Contract employees: Something the FCS wallas will never write on

Here is an example of a topic which will never worry the Fake Civil Society activists (Twitter Opportunists Club) because it goes against their hero, the saviour of Pakistan, CJ Iftikhar Muhammad Chaudhry. Intellectual and moral honesty are two traits one will never find in an FCS chatterer!

مسئلہ کنٹریکٹ کا

اعجاز مہر

2011-01-24

کل رات کو مجھے موبائل فون پر ایک ٹیکسٹ میسیج ملا جس میں لکھا تھا کہ پاکستان کے پولیس اور فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی میں کنٹریکٹ پر کام کرنے والے افسران کا کیس سننے والے سپریم کورٹ کے بینچ کے تین میں سے دو جج خود کنٹریکٹ پر کام کر رہے ہیں۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں جسٹس خلیل الرحمٰن رمدے اور جسٹس غلام ربانی شامل ہیں۔ عدالت نے حال میں اپنے ریمارکس میں کہا کہ پولیس اور ایف آئی اے میں اعلیٰ عہدوں پر ریٹائرڈ لوگ نہیں ہونے چاہیے۔

ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پولیس میں ریٹائرڈ افسروں کو لگانا درست نہیں ہے تو پھر عدالت اعظمیٰ میں ریٹائرڈ ججوں کو لگانا کیسے جائز ہے؟

اور تو اور خود سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو ریٹائرمینٹ کے بعد کنٹریکٹ پر بھرتی کیا گیا ہے اور ایڈیشنل رجسٹرار کے عہدے پر ڈیپوٹیشن پر ایک افسر کو لگایا گیا ہے۔

اس کے علاوہ گریڈ بائیس کے دو عہدوں فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کے سربراہ اور سپریم کورٹ کے ‘انسانی حقوق سیل’ کے سربراہ کے طور پر ایسے افراد تعینات ہیں جو خود سپریم کورٹ کے حکم کی وجہ سے ججوں کے عہدوں سے برطرف کیے گئے ہیں۔

سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کی صدر عاصمہ جہانگیر تو یہاں تک کہہ چکی ہیں کہ ایڈہاک/ ایڈیشنل جج بھرتی کرنا بھی غلط ہے۔ لیکن پاکستان میں ہونے والے ایسی ہی واقعات کے بعد دنیا بھر میں ہمارے ملکی حالات کے بارے میں یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے: جس کی لاٹھی اس کی بھینس’

Source: BBC Urdu

Comments

comments

Latest Comments
  1. Ahmed Iqbalabadi
    -
  2. Saleem Ahmed
    -
  3. Saleem Ahmed
    -