Hamid Mir criticizes Najam Sethi and Khaled Ahmed

میڈیا کے خلاف میڈیا کا جھوٹ
حامد میر

پاکستان کا میڈیا چاروں سے حملے کی زد میں ہے۔ پاکستانی میڈیا کے وہ تمام ادارے اور شخصیات جو اپنے عوام میں مقبول ہیں انہیں امریکہ اور بھارت کی حکومتوں کی ناراضگی کا سامنا ہے۔ پاکستان کی حکمران اشرافیہ بھی اپنے ملک کے آزاد میڈیا سے ناراض ہے اور ہر وقت میڈیا کو پابند کرنے کے راستے تلاش کرتی رہتی ہے۔

عوام الناس پاکستانی میڈیا کو بہت آزاد اور طاقتور سمجھتے ہیں لیکن شاید انہیں یہ احساس نہیں کہ میڈیا کے جو ادارے اور افراد اپنے ضمیر کی آواز پر سچ بولنے کی کوشش کرتے ہیں انہیں آج بھی اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ یہ قیمت نہ صرف بھاری مالی خسارے اور دھونس و دھمکی کی صورت میں سامنے آتی ہے بلکہ بے بنیاد اور جھوٹے الزامات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

کچھ عرصے سے امریکی حکومت اور پاکستان کی حکمران اشرافیہ سے قربت رکھنے والے چند صحافیوں اور دانشوروں نے پاکستانی میڈیا کی آزادی کو ہدف بنا رکھا ہے۔ یہ صاحبان بظاہر تو خود کو لبرل اور ترقی پسند قرار دیتے ہیں لیکن انکے خیالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ صاحبان ان انتہا پسند فتویٰ بازوں سے مختلف نظر نہیں آتے جو اپنے مخالفین کو معمولی معمولی باتوں پر واجب القتل قرار دیتے ہیں۔

3
نومبر 2007ء کو جب سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے پاکستان کا آئین پامال کرکے ایمرجنسی نافذ کی تو پاکستان کے وکلاء ، میڈیا، سول سوسائٹی کے ایک بڑے حصے ، سیاسی کارکنوں کی قابل ذکر تعداد کے ساتھ ساتھ اعلیٰ عدالتوں کے باضمیر ججوں نے پرویز مشرف کی ایمرجنسی کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ پرویز مشرف بھی خود کو لبرل کہتا تھا لیکن اس نے فوج کی مدد سے آئین توڑ کر لبرل فاشزم کا مظاہرہ کیا اور وکلاء تحریک کو اجاگر کرنیوالے صحافیوں کو دہشت گرد قرار دینا شروع کردیا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب اس خاکسار سمیت میرے کئی صحافی ساتھیوں کو ایک انگریزی اخبار نے اپنے ادارے میں ”ٹی وی ٹیررسٹ“ قرار دیا۔ یہ پرویز مشرف کا کمال تھا کہ انہوں نے معزول ججوں کی بحالی کا مطالبہ جائز قرار دینے کے جرم میں ہمارے خلاف نہ صرف کچھ لبرل فاشسٹ دانشوروں کی خدمات حاصل کرلیں بلکہ جمہوریت کی مخالفت کرنے والے ایک صاحب زید حامد نے بھی ہمارے خلاف محاذ کھول دیا۔ ایک طرف زید حامد ہمیں امریکی سی آئی اے کا ایجنٹ قرار دے رہے تھے اور دوسری طرف پرویز مشرف کے حامی انگریزی اخبار و جرائد ہمیں طالبان کا ایجنٹ قرار دے رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ پرویز مشرف تمام تر ریاستی طاقت اور اختیارات کے باوجود اپنے ناقد صحافیوں پر کوئی بھی الزام ثابت نہ کرسکا اور آخر کار پاکستان سے بھاگ کر لندن جا بیٹھا۔

پرویزمشرف تو پاکستان سے بھاگ گیا لیکن موصوف کی پالیسیاں بدستور پاکستان میں موجود ہیں۔ پرویزمشرف نے اپنے زمانہ اقتدار کے آخری دنوں میں کچھ لبرل فاشسٹ دانشوروں کے ذریعہ اینکرو کریسی کی اصطلاح ایجاد کرائی۔

جب مشرف صاحب پاکستان سے بھاگ گئے تو یہ دانشور جمہوریت سے محبت کا لبادہ اوڑھ کر صدر آصف علی زرداری کے گرد اکٹھے ہوگئے اور انہیں کچھ ٹی وی اینکرز اور کالم نگاروں کے خلاف بھڑکانے لگے۔ زرداری صاحب نے مشرف کے راستے پر چلنے کی بجائے ایک الگ راستہ اختیار کیا۔ وہ سنتے سب کی ہیں لیکن مرضی صرف اپنی کرتے ہیں لہٰذا یہ لبرل فاشسٹ مایوس ہوکر امریکہ کو پاکستانی میڈیا کی آزادی سے ڈرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ میڈیا کسی بھی معاشرے کا آئینہ ہوتا ہے اور معاشرے کی خامیاں ہمیں آئینے میں نظر آتی ہیں۔ میڈیا بھی معاشرے کا حصہ ہے اور وہ خرابیاں جو آئینہ دکھاتا ہے وہ خرابیاں خود آئینے کے اندر بھی موجود ہیں۔ میڈیا خرابیوں سے پاک نہیں ہے اور ہمیں ان خرابیوں کو دور کرنے کے لئے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے لیکن ان خرابیوں کو دور کرنے کے لئے جھوٹ سے نہیں سچ سے کام لینا ہوگا۔ اگر کسی کو پاکستانی میڈیا سے سنسنی خیزیت کی شکایت ہے تو اس کی شکایت میں بھی سنسنی اور مبالغہ آرائی نہیں ہونی چاہئے۔

میڈیا کے خلاف میڈیا کی غلط بیانی کی ایک تازہ مثال لاہور سے شائع ہونے والے ایک انگریزی جریدے کا (28جنوری تا 3فروری 2011ء) حالیہ شمارہ ہے جس میں میرے کالموں کے حوالے سے چارخبریں مع کارٹون شائع کی گئی ہیں۔ میرا کارٹون آپ سو دفعہ شائع کیجئے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے میرے کالموں سے ایسی باتیں منسوب کی گئی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مذکورہ جریدے میں اردو اخبارات کا ایک طویل عرصے سے مذاق اڑایا جارہا ہے اور اردو اخبارات کی خبروں کو اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق ترجمہ کرنے کا فریضہ خالد احمد صاحب انجام دیتے ہیں۔ خالد احمد صاحب بڑے پڑھے لکھے آدمی ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد پر ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ یہ کتاب دراصل ایک تحقیقی مقالہ ہے جو انہوں نے وڈولسن سینٹر واشنگٹن ڈی سی میں 9 ماہ تک بیٹھ کر لکھا۔ اس کتاب میں بھی انہوں نے جگہ جگہ روزنامہ جنگ میں میرے شائع شدہ کالموں کے اقتباسات بطور حوالہ پیش کئے ہیں۔ ایک امریکی تھنگ ٹینک کیلئے کی جانے والی تحقیق میں خالد احمد صاحب نے کہیں بھی ترجمے کی غلطی نہیں کی لیکن جب یہی ترجمہ انہوں نے ایک پاکستانی جریدے میں پاکستانی قارئین کیلئے کیا تو نہ صرف غلطی کا ارتکاب کیا بلکہ وہ کچھ بھی شامل کردیا جو میرے کالم میں موجود نہ تھا۔

انہوں نے میرے ایک کالم کے حوالے سے لکھا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کا خیال تھا کہ 17اکتوبر 2007ء کو سانحہ کارساز کراچی میں امریکہ ملوث تھا۔ یہ کالم 27دسمبر 2010ء کو روزنامہ جنگ میں شائع ہوا اور اس میں واضح طور پر لکھا گیا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو پرویز مشرف پر شک تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ خالد احمد سے درست ترجمہ کیوں نہ ہوا شاید وہ امریکیوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو تمہاری دشمن تھی۔ ایک اور جگہ پر خالد احمد نے لکھا ہے کہ حامد میر نے کہا ہے کہ نوازشریف ایم کیو ایم اور جے یو آئی (ف) کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی کی حکومت ختم کردیں۔ یہ بھی غلط ہے۔ 30دسمبر 2010ء کو میں نے روزنامہ جنگ میں یہ لکھا تھا کہ نوازشریف اگر چاہیں تو پیپلزپارٹی کی حکومت کو گرا سکتے ہیں لیکن وہ ایسا نہیں کرنا چاہتے کیونکہ انہیں کچھ خفیہ اداروں کے عزائم ٹھیک نہیں لگتے۔ شاید خالد احمد کا اصل نشانہ شریف خاندان ہے جس کے بارے میں انہوں نے ایم کیو ایم کے رہنماؤں کے حوالے سے کچھ ناقابل اشاعت الزامات کا بھی صحیح یا غلط ترجمہ شائع کردیا ہے۔ میری گزارش صرف اتنی ہے کہ اگر کسی کو میڈیا سے شکایت ہے تو شکایت ضرور کرے اور اس کا حل بھی تجویز کرے لیکن میڈیا کے خلاف میڈیا میں جھوٹ لکھ کر آپ اپنی انا کو تو تسلی دے سکتے ہیں لیکن سچائی کی کوئی خدمت نہیں کررہے۔

آج کل آپ کو یہ شکوہ بھی ہے کہ میڈیا پر رائٹ ونگ کا قبضہ ہوگیا ہے۔ شاید اس لئے کہ لیفٹ والے یا تو امریکہ کی گود میں بیٹھے ہیں یا بیرونی امداد سے چلنے والی این جی اوز کے ملازم بن چکے ہیں۔ پاکستان کے صحافیوں کی اکثریت نہ رائٹ ونگ ہے نہ لیفٹ ونگ ہے بلکہ سینٹر میں عوام کی اکثریت کے ساتھ کھڑی ہے۔ وہیں جہاں قائداعظم اور علامہ اقبال بھی کھڑے تھے اور جنہوں نے سینٹر میں کھڑے ہوکر ملاؤں کے ساتھ ساتھ غیرملکی سامراج کو بھی شکست دی۔

Source: Jang 3 Feb 2011

Nuggets from the Urdu press

These nuggets are culled from the Urdu press. They are summarised here without comment. Absurd or ridiculous, TFT takes no responsibility for them (Source: The Friday Times)

Hamid Mir and BB’s killers

Famous columnist Hamid Mir wrote in Jang that he was once having tea with Benazir Bhutto during which BB asked him who could be behind the attempt on her life in October 2007. He replied that it could be no one but the country with whom she had made a deal for returning to Pakistan. BB agreed America was behind the attack.

Hamid Mir and BB’s killers (part two)

Famous columnist Hamid Mir wrote in Jang that in Suhail Warraich’s book Qatil Kon, Zardari tells Rehman Malik that Rehman had actually killed Benazir. On this Rehman Malik cried copiously (zor zor say) and named Naheed Khan instead as the one responsible. BB had told Amir Mir that if she is killed, she would hold Musharraf responsible.

PMLN’s fear of army

Famous columnist Hamid Mir wrote in Jang that Nawaz Sharif must join MQM and JUIF to topple the PPP government, or he will regret it later on. Sharif did not support the toppling campaign fully because he was fearful that the army’s secret agencies were opposed to him and had funded an opponent candidate in Rawalpindi against his party.

Chief ministers ‘charsi’ and ‘bhangi’

Revealed by famous columnist Hamid Mir in Jang, Maulana Fazlur Rehman met President Zardari and informed him that one chief minister of his party was charsi (smoked hash) while the other was bhangi (drank bhang). On this Zardari became greatly disturbed (sar pakar liya).

Source: TFT (Khaled Ahmed)

Regime of ‘hostile’ TV anchors

Two particular encounters on two TV channels Thursday night revealed the mind of the “misplaced or hostile anchor” in Pakistan. The first was a discussion among a group of TV journalists on the accusation levelled against them that they are no longer impartial in their conduct of talk shows and tend to favour a political stance. The “consensus” was that encroachments on institutions of representative democracy by military rulers could not be viewed with impartiality, and that a show of partiality was dictated by the anchors’ loyalty to the Constitution. One opinion was that this obligatory partiality must be accompanied by “objectivity”; but it was not clear how the state of being “objective” could be reconciled with the state of being “partial”.

The other discussion was an interview with Pakistan’s ambassador Mr Hussain Haqqani by a TV journalist noted for his acerbity of approach and bias. The topic was the attack made by NATO-ISAF forces inside Mohmand Agency which resulted in the death of 13 Pakistani troops, souring Pakistan’s relations between Washington. The ambassador, while acknowledging his duty to bring the umbrage of Pakistan to the notice of the Washington Administration in the most forceful of terms, also charged the TV person with the obligation of looking objectively at the situation in which Pakistan found itself. He asked him if he took account of the ground realities in the Tribal Areas where the war against terrorism was clearly in the national interest of Pakistan. The ambassador argued for “realism” in the handling of such crises as the one resulting from the attack in the Mohmand area. But the TV anchor demanded that Pakistan approach the United Nations for a solution to the problem of the growing breach of Pakistan’s “sovereignty” and “territorial integrity”. The ambassador pointed out that the Security Council was an arena of power play, not a kind of Supreme Court where all plaintiffs were equal. The TV anchor then fell back on the argument of “national pride” and claimed to represent the people of Pakistan, arguing in favour of Pakistan opting out of the international war on terrorism. He had no answer, however, to the question about what Pakistan would do after that, after its various trouble spots are bombed by a combination of forces united inside the US Security Council.

The patriotically “partial” TV anchors began by opposing a military ruler and are now caught in a situation of political bias under democracy because of the dictates of their partiality. The 2008 elections have delivered a political battlefield where elected parties are trying to move together despite their different recipes and solutions. What should the TV anchors do now? Normally, they should have moved back and become neutral, letting the discussions be fairly judged by the viewers, but they continue to pose as arbiters and decide on their own such matters as the “mandate” of the 2008 elections, the “immorality” of the NRO, and the rough dismissal of President Musharraf from his job. But when matters are in dispute between elected parties and in parliament, it is the duty of the media to remain impartial in order to allow the people to make their own judgements.

While highlighting the “complaints” against the TV channels, one must be clear, however, about the over-all role played by our electronic journalism. Despite their early “philosophical” gropings, the TV channels are a sine qua non of our lives and their foibles of “partiality” are dwarfed by their achievement of creating awareness among the people on all other economic and social matters. For example, in Punjab, Chief Minister Shahbaz Sharif is taking action, correctly, after watching TV reports on the malfunction of government institutions.

A sense of pride and sovereignty may take nations into war and humiliate them without making them understand what went wrong. This happened to Germany in the Second World War and in recent times to Serbia whose people, proud and sovereign, hate the world today for not understanding why they were killing Bosnians and Kosovars. But states don’t only feel aroused emotionally. They can also be cold-blooded. They can be motivated only by their self-interest whose pursuit might negate the state’s pride and sovereignty. When Iran and America confront each other, both tend to fly off the handle. In contrast, in Europe, where many nationalist wars were fought in the past, few feel as aroused.

Why shouldn’t a state feel emotional? Because being emotional may be contrary to its national interests. These interests are almost always economic. This is perfectly understandable because as long as a nation is prosperous and not dependent on outside creditors, its pride and sovereignty remain intact. But if a state is neglectful of its economy and pursues other emotional goals either unrelated or hostile to its economy it is bound to impose suffering on its people through the growth of poverty. And nothing removes pride and sovereignty from a nation more cruelly and quickly than poverty. Let us not forget that the organisation which kidnapped and beheaded the American journalist Daniel Pearl in 2002 called itself National Movement for the Restoration of Pakistani Sovereignty.

Source: Daily Times – Saturday, June 21, 2008 (Najam Sethi)

Comments

comments

Latest Comments
  1. Sarah Khan
    -
  2. AHMED BALOCH
    -
  3. Saleem Ahmed
    -
  4. Saleem Ahmed
    -
  5. Saleem Ahmed
    -
  6. Saleem Ahmed
    -
  7. Abid Hussain
    -
  8. Saleem Ahmed
    -
  9. NvKVCaYPQQ
    -