پاکستان میں شیعہ نسل کشی: 2018ء میں 29 دہشت گردی کی وارداتوں میں 57 شیعہ مسلمان جاں بحق اور 49 زخمی ہوئے ۔ رپورٹ ادارہ تعمیر پاکستان

سن 2018ء میں ٹارگٹ کلنگ اور خودکش بم دھماکوں میں کل 57 شیعہ جاں بحق اور 49 زخمی ہوئے۔

خودکش بم دھماکہ اورکزئی ایجنسی میں شیعہ اکثریت کے علاقے میں اتوار بازار میں لگنے والے میلے میں ہوا،جس میں 30 شیعہ مسلمان جاں بحق اور 35 شیعہ مسلمان زخمی ہوئے۔

سن دو ہزار اٹھارہ میں دسمبر میں شیعہ ٹارگٹ کلنگ کی سب سے ہائی پروفائل واردات سابق رکن قومی اسمبلی سید علی رضا عابدی کا قتل تھا،جو ان کی رہائش گاہ کے عین سامنے ہوا۔

ادارہ تعمیر پاکستان کی جانب سے اکٹھے کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق سن 2018ء میں شیعہ کے دہشت گردی کی کل 29 وارداتیں میڈیا میں رپورٹ ہوئیں جن میں کل 57 شیعہ مسلمان جاں بحق اور کل 49 افراد زخمی ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق شیعہ ٹارگٹ کلنگ کی سب سے زیادہ وارتیں خیبرپختون خوا اور فاٹا میں ہوئیں جن کی تعداد 12 بنتی ہے۔ دوسرے نمبر پہ سب سے زیادہ وارداتیں صوبہ بلوچستان میں ہوئیں جن کی تعداد10 بنتی ہے۔ اور تیسرے نمبر پہ صوبہ سندھ رہا جہاں کل 4 شیعہ ٹارگٹ کلنگ کی وارتیں ہوئیں۔جبکہ صوبہ پنجاب میں ایک واردات رپورٹ ہوئی۔

رپورٹ کے مطابق شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے سب سے زیادہ واقعات 2018ء میں بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں رپورٹ کیے گئے، جن کی تعداد 8 تھی، بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں ٹارگٹ کلنگ میں جاں بحق ہونے والے شیعہ مسلمانوں کی تعداد 8جبکہ زخمی ہونے والے شیعہ مسلمانوں کی تعداد چار تھی۔ جبکہ بولان بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ کی ایک واردات میں شیعہ مسلمان جاں بحق ہوا۔

دوسرے نمبر پہ شیعہ مسلمانوں کی ٹارگٹ کلنگ کی سب سے زیادہ وارداتیں خیبرپختون خوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں ہوئیں۔ شیعہ ٹارگٹ کلنگ کی کل چھے وارداتوں میں ڈیرہ اسماعیل خان میں 10 شیعہ مسلمان جاں بحق ہوئے۔ جبکہ خیبر پختون خوا کے ضلع ٹانک میں ایک، بنوں میں ایک،کوہاٹ میں ایک، اورکزئی ایجنسی میں 30 شیعہ جاں بحق،35 زخمی، ہنگو میں ایک شیعہ زخمی،فاٹا میں ایک شیعہ جاں بحق ہوا۔

تیسرے نمبر پہ شیعہ ٹارگٹ کلنگ کی سب سے زیادہ وارتیں کراچی سندھ میں ہوئيں،جہاں پہ 3 شیعہ جاں بحق اور 3 زخمی ہوئے۔

یاد رہے کہ2017ء میں ادارہ تعمیر پاکستان کی رپورٹ کے مطابق شیعہ مسلمانوں پہ پاکستان میں کل 33 حملے رپورٹ کئے گئے تھے جن میں تین سو آٹھ شیعہ لوگوں نے اپنی جان گنوائی اور ان وارداتوں میں 548 شیعہ مسلمان زخمی ہوئے تھے۔

https://lubpak.com/shia-genocide-in-pakistan-308-killed-54…/

پاکستان میں ادارہ تعمیر پاکستان کی طرف سے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والی تکفیری و جہادی عسکریت پسند تنظیموں کی جانب سے 2012ء تک 23ہزار دو سو پندرہ شیعہ مسلمانوں کو ان کی شیعہ شناخت کے سبب قتل کیا گیا اور 2018ء تک یہ تعداد 26 ہزار سے کہیں زیادہ تجاوز کرچکی ہے۔

ادارہ تعمیر پاکستان کی طرف سے تیار کئے جانے والے ڈیٹا بیس کے مطابق مارے جانے والے شیعہ مسلمانوں میں 30 فیصد بچے یا 18 سال سے کم عمر کے لوگ شامل ہیں اور یہ تعداد کم از کم چھے ہزار بنتی ہے۔ جبکہ جاں بحق و زخمی ہونے والوں میں کافی بڑی تعداد عورتوں کی بھی شامل ہے۔

ڈیٹا بیس کی تفصیل کے لیے دیکھیں لنک

https://lubpak.com/shia-genocide-database-a-detailed-acco…/…

اس حقیقت کے باوجود پاکستان میں کمرشل لبرل مافیا صحافتی و این جی اوز اشراف کا ایک حصّہ شیعہ نسل کشی کا اقرار نہیں کرتا بلکہ اس حوالے سے انکار،ابہام اور یہاں تک کہ جواز کا نکتہ نظر رکھتا ہے۔

پاکستان میں شیعہ نسل کشی کی مہم بارے پائے جانے والے مغالطے ، شیعہ کو ہدف بنائے جانے میں پائے جانے والے تین عناصر کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔

پہلا عنصر نسل کشی کی مہم کا ہدف بننے والوں کی شیعہ شناخت ہے۔ پاکستان میں تعداد کے لحاظ سے اور اپنی مذہبی شناخت کے سبب سب سے زیادہ ہدف بننے والی مذہبی کمیونٹی شیعہ ہے۔2012ء تک یہ تعداد 23 ہزار تھی اور اب 2018ءمیں چھبیس ہزار کے قریب جاپہنچی ہے۔

دوسرا عنصر شیعہ نسل کشی کی مہم جلائے جانے والی تنظیموں کی نظریاتی شناخت ہے۔ شیعہ کو بطور ان کی مذہبی شناخت کے نشانہ بنانے والوں کا تعلق تکفیری نظریہ سے ہے جو پاکستان کے اندر دیوبندی مکتبہ فکر سے نکلنے والی عسکریت پسندی جہادی،تکفیری تںطیموں کا بنیادی نظریہ ہے۔ شیعہ مسلمانوں پہ ان کی مذہبی شناخت کی بنیاد پہ اب تک جتنے بھی دہشت گرد حملے ہوئے وہ دیوبندی مکتبہ فکر سے ابھرنے والی تکفیری جہادی تنظیموں جیسے سپاہ صحابہ/اہلسنت والجماعت/لشکر جھنگوی، تحریک طالبان پاکستان،جماعت احراروغیرہ نے کیے ہیں اور ان تکفیری گروپوں کے داعش و القاعدہ جیسی تنظیموں سے بھی روابط ہیں۔


تیسرا عنصر شیعہ نسل کشی میں ایران-سعودی یا شیعہ-سنّی بائنری کو بنیادی حثیت دینا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ تکفیری جہادی تنظیمیں خود سنّی مسلمانوں ، کرسچن، ہندؤ،احمدی اور سکھوں پہ بھی حملوں میں ملوث ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ بعض علاقوں میں شیعہ نسل کشی کی مہم میں ‘نسلی’ عنصر کو بنیادی پہلو قرار دیکر شیعہ نسل کشی کو مبہم بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جیسے ہزارہ کمیونٹی ، ڈیرہ اسماعیل خان میں سرائیکی کمیونٹی، خیبرپختون خوا میں شیعہ شناخت کو پس پشت ڈال کر، پشتون شناخت کو اولیت دینا پارہ چنار اور پشاور وادی میں شیعہ پشتونوں پہ ہوئے حملوں اور ان کی نسل کشی کی مہم میں تکفیری عناصر کے مختلف النسل ہونے کے پہلو کو نظر انداز کرکے اسے پنجابی بنیاد پرست۔پشتون بائنری میں بیان کرنے کا طریقہ کار۔

حال ہی میں ایم کیو ایم کے سابق رہنما سید علی رضا عابدی کے قتل کو ایم کیو ایم کے دھڑوں کی باہمی لڑائی یا اسے اسٹبلشمنٹ کی کارستانی قرار دینے پہ زور دیا گیا اور اس حوالے سے ان کو تکفیری عناصر کی جانب سے ملنے والی دھمکیوں کو نظر انداز کردیا گیا۔ یہی طریقہ کار ایم کیو ایم کے منظر امام کے قتل میں اختیار کیا گیا تھا اور قوال امجد صابری کے قتل کے وقت بھی یہی کیا گیا،بعد ازاں یہ سارے قتل تکفیری دیوبندی عسکریت پسند تنظیموں کا کارنامہ نکلے۔

(پاکستان میں شیعہ نسل کشی کے بارے میں ابہام،انکار اور جواز بارے پائے جانے والے رویوں سے متعلق تحقیقی مضامین کے لیے درج ذیل لنک پہ کلک کیجئے)

https://lubpak.com/the-discourse-of-shia-genocide-in-pakis…/

https://lubpak.com/u-n-report-the-crisis-shia-genocide-in-…/

https://lubpak.com/silence-encourages-shia-genocide-in-pak…/

https://lubpak.com/%D8%AF%DB%8C%D9%88%D8%A8%D9%86%D8%AF%DB…/

https://lubpak.com/%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9…/

Comments

comments