دیسی لبرل کی مخصوص سیاپا فروشی بے نقاب – عامر حسینی

چوبرجی پہ موجود دیوبندی مدرسہ اور اورنج لائن ٹرین اور پنجاب یونیورسٹی کی زمین کا قصّہ

اورنج لائن ٹرین منصوبے کے لیے جو راستا وضع کیا گیا تھا اس میں پہلے حافظ پروفیسر سعید بانی لشکر طیبہ/جماعت دعوہ کے مرکز القادسیہ کی زمین آرہی تھی۔اس پہ حافظ سعید اور ان کے ساتھیوں نے شور مچایا۔ راستے میں تھوڑی تبدیلی کرلی گئی

اور اب اس راستے میں مدرسہ جامعہ محمدیہ دیوبندی مدرسہ آگیا۔

یہ مدرسہ ہاؤس فنانس بلڈنگ کارپوریشن اور پٹرول پمپ کے عقب میں جامعہ القادسیۃ کے سامنے سڑک پار کرکے بنا ہوا تھا۔ یہ مدرسہ بھی سرکاری زمین پہ تعمیر کیا گیا تھا اور اس زمین کو منتقل بعدازاں تعمیر کرایا گیا تھا۔

اسّی اور نوے کی دہائی میں یہ مدرسہ سپاہ صحابہ پاکستان کے پے درپے ہونے والے جلسوں کی وجہ سے لائم لائٹ میں آیا۔ جیش محمد کی جہادی سرگرمیوں کا بھی یہ مدرسہ مرکز رہا۔

یہ وہ مدرسہ ہے جس پہ 11جنوری 2014ء کی رات کو سیکورٹی ایجنسیوں نے جنرل پرویز مشرف پہ ہوئے حملے میں ملوث ایک فرد کے وہاں موجود ہونے پہ چھاپہ مارا تھا اور اسے اپنی حراست میں بھی لیا تھا۔

https://www.dawn.com/news/390919

اسی مدرسے کے بارے میں قابل اعتماد زرایع نے بتایا کہ یہ وہ مدرسہ ہے جو لاہور کے ان دیوبندی مدارس میں انٹیلی جنس رپورٹوں کے مطابق القاعدہ ، جیش محمد، لشکر جھنگوی العالمی ، طالبان جیسے گروپوں کے لوگوں کی آمد و رفت کا مرکز بھی بنارہا۔

اس مدرسے کی انتظامیہ ، وفاق المدارس کے کے جنرل سیکرٹری قاری حنیف جالندھری، جے یو آئی ایف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، تبلیغی جماعت کے سرکردہ مبلغ مولوی طارق جمیل اور دیگر نے نواز شریف اور شہباز شریف کو اس بات پہ آمادہ کیا تھا کہ اس مدرسے و مسجد کی جو زمین اورنج لائن ٹرین منصوبے کی زد میں آرہی ہے اس کے متبادل اس کو پنجاب یونیورسٹی کے اولڈ کیمپس میں زمین مدرسے اور مسجد کی تعمیر کے لیے دے۔ اسی پہ دیوبندی مدرسے کی انتظامیہ اور پنجاب حکومت میں معاہدہ طے پاگیا۔

انگریزی روزنامہ ڈیلی ڈان نے یہ خبر دو جنوری 2018ء میں شایع کی

https://www.dawn.com/news/1380277

لیکن نہ تو مدرسے کا نام اور نہ ہی اس کی مسلکی شناخت ظاہر کی اور نہ ہی اس اخبار نے اپنی ہی 2014ء کی خبر جس میں اس مدرسے پہ چھاپے کا ذکر تھا کا بطور فالو اپ ذکر کیا۔

سوشل میڈیا پہ بھی کسی لبرل نے اس مدرسے کا نہ تو جے یو آئی ایف سے تعلق ظاہر کیا اور نہ سپاہ صحابہ سے اور نہ ہی یہاں سے القا‏عدہ سے تعلق کے شبے میں گرفتار ہونے والے نوجوان کا۔

لیکن جب سندھ حکومت کا چیف منسٹر ممبر ریونیو بورڈ کو کراچی میں دعوت اسلامی کو زمین الاٹ کرنے کے لیے ایک خط لکھتا ہے تو سب سے پہلے یہ خبر مین سٹریم میڈیا میں آتی ہے جس میں دعوت اسلامی کا نام درج کیا جاتا ہے اور پھر سوشل میڈیا پہ ایک کمپئن چلتی ہے جس میں نہ صرف دعوت اسلامی نام لیا جاتا ہے بلکہ ان کی مسلکی شناخت بھی نام لیکر ظاہر کی جاتی ہے اور مذاق کے ساتھ ساتھ دعوت اسلامی جیسی تنظیم کا نام پاکستان میں دہشت گردی اور فساد پھیلانے والی تنظیموں کے ساتھ لیا جاتا ہے اور ایسے ظاہر کیا جاتا ہے جیسے دعوت اسلامی کوئی تحریک طالبان یا صوفی محمد کی تحریک نفاذ شریعت سوات یا سپاہ صحابہ پاکستان جیسی تنظیم ہو۔

میرا سوال یہ ہے کہ لاہور میں پنجاب حکومت کی جانب سے پنجاب یونیورسٹی کی زمین کو جس مدرسے کو الاٹ کرنے کا ایشو جب سامنے آتا ہے تو ہمارے مہان دیسی لبرل جغادری صحافی اور سول سوسائٹی کے اشراف آج تک پنجاب حکومت اور دیوبندی مدرسہ کی انتظامیہ کے مابین ہوئے مبینہ معاہدے کی کاپی ، اسی طرح پنجاب یونیورسٹی سے کی گئی خط و کتابت کی نقول سامنے کیوں نہیں لائے؟ انہوں نے سوشل میڈیا پہ اپنے قاری کو یہ کیوں نہیں بتایا کہ اس مدرسے کا حدود اربعہ کیا ہے؟ کیسی شہرت کا مالک ہے؟

ایک اور بات سن لیں اس وقت بھی جامعہ قادسیہ جو کہ اہلحدیث کی جہادی تنظیم لشکر طیبہ عرف جماعت دعوہ کا مرکز ہے اس کے سیکورٹی گارڈز نے سامنے سڑک پہ روکاوٹیں کھڑی کررکھی ہیں۔ ویسی روکاوٹیں جن کو ختم کرانے کے نام پہ ماڈل ٹاؤن میں چودہ لاشیں گرائی گئی تھیں۔ اور پھر گرین بیلٹ پہ موٹر سائیکل و سائیکل اسٹینڈ بنایا گیا جبکہ حافظ سعید کی رہائش گاہ جوہر ٹاؤن میں بھی سامنے روکاوٹیں کھڑی کرکے سرکاری زمین پہ قبضہ ہے۔ لیکن اس بارے میں کوئی شور نہیں مچارہا ہے۔ دعوت اسلامی کو ابھی زمین الاٹ ہوئی نہیں ہے مگر شور اتنا ہے کہ الامان الحفیظ۔ اور یہاں تک انتہائی “لچر زبان” بھی استعمال کی جارہی ہے۔ ویسی زبان خادم رضوی استعمال کرے دیسی لبرل کی گز گز لمبی زبانیں باہر آجاتی ہیں اور یہ گزگز لمبی زبانیں تکفیری دیوبندی اور سلفی جہادیوں کے معاملے میں منہ سے باہر آنے کا نام نہیں لیتیں۔

نوٹ : میں محترم لیاقت علی ایڈوکیٹ کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے کئی باتیں اس ضمن میں مجھے بتائیں۔

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.