کیے گئے تو پھر کوئی اور (جرنیل) آجائے گا۔
جاوید ہاشمی کی تقریر کے دوران وزیراعظم تو موجود رہے لیکن اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی خان غیر حاضر رہے۔ مسلم لیگ (ن) کے کئی اراکین اسمبلی کہتے ہیں کہ جب میاں نواز شریف جلا وطن ہوئے تو مشکل ترین دور میں قربانی جاوید ہاشمی نے دی اور پرویز مشرف نے انہیں بغاوت کے ایک مقدمہ میں جیل میں بھی ڈالا۔
لیکن جب سنہ دو ہزار آٹھ میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے مل کر حکومت بنائی تو ’فرنٹ لائن‘ میں جاوید ہاشمی کی جگہ چوہدری نثار نظر آئے۔ جاوید ہاشمی اور سید یوسف رضا گیلانی دونوں ضیاءالحق کی کابینہ میں رہے لیکن بعد میں ملتان کے دونوں پیر سیاستدانوں نے اپنے لیے ترتیبوار مسلم لیگ (ن ) اور پیپلز پارٹی کا انتخاب کیا۔
بدلتے حالات کی وجہ سے سید یوسف رضا گیلانی پاکستانی سیاست کے معراج وزارت اعظمیٰ ٰ پر پہنچ گئے لیکن جاوید ہاشمی کو اپوزیشن لیڈر کا عہدہ بھی نصیب نہیں ہوا۔ ان کے بعض ساتھی کہتے ہیں کہ اس طرح کے حالات کی وجہ سے ہی جاوید ہاشمی کو ’برین ہیمرج‘ ہوا۔
جاوید ہاشمی نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پارٹی کے نظم و ضبط کی سب کو پابندی کرنی چاہیے لیکن جہاں سیاسی قیادت غلط کرے تو انہیں غلط کہنا چاہیے۔ ان کے بقول یہ کوئی بغاوت نہیں ہے اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے تو ’ہاں میں باغی ہوں‘۔
ان کی تقریر ختم ہونے کے بعد وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی سمیت تمام جماعتوں کے اراکین نے ان کی سیٹ پر جا کر انہیں مبارکباد پیش کی۔
سیاست یہاں مال باہر: جاوید ہاشمی کا گِلہ
اعجاز مہر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
Charity begins at home. Revolt must start from Pml n.
Share
نام اپنا‘ مقام اپنا…سویرے سویرے…نذیر ناجی
کل حامد میر کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں کافی عرصے کے بعد جاوید ہاشمی کو دیکھا۔ شایدبیماری کے بعد وہ پہلی مرتبہ ٹیلی ویژن پر آئے تھے۔ انکی گفتگو اور چہرے کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ وہ خرابی صحت کے اثرات سے بڑی حد تک نکل آئے ہیں۔ ذہنی طور پر اسی طرح چاق و چوبنداور حاضر دماغ تھے۔ کچھ دن پہلے ان سے فون پر گفتگو ہوئی تو بڑے خوش تھے کہ قدرت نے انہیں حیرت انگیز رفتار سے صحت یاب کیا ہے۔ انہیں امریکی ڈاکٹروں نے بھی بتایا تھا کہ انکی جسمانی حالت کے معائنے سے وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بحالی صحت کے بعد ان کا انرجی لیول پہلے سے بھی زیادہ ہو جائے گا۔ ان کا بلڈ پریشر اور شوگر دونوں جوانوں کی طرح ہو چکے ہیں۔ جاوید ہاشمی مجھے بتا رہے تھے کہ ڈاکٹروں کی پیش گوئی کے مطابق واقعی‘ وہ اپنے آپ کو چست اور مضبوط محسوس کر رہے ہیں۔ عید میلاد النبیﷺ کے موقع پر وہ جلوس میں ساڑھے چھ گھنٹے مسلسل کھڑے رہے یا چلتے رہے اور انہیں کوئی تھکن محسوس نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک نئی زندگی دی ہے۔ یوں تو جاوید ہاشمی نہ کبھی ڈرے ہیں ‘ نہ خطرت سے گھبرائے ہیں۔ اب یوں لگتا ہے کہ وہ پہلے سے بھی زیادہ عزم و ہمت کے ساتھ سیاسی میدان میں آگے بڑھیں گے۔ جہاں تک مقامی سیاست کا تعلق ہے‘ اس میں تو حالات ان کیلئے بہت سازگار ہو چکے ہیں۔
ان کی سیاسی زندگی بھی ہمارے بیشتر قومی لیڈروں کی طرح مارشل لا سے شروع ہوئی۔ وہ بھی جنرل ضیاالحق کی کابینہ کے وزیر بنے۔مگر جلد ہی ان کے راستے فوجی حکمرانوں سے الگ ہو گئے اور جب وہ 1985ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے‘ تو حزب اختلاف کے سرکردہ لیڈروں میں شامل تھے اور آمر کے خلاف جن ممبران قومی اسمبلی نے فخر امام کو سپیکر کے منصب کا امیدوار بنایا‘ ان میں جاوید ہاشمی پیش پیش تھے۔ ضیاالحق کو یہ پہلا سیاسی چیلنج تھا‘ جو ان کی اپنی ہی بنائی گئی اسمبلی کے اندر سے انہیں کیا گیا۔ جب نوازشریف قومی سطح پر نمودار ہوئے‘ تو جاوید ہاشمی ان کے ساتھ تھے۔ وہ ان کی کابینہ میں وزیر بھی رہے۔ لیکن وزارت میں اتنا عرصہ نہیں گزارا‘ جتنا عرصہ‘ انہیں سڑکوں پر جدوجہد کرتے یا جیل میں گزارنا پڑا۔ پرویزمشرف کی فوجی حکومت مسلط ہوئی اور نوازشریف کو جیل میں ڈالا گیا‘ تو جاوید ہاشمی بے جگری سے آمرانہ قوتوں کے ساتھ لڑتے رہے اور یہ لڑائی لڑتے لڑتے جب وہ قومی اسمبلی میں آئے‘ تو وہاں کھڑے ہو کر پرویزمشرف اور اس کے فوجی ساتھیوں کی وہ درگت بنائی کہ پرویزمشرف آپے سے باہر ہو گئے اور انہیں جیل میں ڈال دیا۔ ان کی ہمت‘ استقامت اور حوصلے کو دیکھ کر مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کے حوصلے قائم اور بلند رہے۔ پہلے مارشل لا سے جان چھڑانے سے لے کر‘ اب تک مسلسل وہ جدوجہد کے راستے پر ہی گامزن ہیں اور جس طرح وہ اپنی واپس آتی ہوئی جسمانی اور ذہنی توانائیوں پر خوش نظر آئے‘ اس سے اندازہ ہوا کہ اب وہ پہلے سے زیادہ بھرپور انداز میں سیاسی جدوجہد کریں گے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس بار انہیں مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ نہیں ملے گا کیونکہ قیادت ان سے خوش نہیں۔ لیکن نوازشریف کی ذاتی پسند ناپسند اپنی جگہ‘ مگر وہ جاوید ہاشمی جیسے مضبوط‘ باکردار‘ آزمودہ اور حوصلہ مند ساتھی کو نظرانداز کرنے سے پہلے کئی مرتبہ سوچیں گے۔ جہاں تک جاوید ہاشمی کا تعلق ہے‘ انہیں انتخابی مقابلوں میں شکست دینا آسان نہیں رہا۔ ان کے پاس ٹکٹ ہو یا وہ اپنی آزادانہ حیثیت میں عوام کے سامنے آئیں‘ کسی مخالف امیدوار کو ان کے خلاف اپنی انتخابی مہم چلانے کے لئے کچھ نہیں ملے گا۔
بے شک جاوید ہاشمی ملک کے صدر یا وزیراعظم نہیں بنے۔ لیکن ان کے سیاسی سفر کی جتنی مماثلت بھٹو صاحب کے ساتھ ہے‘ کسی اور کے ساتھ نہیں۔ ہرچند بھٹو صاحب کا کینوس بہت بڑا تھا اور جاوید ہاشمی اپنے ضلع اور صوبے کی سیاست تک رہے۔ لیکن ایک فوجی حکمران کی کابینہ کے رکن رہ کر انہوں نے جس طرح بغاوت کی اور پھر عوامی سیاست میں آگے بڑھتے چلے گئے‘ اس میں بھٹو صاحب کے سیاسی سفر کی جھلکیاں جابجا نظر آتی ہیں۔ لیکن ان مماثلتوں کے باوجود جاوید ہاشمی نے نہ کبھی خود بھٹو بننے کا دعویٰ کیا اور نہ اپنے حامیوں سے کہا کہ وہ انہیں دوسرا بھٹو ثابت کرنے کی کوشش کریں۔ حالانکہ ایک آمر کو چھوڑنے کے بعد‘ انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور اپنی سیاسی زندگی میں دوبارہ نہ کسی آمر کے ساتھی بنے اور نہ اس کے ساتھ سودے بازی میں ناکام ہونے کے بعد ہیرو بننے کی کوشش کی۔جاوید ہاشمی کے بزرگ بھی دین فروغ اور خلق خدا کی خدمت کرتے تھے اور سرائیکی علاقے کی روایت کے مطابق مخدوم کہلاتے تھے۔ لیکن انہوں نے جوانی سے ہی اپنے نام سے پکارے جانے کو ترجیح دی۔
حامد میر کے ایک سوال پر انہوں نے اپنا دیرینہ موقف پھر دہرایا کہ ہم لوگوں میں ذاتی طور پر ایسی کوئی خوبی یا علمی سرمایہ نہیں کہ ہم اپنے آپ کو مخدوم کہلا سکیں۔ یہ صرف ہمارے بزرگوں کو زیب دیتا ہے۔ ہم دنیا دار ہوگ ہیں۔ سیاست میں حصہ لیتے ہیں۔ اقتدار میں شریک ہوتے ہیں اور ہم میں ایسی کوئی خوبی بھی نہیں‘ جس کی بنا پر ہم خود کو دوسروں سے برتر سمجھیں۔ ان سے اپنے گھٹنوں اور پیروں کو ہاتھ لگوائیں۔ ان سے امید رکھیں کہ وہ ہمارے ہاتھ کو بوسہ دیں اور یہ تو ظلم کی انتہا ہے کہ سیاست میں عوام کی خدمت اور غریبوں کی زندگی بدل دینے کے نعرے لگائے جائیں‘ مگر وہی غریب جب حاضری دینے کے لئے آئیں‘ تو ان سے نذر نیاز بھی وصول کریں اور بالوں کی ایک لٹ کاٹ کر لاکھوں روپے بٹوریں اور یہ آمدنی جو کروڑوں میں ہوتی ہے‘ اس پر نہ کوئی ٹیکس دیا جائے‘ نہ اسے غریبوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے۔ یہ بدترین استحصال ہے۔ خدا کا شکر ہے میں نے اپنے آپ کو اس سے بچا لیا۔
سیاست کا ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے میری دعا ہے کہ جاوید ہاشمی کی صحت مکمل طور سے بحال ہو جائے اور امریکی ڈاکٹروں کے مطابق ان کا انرجی لیول پہلے سے بھی زیادہ ہو اور وہ عوامی حقوق کی بحالی کی جدوجہدجہد میں پہلے سے زیادہ جوش و خروش سے حصہ لیتے رہیں۔ انہی جیسے سیاسی کارکن معاشرے کی طاقت اور سرمایہ ہوتے ہیں‘ جو ہر طرح کی قربانی دینے اور تکالیف اٹھانے کے باوجود لیڈری کے دعویدار نہیں بنتے۔ اپنے آپ کو ایک حد تک رکھتے ہیں۔ ڈرامے کر کے دوسرا بھٹو بننے کی کوشش نہیں کرتے۔ شاید ایسا کرنے والوں کو علم نہیں کہ کسی بھی تاریخ ساز قومی لیڈر کی جگہ لینا ممکن نہیں ہوتا۔ اس کا اپنا ایک عہد ہوتا ہے۔ اس عہد کے جداگانہ تقاضے ہوتے ہیں۔ عوام کی توقعات اور ضرورتیں مختلف ہوتی ہیں۔ مقامی اور عالمی حالات بھی الگ ہوتے ہیں اور بڑے لیڈر‘ تاریخ کے ایک مخصوص دور میں اور ایک خاص موڑ سے ملکی اور عالمی منظر پر نمودار ہوتے ہیں۔ نصف صدی کے بعد نئے حالات اور نئے تاریخی مراحل میں‘ لیڈرشپ پروان نہیں چڑھ سکتی‘ جو گزرے ہوئے زمانے میں سامنے آئی ہو۔ اب جو بھی کوئی لیڈر ابھرے گا‘ وہ بھٹو نہیں ہو گا۔ بے نظیر بھٹو ہوگا۔ نوازشریف ہو گا اور اگر کوئی ان سے بھی آگے بڑھے گا‘ تواس کا اپنا نام ہو گا۔ اقبال لاکھوں پھرتے ہیں لیکن علامہ اقبال کوئی نہیں۔ بھٹو بننے کی تمنا ہر سیاسی لیڈر کرتا ہے‘ مگر بن نہیں پاتا۔ تاریخ جب کسی کو بلند مقام دیتی ہے‘ تو نام بھی اس کا اپنا ہوتا ہے۔
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=508051