Who is behind restoring the MMA in the guise of the blasphemy law movement? – by Irfan Siddiqi
Salman Taseer: Another victim of the deep state, its ideological and political faces
The LUBP was the first blog which identified and confronted the efforts by you-know-who to reunite moderate mullahs including Barelvis, Shias and moderate Deobandis and Wahhabis with the Taliban and the Sipah-e-Sahaba in the guise of the blasphemy law movement.
Now a right-wing columnist, Irfan Siddiqi, a loyalist of Nawaz Sharif’s PML-N is pointing toward the same possibility.
اللہ کرے یہ بدگمانی ہی ہو
نقش خیال…عرفان صدیقی
اللہ کرے یہ بدگمانی غلط ہو جس کا اظہار صف اول کے بعض کالم نگار اور نہایت ہی معتبر تجزیہ کار کررہے ہیں اور جو چھوٹے سے برساتی کینچوے کی طرح میری سوچوں میں بھی رینگ رہی ہے۔
کیا علمائے کرام، ناموس رسالت کے نام پر اٹھائی گئی تحریک کو ایم۔ایم۔اے کی بحالی یا اسی نوع کے کسی سیاسی انتخابی اتحاد کے سانچے میں ڈھالنے جارہے ہیں؟ کیا مولانا فضل الرحمٰن نے لوہا گرم دیکھتے ہوئے حکومت سے ترک تعلق کا ایک سوچا سمجھا فیصلہ کیا اور یہ محض اعظم سواتی کی بے دخلی کا معاملہ نہ تھا؟ کیا جماعت اسلامی کے زبردست تحرک کا بھید بھی یہی ہے؟ کیا بڑی بڑی پرچم بردار ریلیوں اور آراستہ پیراستہ اسٹیجوں سے آتش مزاج تقاریر سیاسی مفادات سے آلودہ ہیں؟ کیا حب رسالتمآب کے نام پر اپنے خواب اور اپنی تعبیریں تراشی جارہی ہیں؟ کیا عوام کے قلب و نظر کے سب سے گراں قیمت اثاثے اور انتہائی حساس معاملے کو اپنے سیاست کدے کی رونق بنایا جارہا ہے؟
یہ اور ان سے ملتے جلتے کئی سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ میں بدظنی اور بدگمانی سے شعوری طور پر احتراز کرتا ہوں۔ٹھوس اور واضح ثبوت یا شواہد کے بغیر کسی پر الزام لگانا کار گناہ ہے۔ نیتوں کا حال اللہ تعالٰی جانتا ہے۔ علمائے کرام سے زیادہ کون اس حقیقت سے آگاہ ہوگا کہ ناموس رسالت کے نام پر اٹھائی جانے والی تحریک کے بطن سے کسی سیاسی انتخابی اتحاد کو کشید کرنا اور اس نعرے کو دنیوی اقتدار کے لئے ووٹوں کے لئے استعمال کرنا کیا معنی رکھتا ہے۔ کیا دین کے تقاضوں کا شعور رکھنے، حب رسول کے تمام مشکبو زادیوں سے مکمل آگاہی رکھنے، صحابہ کرام کی سیرت و کردار کے تمام پہلوؤں سے باخبر ہونے اور شان رسالت کی تمام نزاکتوں کا ادراک رکھنے والے علمائے کرام حرمت رسول کے نعرے لگاتے، تحفظ ناموس رسالت کے پھریرے لہراتے اور خلق خدا کے دلوں میں فروزاں حب رسول کو اپنی عباؤں اور قباؤں کی ہوا دیتے ایک انتخابی تماشا لگائیں گے؟ کم از کم میرا دل یہ نہیں مانتا اور اگر اگلے چند دنوں میں اس تاثر کو شائبہ بھر تقویت بھی ملتی ہے تو مجھے ہی نہیں، ہر اس شخص کو شدید صدمہ ہوگا جو علماء کے بارے میں ذرا سا بھی حسن ظن رکھتا ہے اور جو نبی کریم کے نام نامی کی رفعتوں کو سیاست کے کوچہ و بازار سے بہت ماوریٰ خیال کرتا ہے۔
معاشرے کے ہر طبقے کی طرح علمائے کرام کو بھی سیاست میں آنے، اپنا منشور عوام کے سامنے لانے اور مسند اقتدار تک رسائی کے لئے قسمت آزمائی کا حق حاصل ہے۔ یہ قسمت آزمائی وہ تواتر سے رتے چلے آئے ہیں۔ تحریک پاکستان کے دہکتے مہکتے دنوں میں بھی قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں مسلم لیگ ایک طرف تھی اور بیشتر جید علماء کا وزن ان کے پلڑے میں نہ تھا۔ تحریک آزادی، کسی طور علمائے کرام کی تحریک نہ تھی۔ کچھ نامور علماء اپنی انفرادی حیثیت میں قائد اعظم کا دست و بازو ضرور تھے۔ انہوں نے انگریزی سامراج کے خلاف پرعزم جدوجہد بھی کی اور قربانیاں بھی دیں۔ لیکن علماء تحریک آزادی کا ہراول دستہ تھے، نہ اس تحریک کا بانکپن نہ اس کا تفاخر۔ یہ قائد اعظم کا جادو تھا جو سر چڑھ کے بول رہا تھا۔
یہ عجیب بات ہے کہ برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں نے بالعموم علماء کی سیاسی قیادت کو پذیرائی نہیں بخشی۔ وہ رات رات بھر ان کی تقریریں سنتے، سر دھنتے، نعرے لگاتے، آنسو بہاتے اور صدقے واری جاتے ہیں لیکن ووٹ والے دن کنی کترا کر دوسری طرف نکل جاتے ہیں۔ ان کا یہ رجحان آج بھی پوری طرح موجود ہے بلکہ کسی قدر قوی ہوگیا ہے۔ 2002ء میں پرویز مشرف نے وفاق اور چاروں صوبوں کے لئے الگ الگ سیاسی زائچے بنائے۔ امریکی کروسیڈ کی کامیابی کے لئے ضروری تھا کہ علمائے کرام کو سڑکوں کے ہیجان اور طوفان سے دور رکھنے کے لئے اقتدار میں حصہ دار بنالیا جائے۔ ایم۔ایم۔اے اسی تصور کی تخلیق تھی۔ ہم جیسوں نے اس سے بڑی امیدیں باندھی تھیں، اس کی کامیابی کو تازہ ہوا کا جھونکا قرار دیا تھا، غریب و سادہ سے لوگوں کی حکمرانی کو ایک نئے سیاسی کلچر کی نمو سے تعبیر کیا تھا۔ یہ بھید تو بہت بعد میں کھلا کہ اصل کھیل کیا تھا اور مشرف کی زیر ہدایت، ایجنسیوں نے سیف ہاؤسز میں کیا نقشہ کار تیار کیا تھا۔ پورے پانچ سال اس وقت کا صوبہ سرحد اور قبائلی علاقہ کروسیڈ کا میدان کارزار بنا رہا لیکن ایم۔ایم۔اے کی حکومت کہیں مزاحم نہ ہوئی، کبھی حدوں سے تجاوز نہ کیا اور کبھی امریکہ کی اطاعت گزار مشرف حکومت کے لئے کوئی مسئلہ کھڑا نہ کیا۔ یہاں تک کہ رسوائے زمانہ سترہویں ترمیم بھی وارثان منبر و محراب اور صاحبان جبہ و دستار کے لئے تلخ گھونٹ نہ بنی۔ اور اس نے 12/اکتوبر 1999ء کے غدارانہ اقدام کو بھی آئین کا جامہ تقدس پہنا دیا۔
دوسرا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ خیبر پختون خوا پر علمائے کرام کی بلاشرکت غیرے حکمرانی، وہاں کے عوام کے لئے کوئی نیا، اچھوتا اور ثمر آور تجربہ ثابت نہ ہوئی۔ یہ ویسی ہی حکمرانی تھی جیسی دینی تعلیمات و اسناد سے بے بہرہ دنیاداروں کی ہوتی ہے۔ بھرپور تحقیق کے باوجود مجھے کوئی ایسی کلغی نظر نہیں آئی جسے ایم۔ایم۔اے کا امتیاز کہا جاسکے۔ کرپشن کی داستانیں بھی چلتی رہیں۔ ووٹ بھی بکتے اور خریدے جاتے رہے۔ اقربا پروری بھی عروج پر رہی۔ اسلام پہاڑوں سے اتر کر بستیوں تک آہی نہ سکا۔ جمعیت العلمائے اسلام اور جماعت اسلامی کے درمیان اسی نوع کی رنجشیں اور دوریاں رہیں جو آج آپ کو پی۔پی۔پی اور ایم۔کیو۔ایم کے درمیان نظر آرہی ہیں۔ اٹک کے اس طرف کی دنیا اور اٹک کے اس پار کے جہان میں کوئی بال برابر فرق نہ تھا جس کی بنیاد پر پنجاب میں مسلم لیگ (ق) اور سرحد میں علمائے کرام و مفتیان عظام کی حکومت کو ایک دوسرے سے مختلف کہا جاسکتا۔
وہ الیکشن ایم۔ایم۔اے نے ”کتاب“ کے نام پہ لڑا تھا۔ اس کے مقررین غریب و نیم خواندہ عوام کے سامنے ”کتاب“ لہراتے اور کہتے کہ ”یہ اللہ کی کتاب ہے“۔ انہوں نے قرآن مجید کے علامتی استعارے کے طور پر ”کتاب“ کو اپنا انتخابی نشان چنا۔ میری معلومات کے مطابق پاکستان کا دستور اور انتخابی ضابطے اس طرح کے ذومعنی انتخابی نشان کی اجازت نہیں دیتے۔ لیکن تب مشرف کے خیمہ عافیت میں آجانے والوں کے لئے سب کچھ روا تھا۔ پانچ سال تک علماء کی حکمرانی کا ناقابل رشک باب رقم کرنے کے بعد ایم۔ایم۔اے کا شیرازہ بکھر گیا۔ 2008ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی نے بائیکاٹ کا راستہ چنا۔ مولانا فضل الرحمٰن وہیں آگئے جہاں وہ ہمیشہ آیا کرتے تھے۔ ممکن ہے ان کے دل و دماغ میں بہار کے انہی روٹھے ہوئے دنوں کی یاد انگڑائی لے رہی ہو۔ 2002ء میں سرحد اور بلوچستان تو ان کے پاؤں تلے تھے ہی، قومی اسمبلی میں بھی ایم۔ایم۔اے اتنے ارکان لے آئی تھی کہ مولانا وزارت عظمٰی کا ہنڈولا جھولنے لگے تھے۔ گئے دنوں کو آواز دینے اور سہانے موسموں کی بساط بچھانے کے لئے ضروری ہے کہ پھر سے ایک ایم۔ایم۔اے وجود میں لائی جائے۔ لیکن کیا جماعت اسلامی اس پر تیار ہوجائے گی؟ کیا باقی دینی جماعتیں آمادہ ہوجائیں گی؟ کیا علماء کا عرصہ حکمرانی دیکھ لینے والے عوام پھر سے پرانے نعروں پر ایمان لے آئیں گے؟
گزشتہ روز اسلام آباد کلب میں بیٹھے جب ایک کہنہ مشق صحافی نے کہا کہ ”یہ سب کچھ ایک نئی ایم۔ایم۔اے کا کھیل ہے 2002ء میں انہوں نے کتاب کا نشان مانگا تھا، اب گنبد خضریٰ کا نشان مانگیں گے۔ وہ اللہ کے نام پر تھا، یہ رسول کے نام پر ہوگا…“ تو میں لرز کر رہ گیا۔ میرا دل گواہی دیتا ہے کہ علمائے کرام کے بارے میں ایسا خیال پرلے درجے کی بدظنی، پرلے درجے کی بدگمانی ہے۔ علمائے کرام کو اولین فرصت میں پوری قوت کے ساتھ اس تاثر کا ازالہ کردینا چاہئے۔
Source: Jang 20 Jan 2011
ایک نقطہ
اس کالم میں عرفان صدیقی نے لفظ علما کرام بہت زیادہ استمال کیا ہے ،اس کا مقصد یہ بتانا ہے کہ ناموس رسالت اصل میں علما کرام کی تحریک تھی اور اس پر تقدید علما کرام پر تنقید ہے . اصل حقیقت یہ ہے کہ جن لوگو نے اس اشو کو اچھالا وہ سیاسی مذہبی لوگ ہیں یا فرقہ پرست ،اچھے اور بڑے علما ان سب سے دور رہے
اسلام ،علما اور مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے لوگو میں فرق کرنا ضروری ہے .عرفان صدیقی کا سب کو ایک کہنا بھی دائیں بازو کی ایک چال ہے
Nazir Naji in Jang 20 Jan 2011
خصوصاً پاکستان میں جہاں سیاستدانوں کی بڑی تعداد مذہبی بنیادوں پراپنے اپنے حلقہ اثر کو منظم کرتی رہتی ہے۔ وہ اپنی فرقہ وارانہ حدود کے اندر رہنے پر مجبور ہوتے ہیں اور جب ان کے اجتماعی مفاد کا تقاضا ہو‘ تو یہ اتفاق رائے کے لئے کوئی ایسی چھتری تلاش کرتے ہیں‘ جو سب کے لئے فائدہ مند ہو۔ مثلاً مذہبی سیاستدان جب بھی اپنی طبقاتی اور اجتماعی طاقت کو منظم کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں‘ تو وہ کوئی ایسا نکتہ ڈھونڈ کے لاتے ہیں‘ جس پر مسلمانوں کے تمام فرقے یکجہتی پر مجبور ہو جائیں۔
مذہبی سیاستدانوں نے پہلی تحریک ختم نبوت کے نعرے پر چلائی تھی۔ اس وقت موثر ریاستی مشینری اور قائد اعظم کے زیرسایہ پروان چڑھنے والی سیاسی قیادت موجود تھی‘ جو اپنے شہریوں میں مذہبی بنیادوں پر کسی کو امتیازی حیثیت دینے کے حق میں نہیں تھی۔ وہ تحریک تو ناکام رہی لیکن مذہبی سیاستدانوں کو یہ اندازہ ہو گیا کہ وہ کس نعرے پر پوری قوم کو اپنے ساتھ چلا سکتے ہیں اور ان کے سیاسی مخالفین‘ ان کے نعروں کا جواب نہیں دے سکتے۔
یہی نعرہ بھٹو صاحب کے دور میں دہرایا گیا۔ بدقسمتی سے اس وقت بھٹو صاحب کے سیاسی مخالفین تتربتر اور عوامی حمایت سے محروم ہو چکے تھے لیکن طاقت کے مراکز میں ان کی پوزیشن انتہائی مضبوط تھی۔ چنانچہ اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی اور محروم سیاستدانوں کی ضرورتوں کے نتیجے میں ختم نبوت کے نعرے پر یہ ساری طاقتیں منظم ہوئیں اور حکومت پر اتنا دباؤ ڈالا کہ اسے آئین میں اپنے شہریوں کی مذہبی حیثیت کا تعین کرنا پڑا۔ اس آئینی ترمیم کے ذریعے بھٹو صاحب نے اس نعرے کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا راستہ ضرور بند کر دیا لیکن مذہبی سیاستدانوں اور بھٹو دشمن عناصر نے حضورپاک کے مقدس نام کو ایک بار پھر اپنی سیاست کے لئے استعمال کرتے ہوئے‘ نظام مصطفی کا نعرہ بلند کیا۔
بنیادی طور پر یہ تحریک شکست خوردہ سیاسی جماعتوں نے دہاندلی کے نام پر چلائی تھی اور اس وقت فوج کے سربراہ جنرل ضیاالحق تھے۔ وقت نے ثابت کیا کہ وہ اپنی آمریت کے لئے مذہب کو استعمال کرنے کے رحجانات رکھتے تھے۔ وہ تحریک جو خود چلانے والوں کے مطابق‘ صرف 20نشستوں پر دہاندلی کے خلاف چلائی گئی تھی‘ دیکھتے ہی دیکھتے اسے تحریک نظام مصطفی میں بدل دیا گیا اور جنرل ضیاالحق کے ماتحت اداروں نے اسے حقیقت سے کہیں بڑھ کر نمایاں کیا اور اسی تحریک کی آڑ میں جنرل ضیا نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
انہوں نے باقاعدہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ریاستی اداروں میں حقیقی دین اسلام کی روح پھونکنے کے بجائے‘مظاہرات پر زور دیا۔ سرکاری ملازمین نمازیں پہلے بھی پڑھتے تھے لیکن حکم خداوندی کے باوجود یہ ریاستی حکم بھی جاری کر دیا گیا کہ ڈیوٹی کے اوقات میں تمام ملازمین دفاتر کے اندر نمازیں پڑھیں۔ نماز کا فرض ادا کرنے کے لئے حکم خداوندی تو ہے ہی‘ یہ حکمران کی خوشنودی کا ذریعہ بھی بن گئی اور اپنے آمرانہ مقاصد کو پورا کرنے کے لئے جنرل ضیا نے مذہب کو سیاسی مفادات کے لئے کامیابی سے استعمال کیا۔ ان کے طویل دوراقتدار میں مذہبی سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان باہمی تعاون کی روایت پروان چڑھائی گئی اور اب پاکستانی ریاست مذہبی سیاست کی آماجگاہ بن چکی ہے۔
جب سردجنگ کا زمانہ تھا۔ امریکہ اس جنگ میں مذہبی جذبات کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی پالیسی پر کاربند تھا۔ خصوصاً مسلمان ملکوں میں اس نے سوویت یونین کو مذاہب کے دشمن کی حیثیت سے پیش کر کے‘ اسکے خلاف مسلمانوں اور عیسائیوں کے جذبات بھڑکائے۔ لیکن یہ ہتھیار صرف پاکستان میں کامیاب ہو سکا۔
دوسرے کسی اسلامی ملک نے اپنی خارجہ پالیسی میں مذہب کو اس طرح استعمال نہیں کیا‘ جیسے پاکستان کے حکمران طبقے کرتے ہیں۔ ترکی نیٹو کا ممبر تھا اور سوویت یونین کا پڑوسی بھی۔ لیکن وہاں کوئی سوویت دشمن مذہبی تحریک نہیں اٹھی اور کئی مسلمان ملک جیسے مصر‘ الجزائر‘ شام‘ عراق اور دیگر کئی مسلمان ممالک سوویت یونین کے اتحادی بھی تھے۔ صرف پاکستان ایک ایسا ملک تھا‘ جس نے سوویت افواج کے خلاف باقاعدہ جنگ لڑی۔ سوویت یونین اس جنگ کو چھوڑ کے بچ نکلا۔ مگر ہم آج تک اسے بھگت رہے ہیں۔ کیونکہ اس جنگ کے دوران اسلام کے نام پر جو مسلح قوتیں کھڑی کر دی گئیں‘ وہ اب طاقت کے کھیل میں شریک ہو چکی ہیں اور مسلح تصادم کے امراض افغانستان کے بعد کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں اور وہ وقت زیادہ دور نہیں‘ جب ان تحریکوں کی پھیلی ہوئی جڑیں وسطی ایشیا کے اندر بھی نمودار ہونا شروع ہو جائیں گی۔
اب دہشت گردی اور انتہاپسندی کی مارکیٹ بہت پھیل چکی ہے۔ اس میں پیسہ اور مفادات بھی بہت آ گئے ہیں۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والے گروہوں کے‘ ہماری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے بہت گہرے ہو چکے ہیں اور دوطرفہ افادے کا ایک نظام بھی معرض وجود میں آ چکا ہے۔ پاکستان کی کوئی حکومت سیاست سے مذہب کو آسانی کے ساتھ الگ نہیں کر سکے گی۔ بظاہر یوں لگتا ہے کہ جمہوریت کے موجودہ تجربے کو پاکستانی عوام کے ساتھ ساتھ عالمی طاقتوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔
مگر اس حمایت کی بنیاد پر مذہبی سیاست کرنے والی طاقتوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکے گا۔ اسی لئے میں نے علماء ومشائخ کانفرنس کی حمایت کرتے ہوئے یہ بھی عرض کیا ہے کہ وزارت مذہبی امور اب حج کے کوٹوں اور ٹھیکوں تک محدود نہیں‘ اس کی ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں۔ حکومت اور علماء کے درمیان مسلسل مکالمے اور رابطوں کی ضرورت ہماری سیاست کا حصہ بن چکی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل اور وزارت مذہبی امور کے کردار کو بدل کر ہمہ گیر اور موثر بنانے کی ضرورت ہے۔ عوام دوست سیاستدانوں اور علماء کے درمیان تعاون اور ہم آہنگی ہی پاکستان کو دوبارہ ایک نارمل معاشرے کی تشکیل کی طرف لے جا سکتی ہے۔ جیسا کہ قیام پاکستان کے وقت ہمارا معاشرہ تھا۔
Irfan Siddiqi used to be a speech writer for Pakistani version of Mullah Omar, President Rafique Tarar.
عرفان صدیقی نے بڑی چالاکی سے سیاسی مولویوں پر ہونے والی تنقید کو علما کرام سے جوڑا ہے
Clerics on the march
Friday, January 14, 2011
Ayaz Amir
This is not about blasphemy or the honour of the Holy Prophet. This is now all about politics, about the forces of the clergy, routed in the last elections, discovering a cause on whose bandwagon they have mounted with a vengeance.
The blasphemy issue ignited by Aasia Bibi’s conviction was virtually over in November, the government making it plain that it had not the slightest intention of amending the blasphemy law, and no government figure of any consequence stepping forward to support Salmaan Taseer on the stand he had taken.
There the matter should have rested if Pakistan’s clerical armies were not masters of manipulation and cold-blooded calculation. They whipped up a storm in December, when the issue was no longer an issue, and fanned such an atmosphere of intolerance and hatred that it would have been strange if nothing terrible had happened.
It is not a question of the English-speaking classes – our so-called civil society with its small candle-light vigils, usually in some upscale market – standing up to the clerical armies. This is to get the whole picture wrong. It is a question of the Pakistani state – its various institutions, its defence establishment and the creeds and fallacies held dear as articles of faith by this establishment – getting its direction right and then creating a new consensus enabling it to retreat from the paths of folly.
If the Pakistani establishment continues to see India as the enemy, keeps pouring money into an arms race it cannot afford, is afflicted by delusions of grandeur relative to Afghanistan, and remains unmindful of the economic disaster into which the country is fast slipping, we will never get a grip on the challenges we face.
The raging cleric, frothing at the mouth, is thus not the problem. He is merely a symptom of something larger. Pakistan’s problem is the delusional general and the incompetent politician and as long as this is not fixed, the holy armies of bigotry will remain on the march.
Email: [email protected]
http://www.thenews.com.pk/TodaysPrintDetail.aspx?ID=25496&Cat=9&dt=1/14/2011
Jang Killed Salman Taseer, earlier Irfan and other Kaatibs of Jang like Kamran Khan, Ansar Abbasi, and Hamid Mir were creating Hype against Salman Taseer and very swiftly they changed their position to save Jang Group’s Business relations with USA. Money Talks http://cafepyala.blogspot.com/2010/11/money-talks.html
Thursday, November 25, 2010, Zilhajj 18, 1431 A.H
http://www.jang.com.pk/jang/nov2010-daily/25-11-2010/main4.htm
http://ejang.jang.com.pk/1-6-2011/Karachi/pic.asp?picname=1059.gif
Reporter – Can violence be used to defend religion? – Ep 103 – Part 4 http://www.youtube.com/watch?v=nT1YWnBhxJg&feature=related
http://ejang.jang.com.pk/1-5-2011/Karachi/pic.asp?picname=108.gif
Jang group was the master mind
The scene is very same…get them united on some front and bring the JI in front. It is always the JI that gets the most advantage of an alliance of mullas. Later on they just leave them in lurch. The idea is just to upset the overall equation.
فی سبیل اللہ فساد اور فی سبیل اللہ جہاد!…روزن دیوار سے … عطاء الحق قاسمی
میں برادرم ایاز امیر کا ممنون ہوں کہ انہوں نے پاکستان میں عدم برداشت اور رواداری کے فقدان کا جو سیلاب پاکستان کی بنیادوں سے ٹکرانے اور یوں اسے کھوکھلا کرنے کا باعث بن رہا ہے، کے موضوع پر لکھے اپنے کالم میں تقریباً وہ سب باتیں کہہ دی ہیں جن میں سے کچھ میرے دل میں بھی تھیں اور جن کی بنیاد پر میں کالم باندھنے کا ارادہ کر رہا تھا۔ ایاز امیر نے یہ باتیں اتنی خوش اسلوبی سے کی ہیں کہ اب میں انہیں دہرانے کے سوا کچھ نہیں کرسکتا اور انہیں دہرانے میں نہ صرف یہ کہ کوئی حرج نہیں بلکہ ہمیں اگر اسلام اور پاکستان سے محبت ہے اور ہم ان دونوں کو سربلند دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں یہ باتیں بار بار دہرانا ہوں گی۔ اس وقت تک دہرانا ہوں گی جب تک متعلقہ طبقات اپنی پالیسیوں کا رخ صحیح سمت کی طرف نہیں موڑتے تاہم مجھے ان کی کچھ باتوں سے اختلاف بھی ہے جن کا تذکرہ میں کالم کے آخر میں کروں گا۔
میرے نزدیک ایاز امیر نے جو باتیں کی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ آج پاکستان جن اتھاہ گہرائیوں میں گر رہا ہے وہ انگریزی بولنے والے طبقے کی مہارت کا شاہکار ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے تمام تر اعمال میں سیکولر ہیں مگر مرجائیں گے خود کو سیکولر نہیں کہلائیں گے… مولوی ہمارے امریکہ کے ساتھ معاہدوں سینٹو اور سیٹو، انڈیا کے ساتھ ہماری مہم جوئی، جہادی کلچر کو فروغ چڑھانے کے ذمہ دار نہیں ہیں، موخر الذکر المیہ فوج، جس کی قیادت جنرل ضیاء کے پاس تھی کا شاہکار ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مذہبی عناصر اس میں بہت لگن سے شامل ہوگئے مگر بہرحال وہ اس کے موجد نہ تھے۔ … یہ تصور کہ انڈیا پاکستان کا جانی دشمن ہے اور اسے تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے، کسی مدر سے نہیں بلکہ ہماری دفاعی حکمت عملی کا جزو لاینفک جی ایچ کیو کی پیداوار ہے… ہمارا شکستہ نظام تعلیم ہمارے انگریزی بولنے والے طبقے، جس نے کبھی بھی پورے ملک کے لئے یکساں تعلیمی پالیسی، کتب، نصاب اور ذریعہ تعلیم رائج کرنے کی زحمت نہیں کی، کا عطا کردہ ہے۔ فوج جس نے پاکستان پر راج کیا ہے اس کے علاوہ مرکزی سیاسی جماعتیں بھی اقتدار میں ر ہی ہیں پاکستان کی ناکامی دراصل ان سب کی ناکامی ہے۔ مذہبی جماعتیں تو ثانوی کردار ادا کرتے ہوئے اپنے لئے جتنابھی فائدہ اٹھا سکتی تھیں انہوں نے اٹھایا مگر ان کے پاس قوتِ فیصلہ کبھی بھی نہیں تھی۔ (کیونکہ وہ کبھی اقتدار میں نہیں رہیں) یہ پاکستان کے جنرلز، سیاستدان اور ان کے ساتھ تعاون پر آمادہ کوتاہ نظر بیورو کریٹس تھے جن کی اگائی ہوئی فصل آج پک چکی ہے۔
ایاز امیر کے مطابق اگر مذہب کا دنیاوی مقاصد کی خاطر غلط استعمال ہوا تو بھی قصور ارباب اختیار کا ہے، جنرل ضیاء کو رخصت ہوئے 22سال ہوچکے ہیں لیکن اگر آج بھی اس کی سوچ پھل پھول رہی ہے تو قصور کس کا ہے۔ آج کا پاکستان جناح کا پاکستان نہیں ہے ، اگر ہم حصول پاکستان کے اصلی مقاصد کی طرف نہ لوٹ سکے تویہ پاکستان کے سیکولر حکمرانوں اور فوجی جنرلز کی کج فہمی اور بے بصری ہے، ہم اس پر مذہبی طبقے کو مورد الزام کیوں ٹھہرائیں؟ میرے نزدیک ایاز امیرکے بیان کردہ نکات میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ مولوی نہیں جو حکمران طبقے کو ڈراتا ہے بلکہ یہ طبقہ تو اپنے سائے ہی سے خوفزدہ ہے، اس کے پاس سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ یہ غیر ملکی تصورات یا اپنے تخیلات کے شناور ہیں، یہ ہمارے انگلش بولنے والے طبقے یا نام نہاد سول سوسائٹی جو کسی پوش علاقے کی مارکیٹ میں کیمروں کے سامنے موم بتیاں جلا کر اپنے فرائض منصبی سے دستبردار ہو جاتی ہے، کے بس کی بات نہیں کہ ان مذہبی افواج کے مد مقابل آئیں… پاکستان کا اصل مسئلہ غلط تصورات کے مارے ہوئے جنرل اور نااہل سیاستدان ہیں اور جب تک یہ درست نہیں ہوتے، مولویوں کی افواج پیش قدمی کرتی رہیں گی۔
مجھے متذکرہ کالم میں جن امور سے اختلاف ہے،پہلے ان کا تذکرہ ہو جائے میرا پہلا اختلاف یہ ہے کہ ملک میں انٹی انڈیا فضا جنرل ضیاء الحق سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو نے گرم کی تھی جب انہوں نے سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قرارداد پر تقریر کرتے ہوئے انڈیا سے ایک ہزار سال تک جنگ کرنے کا اعلان کیا تھا، اسی طرح ”تحریک نظام مصطفےٰ “ کے دوران ”مولوی“ کے سامنے ہتھیار ڈالنے والے بھی بھٹو مرحوم ہی تھے۔ یہ تاریخی حقائق ہیں برادرم ایاز امیر کے کالم سے ایک تاثر یہ بھی ابھرتا ہے جیسے انڈیا پاکستان کے وجود کا دشمن نہیں ہے، میں اس تاثر سے متفق نہیں ہوں، مجھے جب کبھی انڈیا جانے کا اتفاق ہوا ہے، وہاں تقریباً ہر محفل میں حتیٰ کہ ادبی کانفرنسوں میں بھی کبھی بالواسطہ اور کبھی بلاواسطہ اکھنڈ بھارت کی بات کی جاتی ہے اور پاکستان کے وجود پر حملے کئے جاتے ہیں، ایسا سرکاری اور غیر سرکاری دونوں سطحوں پر ہوتا ہے، اس ضمن میں دیدہ دلیری کی انتہا یہ ہے کہ مشرقی پنجاب کے وزیراعلیٰ جب ہمارے پنجاب کے وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کی دعوت پر لاہور آئے تو انہوں نے اپنے اعزاز میں دیئے گئے استقبالیہ میں اپنی تقریر کے دوران ہمارے وزیراعلیٰ کی موجودگی میں اکھنڈ بھارت کی بات کی۔ یہ سب باتیں چھوڑیں، مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں ہمارے ”ٹائیگر جرنیل“ بعض سیاستدانوں اور ہماری غیر منصفانہ پالیسیوں کا جو دخل تھا، وہ اظہر من الشمس ہے لیکن پاکستان کو دو ٹکڑے کرنے کے لئے مکتی باہنی کی تشکیل اور مشرقی پاکستان پر بھارتی فوج کا بھرپور حملہ انڈیا کی پاکستان دشمنی کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔ (جاری ہے
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=499324
فی سبیل اللہ فساد اور فی سبیل اللہ جہاد!…روزن دیوار سے …عطاء الحق قاسمی… (دوسری و آخری قسط)
میرا اختلاف صرف یہاں تک ہے تاہم میں پوری دیانتداری سے محسوس کرتاہوں کہ انڈیا کے مذموم عزائم سے محفوظ رہنے کے لئے ہمیں اپنے گھوڑے تیار رکھنا چاہئیں لیکن آج کے دور میں یہ گھوڑے صرف ایٹمی میزائل پر مبنی نہیں ہیں جن گھوڑوں کی ہمیں اب شدید ضرورت ہے۔ ان میں سرفہرست معاشی اور سیاسی استحکام کے گھوڑے ہیں، ہمیں انڈیا سے جنگ کرنے کا خیال دل سے نکال دینا چاہئے، اس جنگ کے نتیجے میں ہم دونوں ایک دوسرے کو ہلاک تو کرسکتے ہیں لیکن یہ جنگ ہمیں پتھر کے زمانے میں واپس لے جائے گی، ہمیں صرف ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے، اس کے لئے معاشی استحکام، سیاسی استحکام ،اداروں کو مضبوط کرنا نیز دہشت گردی اورہر قسم کی جنونیت کا خاتمہ ہماری اولین ضرورت ہیں جبکہ صورتحال یہ ہے کہ ہمارے تمام ادارے تباہ ہوچکے ہیں۔
معیشت آخری سانس لے رہی ہے ،رواداری اور برداشت کا خاتمہ ہو چکا ہے، سیاسی استحکام نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی، گورنمنٹ کی رٹ قصہٴ پارینہ بن چکی ہے، اسلحہ اور بارود سے گودام بھرے ہوئے ہیں، لوٹ مار، قتل و غارت گری، ٹارگٹ کلنگ، کرپشن ہمارے وجود کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے، ہر شخص مفتی بنا ہوا ہے اور اس کے فتوے کے سامنے کوئی ٹھہر نہیں سکتا جبکہ بے شمار خرابیوں اور اپنی بنیاد میں مضمر تباہیوں کے باوجود انڈیا ترقی کی راہ پر بھی گامزن ہے۔ اس کے سامنے ہماری کرنسی کی حیثیت افغانی جتنی رہ گئی ہے، ہمارے تقریباً دو سو روپے ان کے ایک سوروپے کے برابر ہیں، ان کے تمام ادارے بہترین حالت میں کام کر رہے ہیں، اب جنگیں ہتھیاروں سے نہیں لڑی جاتیں، اتحاد و استحکام کی دوڑ میں جیتنے والا ہی کامیاب و کامران کہلاتا ہے۔ ہم نے انڈیا سے یہ جنگ لڑنا ہے اور اس میں کامیاب ہونا ہے۔ سو برادرم ایاز امیر نے میرے خوبصورت وطن پاکستان کو بد صورت بنانے والے جن عوامل کا ذکر کیا ہے، مجھے اس سے سو فیصد اتفاق ہے۔ میری ان تمام اداروں، جماعتوں اور افراد سے دست بستہ استدعا ہے کہ وہ اب پاکستان پر رحم کریں۔ یہ ر حم دراصل وہ خود پر اور اپنی آنے والی نسلوں پر بھی کریں گے کیونکہ اگر خاکم بدہن پاکستان کو کچھ ہوتا ہے تو اس کی زد میں وہ بھی آئیں گے اور ان کی وہ سب بادشاہیاں ختم ہو جائیں گی جو صرف اور صرف پاکستان کے دم قدم سے ہیں۔
میں ایاز امیر صاحب کے اس تھیسز سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں کہ پاکستان کے لئے تباہ کن پالیسیاں ہمارے انگریزی بولنے والے سیکولر لوگوں نے بنائی ہیں جن میں سیاستدان، بیورو کریٹ اور جی ایچ کیو شامل ہیں، ”مولوی“ نے صرف ان پالیسیوں سے فائدہ اٹھایا ہے اور وہ قوم کو تقسیم کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے، اس ضمن میں ان کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ ”مولوی“ حکمران طبقے کو نہیں ڈراتا بلکہ یہ طبقہ تو اپنے سائے ہی سے خوفزدہ ہے اور یہ کہ پاکستان کا اصل مسئلہ غلط تصورات کے مارے جرنیل اور نااہل سیاستدان ہیں اور جب تک یہ درست نہیں ہوتے، مولویوں کی افواج پیش قدمی کرتی رہیں گی!
اس میں کچھ سیاستدانوں اور کچھ جرنیلوں کے ساتھ ”بدنیت“ کے لفظ کا اضافہ بھی کرلیں تو بات زیادہ مکمل ہو جائے گی، مولویوں سے ڈرنے والا حکمران طبقہ صحیح علمائے کرام کے سائے سے بھی دور رہتا ہے، اس نے ہمیشہ سیاسی اور فسادی مولوی کی سرپرستی کی ہے ۔ کالم کو مزید طوالت سے بچانے کے لئے میں اس کا جھٹکا کرتے ہوئے آخر میں صرف یہ کہوں گا کہ ہمارے بزدل حکمران فسادی عناصرسے گٹھ جوڑ کرتے رہیں گے، یہ کام ہمارے جرنیل بھی کرتے رہے ہیں اور اس درد کا مداوا بھی انہی کو کرنا ہے جنہوں نے قوم کو یہ درد دیا ہے چنانچہ میں جنرل اشفاق پرویز کیانی سے، جو بہت اچھی شہرت کے حامل ہیں اور جنہوں نے فوج کو صحیح پٹڑی پر واپس لانے کی کئی کوششیں کی ہیں، گزارش کروں گا کہ و ہ جید علمائے کرام کے اعلیٰ مقام اور مرتبے کو برقرار کھتے ہوئے فسادی عناصر پر صرف ایک تفصیلی نظر ڈالیں۔ اس عقل مند مخلوق کے لئے یہ اشارہ کافی ہوگا ملک و قوم کو مزید تباہی سے بچانے کے لئے انہیں یہ کام ”فی سبیل اللہ“ کرنا ہوگا۔ امید ہے وہ ”فی سبیل اللہ“ کا مطلب سمجھ گئے ہوں گے اور یہ بھی کہ اگر فی سبیل اللہ فساد ہوسکتا ہے تو اس کے خاتمے کے لئے فی سبیل اللہ جہاد بھی کیا جاسکتا ہے مجھے یقین ہے جنرل کیانی یہ کام ضرور کریں گے، باقی رہے کرپٹ اور بزدل حکمران، انہیں ہم خود سنبھال لیں گے۔
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=499636
i think that MMA will not come alive once again … its a dead horse … and previous MMA leaders cant trust on Maulana Fazar-ur-Rahman who is the man known as CHEATER Maulana … PPPP should have no any further blackmailing by JUI(F) & MQM these regional parties are totally blackmailers so PML & PPP have to stay away from them and dont need to take them in their collations … this act will be the death of blackmailer parties