Will the ‘siasi adakar’ have mercy on Pakistan? – by Farhad Jarral
٢٧ دسمبر ٢٠٠٧ پاکستان کی تاریخ کا بدترین دن ، یہ وہ دن ہے جس دن پاکستان کی عظیم رہنما اور چاروں صوبوں کی زنجیر مھترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت ہوئی ۔۔ آج جب کہ ملک حالتِ جنگ میں ہے، انتہاپسندی کی لہر نے ملک کو لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ آج ٢٧ دسمبر ٢٠٠٩ کو دو خونی دھماکوں نے کتنی ماؤں کی گود اجاڑی ہو گی، کتنی بہنوں کے بھائی زخمی یا شہید ہوے ہوں گے ۔ بھایئوں کے لاشے کو کندھا دیا ہو گا۔
مگر ہمارے میڈیا کے چند تجزیہ نگار نجانے ان کے جسم میں دل کی جگہ کوئی پتھر رکھ دیا گیا ھے ۔ وہ صرف اور صرف ہمارے ملک کے اداروں کے ٹکراؤ سے دل کی تسکین پانے میں لگے ہوئے ہیں۔
ہمارا میڈیا بات تو جمہوریت کی کرتا ہے اور ہمیشہ اپنے تجزیوں میں اس بات کا ذکر کرتا ہے کہ جمہوریت کو مستحکم ہونا چاہیے اور جمہوریت میں ہی پاکستان کی بھلائی ہے اور جمہوری نطام سے ہی پاکستان پھلےگا پھولےگا، لیکن اس کے برعکس ان کہ تجزیوں سے ایسا بلکل نہیں لگتا کے وہ جمہوری نطام یا موجودہ جمہوری حکومت کے حامی ہیں ۔
اس کا انداذہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کل جب صدرِ پاکستان جناب آصف علی زرداری صاحب جو کہ پاکستان پیپلز پارٹی کہ شریک چیرمین بھی ہیں انہوں نے اپنی زوجہ محترمہ بےنطیر بھٹو شہید کی برسی پر پارٹی کارکنان سے خطاب کیا تو ہمارے میڈیا نے اس خطاب کو ایک نیا رنگ دے دیا، اس کو سیاسی جنگ کا نام مل گیا اور اسی نجی چینل جو کہ بہت عرصے سے پیپلز پارٹئ کی لیڈرشپ کو نشانہ بنا کے بیٹھا ہے ، اس چینل کے چند تجزیہ نگاروں نے اپنے تجزیوں میں حکومت اور فوج کہ ٹکراؤ کی بات کی جو کہ صدر صاحب کے خطاب میں اس بات کا ذکر کہیں دور دور بھی نظر نہیں آتا۔
خدارا اس مملکتِ خداداد پے رحم کھائیں جسکو بہت سی جانوں کہ نظرانے دے کر یہاں تک لائے ہیں ۔ اداروں کو مظبوط بنانے میں مثبت رائے دینے یا ملک کی خوشحالی کے راستے میں گامزن کرنے میں مدد دینے کے بجائے جلتی پے تیل نا ڈالیں۔ ادارے مضبوط ہوں اور ان کے درمیان باہمی ہم آہنگی ہوئی تو ملک رہے گا۔۔ خاک کم بدھن، اگر ہمارے ملک کو کچھ ہوا تو کیا یہ ٹی وی چینلز رھیں کے؟ یہ سیاسی اداکار کس چیز پے تجزیہ نگاری کرینگے؟
اب بھی وقت ہے ملک کے اداروں کو جوڑیں نا کے ان میں دڑاڑیں ڈالیں۔ اس ملک کو ایک مظبوط ملک، خوشحال ملک، پر امن ملک بنانے کے لئیےمثبت تجزیئے کریں ، اس میں ہم سب کی بھلائی ہے ۔ خدا ہمارے ملک کو ان لوگوں سے محفؤظ رکھے جو جمھوریت اور اس ملک کی طرف میلی آنکھ رکھتے ہیں ۔ آیئے سب مل کر پاکستان کھپے کا نعرہ بلند کریں۔
پاکستان زندہ باد، پاکستان پائیندہ باد
قومی مفاہمتی آرڈیننس یا این آر او پر میڈیا میں موجودہ واویلا اپنی جگہ لیکن میری نظر میں اس طرز کے معاہدے اس سے قبل میں ہم مختلف شکلوں میں دیکھ چکے ہیں۔
دسمبر دو ہزار: برطرف وزیر اعظم نواز شریف صدارتی فرمان کے تحت عمر قید سے چھٹکارا پاتے ہیں اور سعودی عرب کو بمعہ اہل خانہ روانہ کر دیے جاتے ہیں۔ سرکاری بیان کے مطابق یہ قدم ‘وسیع تر قومی مفاد’ میں اٹھایا گیا تھا۔ عدالت عظمٰی نو برس بعد انہیں طیارہ سازش کیس میں باعزت بری کر دیتی ہے لیکن صدر مشرف کے دور میں تو انہیں رعایت دی گئی تھی۔
فروری دو ہزار چار: صدر جنرل پرویز مشرف پاکستانی ایٹم بم کے خالق ڈاکٹر قدیر خاں کو معافی دے دیتے ہیں۔ یہ معافی انہیں ان کے سرکاری ٹی وی پر جوہری ہھتیاروں کے پھیلاؤ سے متعلق اقراری بیان کے بعد دی جاتی ہے۔ یہ بین الاقوامی سطح کا این آر او قرار دیا جا سکتا ہے۔
اپریل دو ہزار چار: فوجی حکام جنوبی وزیرستان میں شکئی کے مقام پر قبائلی شدت پسند نیک محمد کے ساتھ امن معاہدہ کرتے ہیں۔ اس سمجھوتے کے تحت فریقین ایک دوسرے کو پہنچائے جانے والے جانی نقصانات کو معاف کرتے ہوئے ایک دوسرے کو بھائی قرار دیتے ہیں۔
فروری دو ہزار پانچ: بیت اللہ محسود طویل لڑائی کے بعد حکومت سے سمجھوتہ کرتے ہیں۔ ماضی کا کیا کرایا سب معاف ہوا لیکن پھر نیک محمد کی طرح بیت اللہ بھی میزائلوں کا شکار ہوئے۔
ستمبر دو ہزار چھ میں شمالی وزیرستان اور فروری دو ہزار نو میں سوات کے شدت پسندوں کے ساتھ معاہدے کو قومی تو نہیں البتہ مقامی مفاہمتی آرڈیننس ضرور قرار دیا جا سکتا ہے۔ اسی آرڈیننس کی ایک صورت شدت پسند رہنماؤں کی مختلف اوقات میں رہائی بھی ہے۔
قومی اسمبلی کو بتایا گیا کہ انیس سو پچاسی سے اب تک حکمرانوں نے سو ارب روپے کے قرضے معاف کیے۔ اس این آر او کی بہتی گنگا میں تو صرف سیاستدان نہیں تقریباً ہر کسی نے ہاتھ دھوئے۔
ان سب سیاسی یا عسکری این آر اوز کو اگر اب ‘نان آبلیگیٹری آرڈیننس’ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔۔
http://www.bbc.co.uk/blogs/urdu/2009/12/post_566.html