Female suicide bombers: A Farhat Hashmi production

Related article:

Dr Farhat Hashmi: Cultivating Al Qaeda in Muslim women

کیا اب خواتین، خودکش حملے کریں گی؟
رحیم اللہ یوسف زئی

پاکستان کے قبائلی علاقوں مہمند اور باجوڑ میں عسکریت پسندوں کے حملوں کی نئی لہر، جس میں پاکستان کی پہلی خاتون خودکش بمبار بھی شامل ہے اس حقیقت کی مظہر ہے کہ تحریک طالبان پاکستان سے لاحق خطرات کا خاتمہ نہیں ہوا باوجود اس کے کہ ایک مستقل فوجی مہم ان عناصر کے خلاف گزشتہ سات برس سے جاری ہے۔

جہاں تک ایسے لشکروں مسلح رضاکاروں کے جتھے تشکیل دیئے جانے کا تعلق ہے جن کا تعلق کسی ایک ہی قبیلے سے ہو یا پھر کسی خاص علاقے سے ہو جو عسکریت پسندوں سے نمٹ سکیں تو اس تجویز پر نظرثانی کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اس طرح کسی ایک دیہات یا برادری کے افراد ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا ہوجاتے ہیں اور انتقامی قتل و غارت شروع ہوجاتا ہے۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی جان، مال اور جائیداد کی حفاظت کرے اور سیکورٹی فورسز کا یہ فرض ہے کہ وہ باغیوں اور سرکشوں کے خلاف جنگ کو جاری رکھیں۔

حکومت کو چاہئے کہ وہ اس بات کو ممکن بنائے کہ عسکریت پسند الگ تھلگ ہوکر رہ جائیں اور عوام کے مسائل حل کرکے عوام کا دل جیتا جائے۔ ایک ہی قبیلے کے دو گروپوں کو ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا کرنا مناسب اقدام نہیں کیونکہ غیرت اور انتقام کا جذبہ اس علاقے میں بہت مضبوط اور گہرا ہے۔

یہ سوال بھی ابھی تک جواب طلب ہے کہ باجوڑ لیویز پر خودکش حملہ کسی عورت نے کیا تھا یا نہیں؟؟؟ اس حملے میں سینتالیس افراد ہلاک ہوئے۔ ان سب افراد کا تعلق سالار زئی علاقے سے تھا جہاں عسکریت پسندوں کے خلاف لشکر تیار کئے جارہے تھے۔ باجوڑ کے سول اور ملٹری حکام کو اس بات کا پورا یقین ہے کہ خودکش بمبار ایک نوجوان خاتون تھی۔ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ یہ خاتون سوات سے آئی تھی حالانکہ سوات سے تعلق رکھنے والا کوئی عسکریت پسند سوات میں تو حملہ کرسکتا ہے لیکن باجوڑ میں نہیں۔اگر یہ سچ ہے کہ اس واقعے کی ذمہ دار خودکش بمبار ایک خاتون ہی تھی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اب عسکریت پسندوں نے اپنے داؤ پیچ میں تبدیلی کرلی ہے۔

حکومت کے سامنے بھی ایک بڑا چیلنج آگیا ہے کیونکہ برقع پوش عورتیں آسانی کے ساتھ سیکورٹی کے حصار کو توڑ سکتی ہیں۔ بہرکیف عورتوں کا برقع ہو یا موسم سرما میں استعمال کی جانے والی مردوں کی چادر ان دونوں میں دھماکہ خیز مواد اور خودکش جیکٹس تک چھپا کر بآسانی لے جائے جاسکتے ہیں۔ پولیس میں ایسی خواتین تعداد میں کم ہیں جو عورتوں کی جامہ تلاشی لے سکیں۔

گزشتہ بار دسمبر 2007ء میں ایک خاتون خودکش بمبار کا ذکر سننے میں آیا تھا جس نے پشاور چھاؤنی کے نزدیک واقع ایک ملٹری بیریر پر خودکش حملہ کیا تھا۔ بہرنوع انٹیلی جنس ایجنسیاں بعد میں اس نتیجے پر پہنچیں کہ یہ عورت خودکش بمبار نہیں تھی اور جو دھماکہ خیز مواد وہ لے کر جارہی تھی اسے کسی نے ریموٹ کنٹرول کی مدد سے اڑا دیا تھا۔ اس بات میں ہرگز کوئی شک اور شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ عسکریت پسند خودکش حملوں کے لئے عورتوں کو استعمال کرسکتے ہیں۔ بالخصوص ان مقامات پر جہاں داخل ہونا مشکل ہو لہٰذا باجوڑ پر حملہ کسی عورت نے نہیں بھی کیا تو اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ آئندہ خواتین کو ان حملوں کے لئے استعمال نہیں کیا جائے گا۔

Source: Jang, 1 January 2011

Comments

comments

Latest Comments
  1. IRFAN URFI
    -