جان میکنن کی موت پہ سوگوار لبرل بیسواؤں کے نام – عامر حسینی

” میں جان میکنن کی تعریف میں ٹوئٹ کرنے والوں سے پوچھتا ہوں کہ اس نے شام اور لبیا کے بارے میں وہی کچھ کہا اور کیا جو ہمارے ہاں ضیاء الحق، اختر عبدالرحمان،حمید گل نے کیا تھا۔ تو اگر وہ سارے افغانستان، کشمیر، سنٹرل ایشیاء کو جہنم زار بنانے پہ آج بھی مذمت اور سب و شتم کے حقدار ہیں تو جان میکنن وہی سب کچھ یمن، شام، عراق اور لیبیا کے بارے میں کہہ کر اور کرکے آپ کی تعریف کا مستحق کیوں ہے؟

امریکی سینٹر جان میکنن کے مرجانے پہ ان کے بارے میں ان کے مخالفوں اور ان کے حامیوں میں گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے۔ اور میں پہلے ہی واضح کرتا چلوں کہ میں سینٹر جان میکنن کے مذمت کرنے والے قبیلے سے ہوں۔اور مجھے کوئی شوق نہیں ہے کہ میں اس لیے جان میکنن کے بارے میں کوئی منافقانہ راستا اختیار کرلوں کہ پاکستان اور پاکستان سے باہر کچھ بڑے گلمیرس نام اس کی تعریف کے ڈونگرے برسارہے ہیں۔ اور میں بھی اس گھمسان کے رن میں جان میکنن کی تعریف کرنے والوں کو آئینہ دکھانے کے لیے اترا ہوں۔

میں نے ٹوئٹر پہ مشاہد حسین سید، شیری رحمان، ہیلری کلنٹن سمیت جس کسی نے بھی سینٹر جان میکنن کو ‘امن پسند اور جنگ مخالف امریکی سینٹر’ بناکر پیش کرکے خراج عقیدت پیش کیا اس کو جوابی ٹوئٹ میں آئینہ دکھایا اور بتایا کہ جس سینٹر جان میکنن کو وہ امن پسند اور جنگ مخالف بناکر پیش کرتے ہیں وہ سیاست میں آنے کے بعد اور سینٹر بن جانے کے بعد ہمیشہ دوسرے ممالک میں پراکسی جنگیں لڑنے اور تکفیری جہادی دہشت گردوں کی حمایت کرنے کی امریکی ریاستی پالیسی کا حامی رہا اور وہ یمن سے لیکر عراق تک اور شام سے لیکر لیبیا تک میں داعش اور القاعدہ کو سپورٹ کرتا رہا۔ اس لیے اسے امن پسند بناکر دکھانا دانشورانہ بدیانتی تو ہے ساتھ ہی یہ عمل یمن سے لیکر لیبیا تک بہنے والے بے گناہ شہریوں کے خون دھبوں سے اپنے دامن کو بھی داغدار کرنے کے مترادف ہے۔ میرے دوست ریاض ملک نے بھی جب دیکھا کہ محترم المقام، عزت مآب حضرت حسین حقانی قدس سرہ العزیز نے آنجہانی شری جان میکنن کے پرلوک پدھارے جانے پہ سیاہ لباس زیب تن کرلیا ہے اور باقاعدہ نثری مرثیہ ٹوئٹر پہ لکھا ہے اور جلد ہی وہ ایک ‘تعزیت نامہ’ کسی معروف امریکی یا برطانوی اخبار میں بھی چھپوا ہی لیں گے تو انہوں نے اس موقعہ پہ حضرت حسین حقانی بارے تبراء لکھنا لازم خیال کیا۔

میں نے مناسب خیال کیا کہ خود حضرت مولانا حسین حقانی دامت برکاتہم العالیہ علی البرلیان(اللہ پاک ان کے فیوض و برکات اہل لبرل پہ تاقیامت دائم و قائم رکھے) کی شان میں کچھ عرض کرنے کے ان کی کہی باتوں کا خلاصہ اپنے پڑھنے والوں کی خدمت میں پیش کردوں۔ ریاض ملک لکھتے ہیں

” جب کوئی حسین حقانی جیسا مصلحت کوش اپنے آپ کو کسی عظیم مقصد سے نتھی کرتا ہے یا کسی گروہ یا فرد کے ساتھ اپنا اشتراک العمل یا فکر ظاہر کرتا ہے تو لازم ہے کہ ہر کوئی جان لے دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ کیا منافقت ہے کہ جو آدمی اپنے ملک کی اسٹبلشمنٹ پہ تبراء اور سب و شتم کرتا ہو کہ وہ تکفیریوں اور جہادیوں کو بطور آلہ کار استعمال کرتی اور دوسرے ملکوں کو بھیجتی ہے وہ شخص کسی دوسرے ملک کے ڈیپ سٹیٹ وار( ریاست کے دائرہ اثر کو بڑھانے کے لیے جنگیں کرنے والی ریاست) کے بہت بڑے مجرم ستون کی تعریف کرتے نہ تھکے۔ ایسے شخص کو کسی پہ گرجنے اور برسنے کا حق نہیں پہنچتا۔ نہ تو پاکستانی اسٹبلشمنٹ دودھ کی دھلی ہے اور نہ ہی امریکی اسٹبلشمنٹ فرشتہ ہے۔ دونوں کے دامن پہ مذہبی، نسلی جنونیوں کو پراکسی جنگوں میں استعمال کرنے کا داغ لگا ہوا ہے۔(بلکہ میں تو یہ کہوں گا امریکی اسٹبلشمنٹ کے جرائم پاکستان کی اسٹبلشمنٹ سے کہیں گھناؤنے اور کہیں زیادہ خوفناک ہیں۔اور اسقدر زیادہ ہیں کہ پاکستانی اسٹبلشمنٹ اس کے سامنے کچھ نہیں لگتی)

ایسے تمام لبرل جو امریکی اسٹبلشمنٹ کے کردار کو پراکسی جنگوں میں مذہبی دہشت گردوں کو بطور آلہ کار استعمال کرنے کے کردار کو چھپاتے ہیں اور سارا الزام دوسروں پہ ڈالتے ہیں وہ بہت بڑے بد دیانت اور کرائے کے دانشور ہیں۔

ریاض ملک آگے چل کر ایک انتہائی اہم سوال اٹھاتے ہیں جو ہم سب کو اٹھانا چاہئیے
جان میکنن سابق ڈی جی آئی ایس آئی سے کیسے مختلف ہے؟

جان میکنن بارے مختلف تحریریں اور تبصرے کرنے والوں کا شکریہ جنھوں نے اپنی تحریروں سے ثابت کیا کہ وہ نہ تو کسی نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہیں اور ان میں دیانت داری پہ مبنی تنقید کرنے کی ہمت بھی ہے۔ ان میں سے ایک میں یہاں پہ شکریہ کے ساتھ شامل کررہا ہوں

پیٹرک کوربے لکھتے ہیں

یہ جو کہا جاتا ہے،’مرنے والوں کے بارے میں برا نہیں کہنا چاہئیے’ ۔ ایسے شخص کے بارے میں درست ہوسکتا ہے جس کی خرابیوں سے خلق خدا کو نقصان نہ پہنچا ہو۔ لیکن ایسے شخص کے بارے میں ہم سچ کیوں نہ بولیں جس کے جرائم کی سزا لاکھوں معصوم لوگوں نے پائی ہو اور اب جبکہ وہ مرگیا تو ہم اس کے ان جرائم پہ کوئی بات نہ کریں۔ میں تو یہ کہوں گا کہ وہ تو کمبخت بہت پہلے مرجانا چاہئیے تھا۔ وہ کچھ زیادہ ہی جی گیا۔ وہ ویت نامی کسانوں کے غیظ و غضب سے بچ گیا جن پہ وہ کبھی بطور پائلٹ بم برسا رہا تھا اور وہ جن ویت نامی سپاہیوں سے لڑرہا تھا وہ تو اس سے کہیں زیادہ شریف نکلے کہ اسے بچ نکلنے دیا۔ اس پہ نفسیاتی عارضے کا شکار لوگوں کے لکھے تعزیت ناموں میں اسے ‘سورما ہوا باز’ لکھا گیا ہے۔ ان میں لکھا ہے کہ وہ آسانوں میں اڑان کرتا اور آسمانی مقابلہ کرتا تھا۔ ایسا نہیں تھا۔ بزدل جان میکنن تو کلسٹر بموں سے غریب کسانوں اور دیہاتیوں کو مار رہا تھا۔ اور جب وہ جنگی قیدی بن گیا تو سوچ سمجھ کر اپنے ملک اور اپنے ساتھیوں قیدیوں کو برا بھلا کہنے لگا۔ لیکن امریکہ ایسوں کو نہیں رکھ سکتا۔ اسے تو سورما بننا تھا۔ ان کو انتہائی سخت جانی دکھانا پڑتی ہے۔

میکنن نے امریکی فلیٹ ایڈمرل کے بیٹے اور پوتے کے طور اپنی زندگی شروع کی لیکن نیوی جانتی تھی کہ سابق کپتان کے طور پہ اسے کیسے پروموٹ کرنا ہے۔ ویت نام جنگ کے بعد اس نے ایسی کوئی جنگ نہ دیکھی جس کی وہ حمایت کرسکتا اور اس وقت تو امریکہ میں ہی اس سے کہیں زیادہ منافع بخش کاروبار میں محفوظ تھا۔ دہشت گردوں اور بڑے سرمایہ دار بدمعاشوں کا یار میکنن انتہائی بدمعاشی پہ مبنی غصّے کا مالک تھا۔ اس نے ہر اس آدمی کی زندگی جہنم بنادی جس نے اس کے پاس رہ کر کام کیا، میں خدا پہ ایمان نہیں رکھتا لیکن خدا اس روح کو برباد کرے ضرور کہوں گا۔

یہ تھی جان میکنن جیسے زرد بدمعاش سیاست دان کے لیے میرا تعزیت نامہ جو میں نے اپنے دماغ سے یہاں منتقل کردیا ہے۔ اس میں آپ کو وہ کچھ پڑھنے کو نہیں ملے گا جو آج کے مقامی پریس میں جان میکنن کے مرنے پہ چھپا ہے۔

Comments

comments