جنوبی ایشیا میں داعش اور بہار جنوبی ایشیا کیا واقعی سنجیدہ چیلنج ہیں؟ – عامر حسینی
افغانستان میں طالبان اور داعش کے درمیان دو ماہ سے جاری جھڑپوں میں 100 سے زائد طالبان مارے گئے جبکہ داعش کے بھی کئی لوگ ہلاک۔
شمالی افغانستان کے صوبہ جوزجان اور صوبہ سری پل میں طالبان اور داعش کے درمیان دو ماہ سے جھڑپیں ہورہی ہیں۔
داعش نے سری پل کے ایک ضلع میں ایک مسجد کے اندر ہوئے جنازے پہ خودکش حملہ کیا جس میں افغان طالبان کی بڑی تعداد شریک تھی۔اس حملے میں کم از کم 15 طالبان کمانڈر جاں بحق ہوئے جبکہ متعدد زخمی ہوگئے۔جبکہ صوبہ سری پل میں ہی ضلع سید میں داعش نے ہینڈ گرینڈ بموں سے پہ ایک گھر پہ حملہ کرکے پانچ طالبان کو زخمی کردیا اور فرار ہوگئے۔
افغانستان میں داعش 2014ء میں پاکستانی سرحد کے ساتھ افغان صوبوں ننگر ہار اور کنٹر میں نمودار ہوئی تھی اور تب سے ابتک داعش کا پھیلاءو شمالی افغانستان میں جاری ہے۔
داعش کی اس سال سرگرمیوں میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے۔ داعش نے کابل سمیت افغانستان میں خاص طور پہ ہزارہ شیعہ اکثریت کی آبادیوں، جلسوں ، مظاہروں، امام بارگاہوں، مساجد کو اپنا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ سکھ، ہندءو اور غیر ملکی و ملکی صحافیوں کو بھی خود کش بم دھماکوں کا نشانہ بنایا ہے۔
اقوام متحدہ کے افغانستان میں معاون مشن کا کہنا ہے کہ رواں سال کے چھے مہنیوں میں ایک ہزار چھے سو نو شہری خودکش بم دھماکوں میں جاں بحق ہوئے جن میں سب سے زیادہ تعداد شیعہ ہزارہ کمیونٹی کی ہے اور ان حملوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے۔ جبکہ دہشت گردی میں ابتک ہونے والے کل واقعات میں تین ہزار چار سو تیس افراد زخمی ہوئے ہیں۔
پاکستان میں جولائی کے دوسرے اور تیسرے رواں ہفتے میں پشاور، بنوں اور مستونگ میں تین خودکش بم دھماکے ہوئے۔پشاور اور بنوں میں ہوئے بم دھماکوں کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان جبکہ مستونگ خودکش بم دھماکے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے۔
جولائی کے پہلے ہفتے میں اسلام آباد میں روس، چین، ایران اور پاکستان کی بیرونی خطرات سے سلامتی کی ضامن انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہوں کا اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں داعش کو چاروں ممالک اور سنٹرل ایشیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا گیا۔جبکہ نیٹو اور امریکہ کی افواج بارے کہا گیا کہ ان کی داعش افغانستان کے حوالے سے پالیسی مشکوک لگ رہی ہے۔
اس اجلاس سے پہلے پاکستان کے سابق وزیر دفاع اور موجودہ آرمی چیف روس، ایران، چین کا دورہ کرچکے اور اس دوران بھی داعش کے چیلنج سے نبرد آزما ہونے پہ غور کیا گیا تھا۔
اس وقت ایرانی مسلح افواج کے سربراہ پانچ روزہ دورے پہ اسلام آباد ہیں۔ اور یہ 40 سال بعد کسی ایرانی آرمی چیف کا دورہ ایران ہے۔
ایرانی چیف اور پاکستانی چیف کے درمیان خطے کی سیکورٹی کی صورت حال پہ باہمی تعاون کو اہم خیال کیا جارہا ہے۔
پاکستان کے دفاعی حکام اور افغان حکومت کے درمیان بھی پردے کے پیچھے امن مذاکرات جاری ہیں اور براہ راست رابطوں کا میکنزم بھی تشکیل دیا گیا ہے۔
روس کے حکام نے پاکستانی حکام کو متنبہ کیا ہے کہ پاکستان، سنٹرل ایشیا، چین ، ایران اور روس کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے ایک طرف تو داعش بڑا چیلنج بنکر ابھر سکتی ہے تو دوسری طرف ان چاروں ممالک کے اندر بہار شام جیسی صورت حال بھی سامنے لائی جاسکتی ہے۔