کیا خازنی کا نام بھی ہٹادوگے؟ – عامر حسینی
ابوالفتح عبدالرحمن منصور خازنی، دانشمند ایرانی و یونانی تباری بود
خازنی ایرانی دانشور اور یونانی غلام تھا۔
ابومنصور ابوالفتح عبدالرحمان الخازنی ایک دم سے ہمارے معاشرے میں زیربحث آگئے ہیں۔ دیسی لبرل نے ان کو جتنا برا بھلا کہہ سکتے تھے کہہ دیا ہے۔کچھ کہتے ہیں کہ الخازنی کا ہم سے کیا لینا دینا ہے۔ مذہبی رجعت پسند اور دائیں بازو کے انتہا پسندوں نے اس کے جواب میں الخازنی کے گن گانے شروع کردئے ہیں۔
میرے ایک دوست جو قرون وسطی کے معاشروں میں مسلم سائنس دانوں کی فکر سے بہت واقف ہیں۔وہ ہنستے ہوئے مجھے بتانے لگے کہ کیپٹن صفدر اور اس کے پیچھے کام کرنے والے بنیاد پرست اور تکفیری ٹولے نے بہت محنت کرکے اپنے تئیں ایک پکا راسخ العقیدہ اقرب الی عقیدۃ السلف (مطلب وہابیت کے قریب پہنچا ہوا مسلمان) ڈھوںڈ نکالا ہے۔ اور اس کے نام پہ قائد اعظم یونیورسٹی کے نیشنل سنٹر فار فزکس کا نام رکھنا چاہتے تھے۔ کیپٹن صفدر کی بدقسمتی کہ اسے پتا نہیں تھا کہ سنٹر فار فزکس اور ڈیپارٹمنٹ آف فزکس دو الگ الگ ادارے ہیں۔
خیر میرے دوست نے مجھے کہا کہ ستاروں کی پوزیشن اور ان کی حرکات کے ضمن میں خازنی نے کچھ ایسی باتیں بھی لکھی ہیں جس سے پتا چلتا ہے کہ وہ اس معاملے میں علم الجفر میں ستاروں کے منحوس اور برکت والے آثار کا بھی قائل تھا۔وہ معروف فارسی شاعر خیام کا شاگرد تھا اور عمرو خیام کی طرح مئے ناب کا شوقین بھی تھا اگرچہ خیام کی طرح وہ صنف نازک کا گرویدہ نہ تھا۔ ساری زندگی مجرد گزاری اور پورے گھر میں وہ اور اس کی بلّی تنہا رہا کرتی تھی۔ تصور عدل میں وہ معتزلہ کے خیالات سے متفق تھا۔اور کٹّر قدری تھا۔
میرا دوست ہنستا ہوا کہنے لگا کہ زندقہ کی جتنی خصوصیات علمی و فکری اعتبار سے ملّائیت بتایا کرتی ہے وہ خازنی میں پائی جاتی تھیں۔شاعری میں وہ جہاں وہ خیام کا عاشق تھا وہیں وہ ابن الراوندی کا بڑا معتقد تھا۔ اب الراوندی کے بارے میں،میں کیا لکھوں زرا علمائے اسماء الرجال میں لکھے ان الفاظ کو پڑھ لیں
هو مشكك بالإسلام وناقد للدين بشكل عام
وہ اسلام بارے متشکک تھا اور عام طور پہ نفس مذہب کا ہی ناقد تھا
یہ ابوعیسی الوراق سے ملا تو ملحد ہوگیا تھا۔پہلے معتزلہ کے جید علماء میں سے تھا۔پھر اعتزال سے پھرا اور ان کے خلاف شدید تنقید پہ مبنی کتاب لکھی اور پھر یہ شیعہ ہوگیا اور اس کے بعد ابوعیسی الوراق سے ملا تو نفس مذہب کا انکاری ہوگیا۔
اپنے دوست سے یہ سب تفصیل سننے کے بعد مجھے محمد قاسم یعقوب یاد آگئے۔ انھوں نے ایک بار مجھے بتایا تھا کہ قرون وسطی کے جتنے بڑے سائنس دان، فلسفی، اطباء اور ماہرین فلکیات اور کیمیا دان، ماہر طبعیات،ریاضی دان اور ماہرین نباتات و حیوانات تھے ان کی بھاری اکثریت قدامت پرست مسلم روایت سے منحرف تھی۔اکثریت شیعہ،معتزلہ، اسماعیلی،قدریوں کی تھی اور ایک کو چھوڑ کر سب غیر عرب تھے اور واحد عرب فلسفی یعقوب الکندی پہ بھی زندقہ کے فتوے تھے۔
اس سے زیادہ تفصیل میں میں نہیں جاؤں گا۔اب آگے چلتے ہیں
سالار کوکب نے شعبہ فزکس کیو اے یو کے نام کی تبدیلی پہ ہونے والے ردعمل کی حقیقت پہ کچھ روشنی ڈالی ہے
“پروفیسر عبدلاسلام سنٹر فار فزکس (سابقہ نیشنل سنٹر فار فزکس ) ایک سائنسی تنظیم ہے جس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حفیظ ہارونی ہیں جبکہ قائد اعظم یو نیورسٹی کے شعبہ فزکس کے چئیرمین ڈاکٹر عارف ممتاز ہیں – قومی اسمبلی کی قرار داد شعبہ فزکس سے متعلق ہے پروفیسر عبدلاسلام سنٹر فار فزکس سے متعلق نہیں۔”
اب وہ سوال اٹھاتے ہیں کہ
کیا قومی اسمبلی میں منظور کی جانے والی قرارداد کا تعلق واقعی نیشنل سنٹر برائے فزکس کی بجائے شعبہ فزکس سے ہے؟
اس کا جواب ہمیں بلال فاروقی کی پوسٹ سے مل جاتا ہے جس کا سکرین شاٹ ریاض ملک نے اپنی وال پہ شئیر کیا ہے۔
میڈیا میں بلال فاروقی جیسی ساکھ رکھنے والے لوگ انگلیوں پہ گنے جاسکتے ہیں جس نے بتایا ہے کہ کچھ ممبران قومی اسمبلی نے کیسے کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے متنازعہ بل کی حمایت کی۔ ان میں ایک ممبر ثمن جعفری بھی ہیں۔ انھوں نے واضح کیا ہے کہ اس بل کی حمایت کرنے کا مقصد ہرگز ڈاکثر عبدالسلام کے خلاف تعصب کو سپورٹ نہیں کرنا تھا۔ریاض ملک
اب بلال فاروقی کے لکھے کا خلاصہ پڑھ لیں
“بلال فاروقی کے مطابق اراکین اسمبلی نے جس بل پہ دستخط کیے وہ قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ فزکس کے نام کی تبدیلی کا بل ہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام فزکس سنٹر ایک دوسری تنظیم ہے۔ اگرچہ مجھے یقین ہے کہ کیپٹن صفدر یہ جانتا نہیں ہوگا۔ انہوں نے غلطی سے ایک بل منظور کردیا۔تو سنٹر کا نام جو تھا وہی ہے۔ فزکس ڈیپارٹمنٹ اور فزکس سنٹر دو مختلف ادارے ہیں۔”
“اگرچہ لگتا یہی ہے کہ ارادہ کیپٹن صفدر کا ڈاکٹر عبدالسلام کے نام کو ہٹانے کا تھا۔ مگر وا قائد اعظم یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹس بارے جانتا ہی نہیں تھا۔اس وجہ سے قرارداد میں غلطی ہوگئی۔”
“یہ بالکل درست ہے اور کوئی اس میں شک والی بات نہیں ہے۔ لیکن ایمم این ثمن جعفری کہتی ہیں کہ وہ صفدر کے عزائم سے بے خبر تھیں۔قرارداد میں شعبہ فزکس کا نام الخازنی رکھے جانے کا ذکر تھا۔میں نے قرارداد پڑھی۔یہ حقیقت میں درست تھی۔ہمارے رپورٹرز نے تصدیق کی ہے کہ قرارداد میں فزکس ڈیپارٹمنٹ کا ذکر ہے بس۔تاہم دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے۔ ثمن جعفری کا کہنا ہے کہ اگر اس مبینہ غلطی کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ اس کی حمایت نہیں کریں گی۔”
سالار کوکب اس سے آگے ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ نواز شریف کے حامی دیسی کمرشل لبرل مافیا بشمول ارشد محمود نے اس قرارداد کا تعلق آصف علی زرداری سے جوڑنے کی کوشش کی اور پھر اس بات پہ اتفاق کیا کہ ساری گالیاں مسلم سائنسدان ابومنصور عبدالفتح عبدالرحمان الخازنی کو دی جائیں۔
دیسی کمرشل لبرل مافیا نے مسلم لیگ نواز کی حکومت کی چالاکی کو چھپانے کی خاطر یہ بھی مشہور کررکھا ہے کہ نوازشریف نے بطور وزیراعظم نیشنل سنٹر فار فزکس کا نام بدل کر ڈاکٹر عبدالسلام سنٹر فار فزکس رکھنے کا جو حکم جاری کیا تھا اس پہ بھی اسٹبلشمنٹ نےعمل نہیں ہونے دیا اور بیوروکریسی نے نوٹیفیکشن جاری نہیں کیا۔سالار کوکب اس معاملے میں بھی نواز شریف کے حامی دیسی لبرل کے جھوٹ کا پول کھولتے ہوئے فرماتے ہیں
وزیراعظم کے حکم اور صدر پاکستان کی منظوری کے بعد گیزیٹر میں اس کا نوٹیفیکشن اسٹبلشمنٹ نے نہیں بلکہ حکومت پاکستان نے جاری کرنا تھا۔مسلم لیگ نواز نے مولویوں سے مذاکرات کے بعد چالاکی یہ کی ہے کہ ایک طرف تو نیشنل سنٹر فار فزکس کا نام بدلے جانے کا نوٹیفیکشن جاری نہیں کیا تو دوسری طرف ایک اور شعبہ کا نام بدلنے کی قرارداد منظور کروالی ہےگئی ہے۔
مطلب یہ ہوا کہ مسلم لیگ نواز کی حکومت نہ صرف مولویوں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہے وہیں وہ اپنا جعلی لبرل نقاب کو بے نقاب ہونے سے بھی بچانے کی سرتوڑ کوشش کررہی ہے۔