شاکر لاکھانی کا بغض بھٹو پاکستانی شہری اشرافیہ کی نفسیاتی بیماری کا عکس ہے – ریاض ملک
اگر آپ اپنے قابل رحم بورژوازی/سرمایہ دارانہ نفسیاتی عارضے کو صحت مند رویہ ثابت کرنا چاہتے ہیں اور فوجی جنتا و اس کے معاون و مددگار جماعت اسلامی والوں کے جرائم کی پردہ پوشی چاہتے ہیں، تو ایکسپریس ٹرائبون میں آنے والے شاکر لاکھانی کے بلاگ کو سینے سے لگالیں ۔ یہ بنگلہ دیش کے قیام کا سارا الزام بھٹو کے سر دھرنے میں آپ کی بڑی مدد کرے گا۔
شاکر لاکھانی کا بلاگ اس گند کی روایتی مثال ہے جو ہماری شہری بالائی مڈل کلاس دماغی سرگرمیوں کے ارد گرد تیرتی رہتی ہے۔ اس کا قابل رحم اور یک رخا بلاگ اس المیے کی پیچیدگی کو بہت ہی سادہ بناکر دکھاتا ہے۔
یہ عباس اطہر کی بھٹو صاحب کی تقریر پہ بنائی گئی ہیڈلائن پہ انحصار کرتا ہے۔ ہماری باتونی شہری اشرافیہ ہمیشہ پاکستان انیس سو اکہتر کو ٹوٹنے کی بنیاد سیاق و سباق سے ہٹاکر ‘ادھر ہم، ادھر تم’ کی ہیڈلائن کو بناتی ہے۔
یہ مضمون 1954ء کے مشرقی پاکستان کے انتخابات بارے بات ہی نہیں کرتا جس میں جگتو فرنٹ نے صفایا پھیر دیا تھا۔ اور جب مشرقی پاکستان کے صوبائی حقوق سے انکار کردیا گیا تھا۔
یہ ایوب خان کے ایبڈو بارے بھی خاموش ہے۔ یہ مجیب الرحمان کی علیحدگی پسند سیاسی تحریک بارے بھی کم ہی بات کرتا ہے۔اور یہ بتانے سے بھی قاصر رہتا ہے کہ ون یونٹ فارمولا ایک ایسا عمل تھا جس نے ایسے شگاف ڈالے کہ جن کو پر کیا جانا پھر ممکن نہیں ہوا۔
اپنی بھٹو مخالف پتھالوجی کی رو میں بہتے ہوئے، شاکر لاکھانی بورژوازی/سرمایہ داری کے ان روایتی تعصبات بارے مکمل اندھا ہوگیا جس نے عمران خان کو ابھرنے کا موقعہ فراہم کیا۔
لاکھانی مجرمانہ صفت رکھنے والی فوجی جنتا کو بنگلادیش کے الزام سے بچ نکلنے کا موقعہ فراہم کرتا ہے جو حمود الرحمان کمیشن رپورٹ میں مجرم پائی گئی تھی۔ روایت طعنہ باز کے طرح، لاکھانی نے یہ زکر کرنے کی زحمت بھی گوارا نہ کی کہ یہ پرائم منسٹر بھٹو تھے جنھوں نے حمود الرحمان کمیشن قائم کیا تھا۔
نہ ہی وہ اس حقیقت کو ہائی لائٹ کرتا ہے کہ یہ بھٹو تھا جس نے مجبیت الرحمان کو رہا کیا، اور 1972ء میں بنگلہ دیش کا دورہ کیا اور اس کا وہاں والہانہ استقبال ہوا۔ اس میں اتنی شائستگی یا کردار کی پختگی نہیں ہے کہ وہ اس بات کو نمایاں کرپاتا کہ یہ بھٹو تھا جس نے بنگلہ دیش کو اپنی بنائی ہوئی او آئی سی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی تھی۔
اپنے سارے قابل رحم پروپیگنڈے اور عذر خواہی پہ مبنی مضمون کا شاکر لاکھانی اختتام روایتی جھوٹ کے ساتھ کرتا ہے اور بد دیانتی کے ساتھ ایک غلط بات جو بھٹو سے منسوب ہے اسے نقل کرتا ہے۔
بھٹو صاحب نے بالکل ٹھیک تنقید کی تھی کہ ممکنہ دستور ساز اسمبلی نہ تو آئین بنا پائے گی اور نہ ہی اپنے پیروں پہ کھڑی ہوسکے گی۔ اب اس جملے کو ‘ اسمبلی اجلاس میں شریک ہونے والوں کی ٹانگیں توڑ دوں گا’ سے بدلنا کتنی بڑی بددیانتی ہے۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ بہت بڑے لکھے پاکستانی پی پی پی کی نفرت میں اس قدر اندھے ہوگئے ہیں کہ وہ سفید جھوٹ اور من گھڑت باتوں کو اختیار کرلیں گے جس سے یہ مرتاض نفسیات پہ مبنی مضمون تشکیل پایا ہے۔