شہید خرّم زکی، ایک غیر مصلحت پسند انقلابی – از نور درویش
مجھے کچھ عرصہ اسی سوشل میڈیا کے توسط سے خرم ذکی کے ساتھ بات چیت کرنے، آئیڈیاز شئیر کرنے اور کام کرنے کا موقع ملا۔ جتنا میں اُن کے بارے میں مشاہدہ کرسکا، اُس کے بنیاد پر میں مکمل یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر وہ اس وقت حیات ہوتے، تو بجائے تاولیں گھڑنے کے اور لمبے لمبے مضامین لکھنے کے، وزیریستان یاترا پر کھل کر اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہوتے اور تنقید کر رہے ہوتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے اُنہیں ان کالعدم تنظیموں کو مین سٹریم کیے جانے کی ہر کوشش کے خلاف بھرپور انداز میں بولتے دیکھا تھا۔ بار بار “کہاں ہے نیشنل ایکشن پلان” کا رونا رونے والا خرم ذکی کم از کم ہمیں اس یاترا کے فضائل نہ سناتا بلکہ چوبیس ہزار مقتولین کے خون کا واسطہ دیکر سوال اُٹھاتا اور احتجاج کرتا۔
۔
خرم ذکی بیک وقت ایک انقلابی بھی تھے، مںاظر بھی اور ملنگ بھی۔
ہم سب کو یاد ہی ہوگا کہ اُن پر ٹی وی چینلز اور صحافت کے دروازے کیوں بند ہوئے تھے، صرف اس وجہ سے کہ انہوں نے ایک چینل پر بیٹھ کر ببانگ دہل یہ کہا تھا کہ ایک گود میں پروان چڑھنے والا امام حسینؑ ہے اور دوسری میں پرورش پانے والا امیرِ شام۔ آج وحدت کے نام پر ٹی وی پر کیا کیا کچھ کہہ دیا گیا، آپ کو معلوم ہی ہوگا؟
کالعدم سپاہ صحابہ کے خلاف جہاں وہ کھل کر اپنا موقف بیان کرتے تھے تو وہیں ان کے ساتھ مناظرے بھی کیے۔ اُن کی فیس بک پروفائل اب بھی موجود ہے، آپ جاکر دیکھ سکتے ہیں کہ کالعدم سپاہ صحابہ سمیت ہر تکفیری گروہ کے خلاف اُن کا کیا موقف ہوا کرتا تھا اور ان گروہوں کو ملنے والی سرکاری سرپرستی پر وہ کس انداز سے تنقید کیا کرتے تھے۔ انقلابی تھے لیکن co-existence کا مفہوم سمجھتے تھے، اسی لیے آج جن لوگوں کو ہم “غالی” کہہ کر دھکتارتے ہیں، وہ بھی اُن کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آتے تھے۔ یہ جانتے ہوئے کہ بہت سے معاملات پر اُن کی خرم ذکی کی رائے یکساں نہ تھی۔ خود میں اُن سے ہر بات پر اتفاق نہ رکھتا تھا۔
خرم ذکی کو میں نے کبھی حقائق کو مسخ کرتے، جھوٹے موازنے گھڑتے، مقتول کی شناخت چھپاتے یا مصلحت کا شکار ہوتے نہ دیکھا تھا۔ بلکہ ایسا کرنے والوں کے خلاف انہیں ہمیشہ کھل کر بولتے دیکھا۔
۔
برسبیل تذکرہ بتاتا چلوں کہ یہی خرم ذکی تھے جن کے خلاف شیعوں کے ہی ایک گروہ نے سوشل میڈیا پر پراپگنڈہ کیا تھا، انہیں آئی ایس آئی کا ایجنٹ قرار دیکر عجیب و غریب منطق بیان کی گئی تھی۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ یہ سب کچھ اُن کی شہادت کے بعد لکھا گیا تھا۔ اور حیرت اس بات پر ہے کہ یہ سب لکھنے والا نہ کوئی “غالی” تھا اور نہ ہی کوئی ذاکر۔ نظام ولایتِ فقیہ اور سید خمینیؒ کے معتقد خرم ذکی کے خلاف یہ سب لکھنے والے بھی اتفاق سے اسی فکر سے وابستہ ہونے کے دعویدار ہیں۔ آپ کو حیرت ہوئی؟ لیکن حیرت کیسی؟ کیا آپ آج بھی نہیں دیکھتے کہ پاکستان میں خود کر فکرِ خمینیؒ سے جوڑںے والے شیعہ گروہ آپس میں ہی دست و گریباں رہتے ہیں؟
۔
دو سال قبل میں نے پارہ چنار میں جاری تاریخی دھرنے کے دوران “تاویل پرست” کے عنوان سے تین تحاریر لکھی تھیں جن میں شیعوں کے قتل پر حقائق کو مسخ کرنے والوں کے طریقہ واردات پر اپنی فہم کے مطابق کچھ تفصیل بیان کی تھی۔ آج دو سال بعد یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ یہ تاویل پرستی کا مرض اب مختلف شکلوں میں ہمارے اندر بھی داخل ہوچکا۔ گویا اب ہمیں وزیرستان یاترا کی تاویلیں کہیں اور سے نہیں بلکہ اپنوں سے ہی سننی ہونگی اور وہ بھی حسبِ معمول طعنوں سے بھرپور۔ مجھے تو ڈر ہے کہ خرم ذکی اگر آج حیات ہوتے تو یہ “بیدار اذہان” اُن پر بھی “علماء دشمنی” کا لیبل چپکا دیتے۔ گویا پاکستان میں علماء فقط وہی ہیں جو ان بیدار اذہان کی مصلحت پسندی، وحدتی منجن فروشی اور تاویل پرستی کو سوٹ کرتے ہیں۔
۔
ایسی وحدت، مصلحت پسندی اور تاویل پرستی کو دور سے سلام!