خاص قسم کی وائلنس پہ چپ کیوں لگ جاتی ہے؟ – عامر حسینی
آج 31مئی 2018ء ہے۔ اسی دن 14 سال پہلے کراچی میں امام بارگاہ علی رضا پہ خودکش بم دھماکہ کیا گیا تھا۔اس واقعے میں اٹھارہ شیعہ مسلمان نمازی جاں بحق ہوئے اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔ جبکہ اسی تین مئی 2014ء کو سندھ مدرسۃ الاسلام کی مسجد حیدری میں خودکش بم دھماکہ کیا گیا تھا جس میں 35 شیعہ مسلمان جاں بحق ہوئے اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔
تحقیقات سے پتا چلا کہ یہ دھماکے آصف چھوٹو، مفتی عبید اور گل حسن وغیرہ نے کیے جو لشکر جھنگوی العالمی چلارہے تھے۔ یہ مکتب فکر دیوبند کے اندر سے اٹھنے والی تکفیری دیوبندی تنظیم سپاہ صحابہ پاکستان/اہلسنت والجماعت کا غیر اعلانیہ عسکری ونگ ہے۔
پاکستان میں نجانے کیوں اس طرح کے مذہبی و نسلی گروہوں پہ ہوئے خوفناک حملوں کی یاد منانے کے سلسلے میں امتیاز برتا جاتا ہے؟
پاکستان میں تکفیری دیوبندی گروہ شیعہ،صوفی سنّی، احمدی،ہندؤ،سکھ، کرسچن اور سیکولر لبرل برادریوں اور شخصیات کے خلاف ہلاکت انگیر مہم چلارہے ہیں۔ شیعہ کے خلاف یہ مہم نسل کشی تک پہنچ چکی ہے۔ اور پاکستان میں لبرل کمرشل مافیا جس کا پاکستان اور بین الاقوامی انگریزی پریس پہ غلبہ ہے تکفیری وائلنس اور شیعہ نسل کشی بارے انکاری مہم چلائے ہوئے ہے۔ یہ اکثر و بیشتر اسے ‘پراکسی’ بتاکر اپنے پڑھنے والوں کے ذہن پراگندا کرتا ہے۔ اور اس مہم کے مقامی حامیوں کی پردہ پوشی کا کام بھی سرانجام دیتا ہے۔
دو ہفتے پہلے برطانوی نژاد صحافی رابرٹ فسک نے اپنے مضمون میں لکھا
ترک عثمانی ہوں یا نازی یا داعش ۔ اگر آپ نے کسی گروہ کی نسل کشی کرنی ہے تو ایسا آپ مقامی لوگوں کی مدد بغیر نہیں کرسکتے۔ یہ کوئی نئی افشا ہونے والی بات نہیں ہے۔ لیکن یہ ایک ایسی بات ہے جسے اکثر بھلا دیا جاتا ہے۔
ایک ‘کامیاب نسل کشی’ کیسے کی جاتی ہے؟ آرمینیا میں ایک صدی پہلے ترکش نے، 1940ء میں نازیوں کے قبضے میں یورپ یا آج کے مڈل ایسٹ میں ‘نسل کشی’ کیسے کی گئی؟ رابرٹ فسک ہمیں ہاورڈ یونیورسٹی کے ایک نوجوان محقق کی ایک سو تین سال پہلے عثمانی ترکوں کے زیرنگیں ایک آرمینی شہر میں آرمینیوں کے ذبح کیے جانے بارے تحقیق بارے خبر دیتا ہے۔ اس محقق کی تحقیق کے مطابق،’ ایک نسل کش حکومت کے لیے معاشرے کے ہر ایک قابل عزت شعبے میں موجود مقامی لوگوں کی حمایت کا ہونا ضروری ہے۔ ان حامیوں میں محصولات اکٹھے کرنے والے،جج،مجسٹریٹ،جونئیر افسران، مذہبی پیشوا، وکلاء،بینکرز اور سب سے زیادہ تکلیف دہ متاثرین کے ہمسائے شامل ہوتے ہیں۔
پاکستان میں معاملہ جب مذہبی اور نسلی گروہوں کی نسل کشی کے سوال کا آتا ہے تو یہاں پہ نسل کشی سے ہی انکار کردیا جاتا ہے۔ اور مذہبی و نسلی گروہوں پہ حملہ آور گروہوں کی معاشرے میں مقامی حمایت کی جانب جب توجہ مبذول کرائی جاتی ہے تو اس معاملے کو مختلف حیلے بہانوں سے رد کرنے یا جھٹلانے کا طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں ابتک مین سٹریم میڈیا اور اب سوشل میڈیا میں اکثریت یہ بات تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے کہ پاکستان بننے کے فوری بعد پہلے ریاست نے ہندؤں کو کمتر بنانے کی پالیسی اختیار کی اور پھر یہ کمتر بنائے جانے کی پالیسی احمدی کمیونٹی کے خلاف استعمال ہوئی اور جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں کمتر بنائے جانے کے عمل میں شیعہ اور صوفی سنّی دونوں شامل ہوگئے۔ اور یہ عمل بتدریج نسل کشی تک پہنچ گیا۔
یہ کمتر بنائے جانے اور نسل کشی کیے جانے کا جو پروسس ہے اس نے 80ء کی دہائی میں ایک منظم مہم کی شکل اختیار کی۔اور اس منظم مہم نے 22 ہزار سے زائد شیعہ، 45 ہزار سے زائد صوفی سنّی اور 8 ہزار کے قریب دیگر مذاہب و مسالک کے ماننے والوں کی جانیں لیں۔
اور یہ سلسلہ ابتک جاری و ساری ہے۔ حال ہی میں پشاور میں ایک سکھ امن پسند اور صلح کل کے پرچارک سردار چرن جیت سنگھ کو ان کی دکان پہ گولی مارکر ہلاک کردیا گیا۔
سکھ برادری کے خلاف دہشت گردی کی مہم تحریک طالبان پاکستان نے سابقہ فاٹا اور خیبرپختون خوا کے علاقوں میں شروع کی تھی۔ کیونکہ سکھ برادری نے ایک تو طالبان کو ٹیکس دینے سے انکار کیا تھا۔ دوسرا وہ ان کے مذہبی منافرت پہ مبنی پروپیگنڈے کے آگے سرجھکانے سے انکاری تھے۔ پاکستانی علاقوں میں رہنے والی سکھ برادری نے طالبان کے کہنے پہ پاکستان کو ایک مرتد ریاست ماننے سے بھی انکار کرتے ہوئے اپنی وفاداری اس ریاست سے ختم کرنے سے انکار کردیا تھا۔
اب سکھ برادری کے خلاف دہشت گردی پہ مبنی مہم میں اور اضافہ ہوگیا ہے۔
سردار چرن جیت سنگھ کا پشاور میں المناک قتل عقیدے کی بنیاد پہ ہونے والی اس وسیع تشدد کی مہم کا حصّہ ہے جس کا تعلق سپاہ صحابہ اور طالبان جیسے تکفیری دیوبندی دہشت گرد گروپوں سے جڑا ہوا ہے۔ تکفیری وائلنس نے مختلف مذہبی برادریوں کو نشانہ بنایا ہے جو پاکستان کے متنوع سماجی بنت کی تشکیل کرتے ہیں۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے اس تکفیری وائلنس کے جو ذمہ دار ہیں ان کے بارے میں بہت کم شفاف سوچ یا ایماندارنہ رائے پائی جاتی ہے۔ پاکستان کی جو انٹیلیجنٹیسیا ہے اس پہ کمرشل لبرل کا غلبہ ہے اور یہ اس ایشو پہ ابہام کے پردے ڈالنے میں بہت سرگرم رہتا ہے۔
کمرشل لبرل عامر لیاقت حسین اور خادم رضوی جیسے لوگوں کے گندی اور سوقیانہ ہتھکنڈوں پہ لعن طعن بروقت کرتے ہیں اور ٹھیک کرتے ہیں۔ وہ ان جیسے لوگوں کی بریلوی مکتب فکر سے تعلق کی نشاندہی بھی کرتے ہیں۔
لیکن جب 70 ہزار پاکستانیوں کے قتل کرنے والے دہشت گرد گروپوں کا معاملہ آتا ہے تو یہ اس موقعہ پہ ان کی تکفیری دیوبندی شناخت کا ذکر نہیں کرتے۔ اور ان کے بارے میں ان کا موقف بالکل ہی الگ ہوجاتا ہے۔ کیوں؟
تکفیری چینل الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا دونوں پہ زور و شور سے چل رہے ہیں۔ مسیج ٹی وی، وصال ٹی وی، پیس ٹی وی اور دیکر درجنوں دن رات شیعہ، صوفی سنّی،کرسچن،ہندؤ،لبرل سیکولر کے خلاف منافرت انگیز پروپیگنڈا چلاتے رہتے ہیں۔ حامد میر،نجم سیٹھی، طلعت حسین اور ان جیسے دوسرے برائے فروخت صحافیوں نے سپاہ صحابہ پاکستان کے رہنماؤں احمد لدھیانوی و اورنگ زیب فاروقی کی منافرت آمیز گفتگو اپنے ٹاک شوز کے زریعے آن ائر کیا۔ نجم سیٹھی نے سپاہ صحابہ کو میڈیا پلیٹ فارم فراہم کیے۔ کسی کمرشل لبرل نے اس طرح کے اقدامات کو چیلنج نہیں کیا اور نہ ہی کبھی اپنی تحریر و تقریر میں ان کا ذکر کرکے اس کی مذمت کی۔
حیرت انگیز بات یہ ہے پاکستانی کمرشل لبرل مافیا کے جذبات اس وقت تو مجروح نہیں ہوئے جب ڈاکٹر ذاکر نائیک، احمد لدھیانوی،اورنگ زیب فاروقی، منظور مینگل وغیرہ دوسرے مسالک اور مذاہب کے بارے نفرت انگیز بیانات مین سٹریم میڈیا پہ دے رہے تھے۔ اور شیعہ مسلمانوں پہ روٹین میں توہین اور گستاخی کے الزامات لگائے جارہے تھے۔ صوفی سنّی مسلمانوں کو مشرک اور بدعتی قرار دیا جارہا تھا۔ لیکن عامر لیاقت حسین کے ڈاکٹر ذاکر نائیک یا قاری خلیل بارے دیے گئے بیانات سے ان کے جذبات مجروح ہوگئے اور انہوں نے اس پہ زبردست احتجاجی مہم بھی شروع کردی۔
عامر لیاقت حسین اور خادم رضوی جیسوں کے خلاف جس خشوع و خضوع طریقے سے مہم شروع ہوئی (اور بالکل ٹھیک ہوئی۔ایسی کسی منافرت کی گنجائش نہیں ہے) اس خشوع و خصوع کا فقدان خود ذاکر نائیک، احمد لدھیانوی،رمضان مینگل، منظور مینگل اور مفتی نعیم کی منافرت انگیزی کے وقت کیوں نظر آیا اور آج تک نظر آرہا ہے؟
پاکستان کے سکھوں اور ہندؤں پہ حملے تکفیری دیوبندی گروہوں جیسے سپاہ صحابہ، طالبان، لشکر جھنگوی، جیش محمد وغیرہ ہے نے کیے۔ لیکن کبھی بھی اس بنیادی حقیقت کو طشت از بام نہیں کیا گیا۔ گویا یہ پاکستانی میڈیا اور کمرشل لبرل کے لیے قابل قبول حملے ہوں۔
صاف بات یہ ہے کہ ان کا لدھیانوی و نائیک جیسوں کے لیے اور معیارہے اور عامر لیاقت و خادم رضوی جیسوں کے لیے اور معیار ہے۔ آخر ایک خاص ٹائپ نفرت بارے بات کرنا اور اس کی نشاندہی کرنا کیوں مشکل بلکہ محال ہے؟
بے ایمانی پہ مبنی بیانیے، جانتے بوجھتے ابہام پھیلانا اور من مانے معیارات اپنانا ایسے رویے ہیں جن کی وجہ سے چرن جیت سنگھ جیسی قیمتی جانیں ضایع ہوجاتی ہیں۔ کیوں؟
کیوں ہم سپاہ صحابہ ،طالبان، داعش ،لشکر اور ان جیسے گروپوں کی اس آئیڈیالوجی کو بے نقاب کیوں نہیں کرتے جو ان کو اس راستے پہ چلاتی ہے؟