شیعہ ہزارہ نسل کشی پر فرنود عالم کی تحریر
کوئٹہ کا قصد تھا۔ ہوائی اڈے کی انتظار گاہ میں ہزارگیوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ دو ہزارہ نوجوان وہیل چئیر پہ تھے۔ ایک نوجوان وہیل چئیر پہ ایسے بیٹھا تھا کہ ماں نے مستقل اس کی گردن کے نیچے ہاتھ رکھا ہوا تھا۔ ایک ہزارہ فیملی مجھ سے کچھ فاصلے پرآ کر بیٹھ گئی۔ میں کھسک کے ان کے قریب ہوا۔ میں نے پوچھا
اب کیسے ہیں حالات؟
حالات تو بس ٹھیک ہی ہیں
ٹھیک ہی ہیں.؟
ہاں، کافی دن ہوگئے کوئی بری خبرنہیں سنی مگر بے یقینی کی حالت ہے۔
کیا اس مارا ماری میں آپ لوگوں کا کوئی نقصان ہوا ہے؟
جی، میرے والد اور بیٹا بم دھماکے میں اور تین کزن ٹارگٹ کلنگ میں قتل ہوئے ہیں۔
جہاز روانگی کے لیے تیار ہے۔ اس اعلان کے بعدہم قطار میں لگ گئے۔ ساتھ والی قطار میں ایک لڑکی بیساکھی پر قدم اٹھا رہی تھی۔ اسے وہیل چئیر پہ بیٹھنے کو کہا جارہا تھا مگر وہ منع کر رہی تھی۔ منتظم نے کہا، آپ کو تکلیف ہو گی۔ لڑکی نے کہا، بالکل نہیں ہو گی۔ وہ ہمدردی میں ملنے والے رستے سے فائدہ اٹھانے کی بجائے قطار میں لگنے کو ترجیح دے رہی تھی۔ یونہی بغیر کسی سہارے کے وہ ائیر بس میں چڑھ گئی۔ بس میں وہی ماں بالکل میرے پہلو میں کھڑی تھیں جو اپنے جواں سال بچے کی گردن پہ مستقل سہارا دیے ہوئے بیٹھی تھیں۔ لیکن اب جوان کی کم ازکم گردن میں کوئی مسئلہ نہیں لگ رہا تھا۔ میں نے ماں سے پوچھا تو بہتے ہوئے لہجے میں بولیں، تب یہ سو رہا تھا اس لیے گردن پہ ہاتھ رکھا تھا۔ماں سے گفتگو کرتا دیکھ کر جوان نے مسکراتے ہوئے مجھے سلام کیا۔ مجھے اچھا لگا کہ چلیے دو باتیں اس سے بھی ہوجائیں گے۔ تکلف ایک طرف رکھنے کے لیے میں نے فارسی میں حال پوچھا۔دو ساعتوں کے اس سفر میں رسمی علیک سلیک پر وقت ضائع نہیں کیا جاسکتا تھا۔ دوچار باتوں سے ہوتے ہوئے فورا اپنے سوال پہ آگیا۔
یہ سب کیسے ہوا؟
بم دھماکے میں ہوا ۔
وہ بھی مسکرانے لگا اور ساتھ میں بھی۔ مسکراہٹ میں اس کی آنکھیں ساتھ نہیں دے رہی تھیں۔
بس کے دروازے کھل گئے۔جہاز کے سامنے مسافر قطار میں لگ گئے۔ نظر پھر سے آگے کھڑی اس ہزارہ لڑکی نے پکڑلی جو بیساکھی کے سہارے پر تھی۔ جہاز کی سیڑھیوں پہ اسی اعتمادسے چڑھی جارہی تھی جس اعتماد سے بس میں چڑھ رہی تھی۔ مگراس کا چہرہ لال سرخ ہوچکا تھا۔ آخری زینے پہ عین دروازے کے ساتھ اس سے حال احوال کا موقع مل گیا تو پوچھ لیا
یہ سب کیسے ہوا؟
بم دھماکے میں ہوا۔
نشست سنبھالی تو ساتھ والی نشست پہ ایک ہزارہ لڑکا بیٹھا تھا۔ میرے اور اس کے بیچ کی نشست خالی تھی۔ یہ فاصلہ مٹاکر میں ساتھ بیٹھ گیا۔ حال احوال ہوا
کیا بات ہوسکتی ہے؟
جی، کیوں نہیں!آپ کہاں سے ہیں؟
میں ہوں تو کافی جگہوں سے مگر بنیادی طور پر پشتون ہوں۔
ارے واہ، پھر تو ہم پشتو میں بات کرسکتے ہیں۔
پشتو بھی بول لیتے ہو؟
جی کوئٹہ میں اکثر دوست پشتون ہیں اور میں ایبٹ آباد میں پڑھ رہا ہوں تو وہاں بھی چارسدہ کے دو باسیوں سے خوب دوستی ہے۔
ایبٹ آباد میں کیوں پڑھ رہے ہو؟
وہاں پڑھائی بھی اچھی ہے دوسرا ہمارا رنگ ان کے رنگ میں مل جاتا ہے تو ایک سائیکالوجیکل ریلیف بھی مل جاتا ہے۔
ایک بات بتائیے!
جی
دہشت گردی کی اس لہر میں آپ کی فیملی نے کوئی نقصان اٹھایا ہے؟
جی میرے دو چچا قتل ہوگئے ہیں۔ ایک چچا کی بیٹی ذہنی توازن کھوچکی ہے۔
کوئٹہ میں سلام کاسی اور ہمایوں کی معیت میں ہزارہ ٹاون کے قبرستان بھی جانا ہوا۔ جلیلہ حیدر ہماری رہنمائی کررہی تھیں۔داخلی راستے پر ایک سرے سے دوسرے سرے تک ان شہدا کی تصاویر لگی ہیں جو دہشت گردی کے عفریت کی نذر ہوگئے۔ اس میں کمسن بچے، ہر عمر کی خواتین،خمیدہ کمر بزرگ، کڑیل جوان سب موجود ہیں۔ اس میں قانون دان، صحافی، سماجی کارکن، شاعر، ادیب، اداکار،گلوکار، طبیب، مزدور، کھلاڑی ، عالم،ذاکرکون ہیں جو نہیں ہیں ۔جلیلہ کبھی اس تصویر کی طرف کبھی اس تصویر کی طرف اشارہ کرکے بتاتی ہیں کہ اس سے میرا یہ رشتہ اس سے میرا فلاں رشتہ ہے۔ اور یہ دیکھو، یہ ایک خاندان کے سات لوگ ہیں۔اور یہ ایک ہی گھر کے تین لوگ!
روح کانپتی تھی ۔کیونکہ ہم ایسی زمین پر تھے جس کے نیچے زندگی کو قید کرکے رکھا گیا ہے۔آنکھیں جھکی ہوئی تھیں۔کیونکہ ہم ایسی راہداری سے گزر رہے تھے جہاں شہداکی آنکھیں سوال لیے کھڑی تھیں ۔اس راہداری میں مجھے وہ ہزارہ بچہ یاد آیا جسے حسن معراج نے ایک دھماکے میں متاثر ہونے والی موٹر سائیکل کے سائلنسر سے کچھ کھرچ کھرچ کر شاپر میں ڈالتے دیکھا تھا۔ حسن معراج نے بچے سے پوچھا، یہ کیا ڈال رہے ہو شاپر میں؟ بچے نے کہا، یہ میرا بھائی ہے !
ایک خاتون قبرستان میں چادر بچھائے بھیک مانگ رہی تھیں۔ جلیلہ نے کہا، ہزارہ کو کبھ کسی نے بھیک مانگتے نہیں دیکھا تھا۔ یہ منظر ابھی ہمارے لیے اجنبی ہے۔میں چپ رہا، مگر بتانا چاہتا تھا کہ ہم نے کبھی پختونوں کو بھی بھیک مانگتے نہیں دیکھا تھا۔ اب لاہور اور کراچی میں ان سفید ریش بزرگوں کو جھولی پھیلائے دیکھتا ہوں تو شرم سے منظر دھندلاجاتا ہے۔ قتل کی ہر صورت قابل مذمت ہے، مگر بات بہت مختلف ہوجاتی ہے جب آپ چہرے کے خد وخال یا شناختی کارڈ پردرج نسبت دیکھ کر قتل کردیے جاتے ہیں۔ جس مسافر بس میں آپ بیٹھے ہوں اس بس کے مسافر خود کو آپ کی وجہ سے خطرے میں محسوس کریں۔ آپ کوچ کا ٹکٹ لینے جائیں اور کوچ مالکان کو معاشی خدشات لاحق ہوجائیں۔
جلیلہ حیدرگزشتہ تین دن سے اسلام آباد میں تھیں۔ کل ملاقات ہوئی توحال احوال کے دوران وہ موبائل میں مشغول ہوگئیں۔ تیسرا سوال میں نے یہ کیا،اور سناو کیا حالات ہیں اب وہاں کے؟ بولی، میسج آیا ہے کہ کچھ دیر پہلےتین ہزارہ نوجوان قتل ہو گئے ہیں۔ رات کھانے پہ کاشف نے کہا، ایک آدھ دن اور رک جائیے۔ جلیلہ نے کہا، ہمیں جانا ہوگا ،صبح ہزارہ مائیں بہنیں علمدار روڈ پر بیٹھ رہی ہیں، مجھے بھی پہنچنا ہے۔ نئے دن کا سورج طلوع ہوا ہے تو خبر یہ ہے کہ جھلسی ہوئی روحیں کوئٹہ میں علمدار روڈ پر جمع ہو رہی ہیں۔ زندگی! کیا یونہی دن گزر جائیں گے؟ خدایا! کیا لکھا ہے ہماری قسمت میں؟
پس تحریر: یہ کالم پرانا ہے۔ تین روز قبل پھر دو ہزارہ خوانچہ فروش مارے گئے۔ اب جلیلہ حیدر کوئٹہ پریس کلب کے باہر تادم مرگ بھوک ہڑتال پہ بیٹھ گئی ہیں۔ ان کو روکنا چاہتا ہوں، رات سوچا کوئٹہ جاوں اسے احتجاج کی صورت بدلنے پہ آمادہ کروں، مگر خوف آتا ہے کہ وہ ناراض ہوکر جواب میں “یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح” نہ کہہ دیں۔
بس ہم بوجھل آنکھ سے دیکھ رہے ہیں کہ یہ ہو کیا رہا ہے اور یہ کب تک ہوگا۔