کیا سویلین-ملٹری تعلقات میں عدم توازن دکھانے سے جمہوری نظام خطرے میں پڑگیا؟ – عامر حسینی
انگریزی روزنامہ ڈان کو پاکستان پریس کونسل/پی پی سی نے سیرل المیڈا کے نوازشریف سے کیے گئے انٹرویو پہ نوٹس جاری کیا ۔ اس نوٹس پہ انسانی حقوق کمیشن برائے لاہور کی پریس ریلیز جس دن اخبار کی آفیشل ویب سائٹ پہ جاری ہوئی اس سے اگلے دن ہی روزنامہ ڈان نے ایک اداریہ لکھا۔
Nawaz’s self-centred approach
یہ عنوان بذات خود اس بات کی علامت ہے کہ لبرل بوژوازی/سرمایہ داری کے حامی اخبار کے مالکان نے لبرل بورژوازی ڈیموکریٹک آدرش کو اپنی دلال اور موقعہ پرست فطرت کے تحت خیرباد کہنے میں زرا وقت نہیں لگایا۔
اس سرخی کے تحت لکھے گئے اداریہ میں اخبار نے لکھا
Whatever the elder Sharif’s compulsions and whatever justifications he may feel he has for unburdening himself of issues pertaining to civil-military discord at this juncture, he has arguably done a disservice to his party and perhaps the democratic project too.
لبرل سرمایہ دار جمہوریت کے حامی اخبار کو اچانک سے انکشاف ہوا ہے کہ میاں نواز شریف کی جو بھی مجبوریوں ہوں یا ان کے پاس سول-ملٹری تعلقات کی خرابی کے معاملے پہ اس موقعہ پہ اپنے بوجھ کو ہلکا کرنے کے لیے کوئی بھی جواز موجود ہو،ایک بات طے ہے کہ ایسا کرکے انھوں نے اپنی پارٹی اور شاید جمہوری پروجیکٹ بھی کوئی خدمت نہیں کی ہے۔
ایک ایسا اخبار جو اپنے تئیں ایسے لبرل جمہوری سرمایہ داری کے حامی صحافیوں،تجزیہ نگاروں اور مضمون نگاروں سے بھرا ہوا ہے جو عرصہ دراز سے میاں محمد نواز شریف کو ایک حقیقی لبرل جمہوری اور اینٹی اسٹبلشمنٹ سیاست دان بناکر پیش کرتے آئے ہوں جب اچانک سے اپنے موقف میں 180 درجے کی تبدیلی لاتا ہے تو اس کے پڑھنے والے انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔
روزنامہ ڈان نے ہی اس سے پہلے ایک اور اداریے میں لکھا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ نواز شریف اب تک اپنے ذات کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا بیان کرتے ہیں لیکن ان کا بیانیہ جمہوریت کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔اور اس اخبار نے پاکستان پیپلزپارٹی کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ اس موقعہ پہ نواز شریف کا ساتھ دے۔
اس اخبار سے وابستہ بیشتر لبرل ڈیموکریٹک پیٹی بورژوازی صحافی اور تجزیہ نگار پاکستان پیپلزپارٹی کو اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کرنے کا الزام دیتے آئے ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن کی یہ بڑی پارٹی نواز شریف پہ الزام لگارہی تھی کہ وہ اداروں سے لڑرہے ہیں۔ان کی جنگ جمہوریت کے لیے نہیں بلکہ اپنی ذات کی بقا کے لیے ہے۔اور یہ روش جمہوریت کے لیے خطرناک ہے۔
لیکن حیرت انگیز طور پہ اسی اخبار نے نواز شریف کی سیاست کو ان کی ذات کی سیاست اور ان کے بیانات کو نہ صرف ان کی پارٹی کے لیے بلکہ ‘شاید’ کا لفظ لگاکر اسے جمہوری منصوبے کے لیے بھی نقصان دہ قرار دے ڈالا ہے۔
سوال یہاں یہ بھی جنم لیتا ہے کہ وہ کون سا جمہوری اصول ہے جو درمیانے طبقے کے لبرل ڈیموکریٹس کو یہ اختیار دیتا ہے کہ پہلے وہ نواز شریف کی حالیہ سیاست کو ذات کے گرد گھومنے والا اور جمہوریت کے لیے نقصان دہ قرار دینے والوں پہ اسٹبلشمنٹ سے سمجھوتہ کرنے کا الزام دھریں اور جب یہی بات خود کہیں تو سچے جمہوریت پسند کہلائیں۔
اخبار لکھتا ہے
The younger Sharif brother’s eagerness to strike some kind of deal with the security establishment that permits him to fight a relatively open election for the PML-N may be problematic in its own right, but the elder Sharif’s act of political arson has potentially dangerous implications for democracy and the PML-N.
گویا شہباز شریف کی جانب سے الیکشن میں رعایت حاصل کرنے کے لیے اسٹبلشمنٹ سے کسی قسم کی ڈیل اپنی طرح کے مسائل کا سبب بن سکتی ہے لیکن اخبار کی نظر میں نواز شریف کا سیاسی بھڑکاؤ کو اور بھڑکانے کا عمل جمہوریت اور مسلم لیگ نواز کے لیے ممکنہ خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
یہ وہ لبرل بورژوازی صحافتی دانش ہے جو عالمی ثالثوں کی موجودگی میں بے نظیر بھٹو اور فوج کے درمیان ہورہے مذاکرات کو جمہوریت سے غداری قرار دے رہی تھی۔ اور انھوں نے ‘ڈیل سیاست’ کے عنوان سے پی پی پی کا ٹرائل شروع کیا تھا۔اب خود شہباز شریف کی اسٹبلشمنٹ سے ڈیل کرنے کی مبینہ کوشش کو بالواسطہ طور پہ ٹھیک کہتی ہے۔
ڈان کا اداریہ صرف نواز شریف کے بیان سے جمہوریت کو خطرہ ہی نہیں قرار دیتا بلکہ وہ اس سے آگے بڑھ کر لکھتا ہے
Nawaz Sharif’s recent remarks may be the subject of much debate, but it also appears that Mr. Sharif has decided that if he is going to be removed from frontline politics and perhaps sent to jail too he will not allow his eponymously named political party a separate existence and immediate political relevance.
یعنی وہ اس بات کو مانتا ہے کہ نواز شریف چاہتے ہیں کہ ان کے ہٹائے جانے اور جیل جانے کے بعد ان کی پارٹی جو ان کے نام سے ہے الگ وجود نہ رکھے اور سیاسی معاملات میں اس کا کردار نہ رہے۔
روزنامہ ڈان لکھتا ہے
Now is not the time for the politics of chaos and disarray.
یہ افراتفری اور ہنگامہ آرائی کے ساتھ ساتھ کنیفوژن کی سیاست کا وقت نہیں ہے۔
آپ پاکستان کے لبرل سرمایہ دار پریس کی گزشتہ فائلوں پہ نظر ڈالیں۔وہاں کہیں آپ کو یہ نظر نہیں آئے گا کہ نواز شریف اپنی ذات کی سیاست کررہا ہے۔یا وہ افراتفری کی سیاست کررہا ہے۔ یا یہ کہ اس کی سیاست خود جمہوریت کو خطرہ لاحق ہورہا ہے۔ بلکہ یہ سارا لبرل پریس تو ہمیں یہ نوید سنا رہا تھا کہ اس ملک میں اینٹی اسٹبلشمنٹ سیاست کا بیانیہ مقبول ہورہا ہے۔نواز شریف کو وہ مقبول ترین سیاست قرار دے رہے تھے۔ اور کہتے تھے کہ اس مرتبہ ایک پنجابی سیاست دان اینٹی اسٹبلشمنٹ ہوکر سامنے آیا ہے۔اور جس کسی نے بھی اس بیان کے الٹ سمت جانے کی کوشش کی اس کو اسٹبلشمنٹ کا ایجنٹ، کمپنی کا ملازم ، انجمن بوٹ چاٹاں اور موچی کلب کا ممبر تک قرار دیا گیا۔
ایک لمحے کے لیے میں مان لوں کہ یہ القابات درست دیے گئے تو کیا ڈان کے اس اداریہ پہ ڈان کے مالکان، اس کے ایڈیٹر کو بھی ان القاب سے نوازا جاسکتا ہے؟
آپ ٹوئٹر ہینڈل اور فیس بک پہ تلاش کریں کہ کتنے نواز شریف کے حامی لبرل ڈیموکریٹک بوژوازی نے اس اداریہ کے خلاف لکھا ہے؟
ہم پہلے بھی کہتے آئے ہیں کہ بورژوازی /سرمایہ دار اور پیٹی بورژوازی/درمیانے طبقے کا لبرل ڈیموکریٹک سیکشن سرمایہ داروں کی دلال روح کو چھپاتا ہے۔اور جب کبھی بڑی مصیبت سے دوچار ہو تو یہ جمہوری آدرش سویلین بالادستی کے نعرے کو چھوڑ کر موقعہ پرستی کا مظاہرہ کرتا ہے۔
روزنامہ ڈان کا یہ اداریہ بھی ایسی موقعہ پرستی کا عکس ہے۔یہ بتاتا ہے کہ سویلین بالادستی کا آدرش تو نواز شریف کے ہاں سرے سے ہے ہی نہیں۔اور ویسے بھی سول-ملٹری تعلقات میں عدم توازن کی اس موقعہ پہ نشاندہی سے جمہوریت خطرے میں پڑگئی ہے۔ اور خطرے کو ٹالنے کے لیے یہ شہباز شریف کی روش کو درست قرار دیتا ہے۔