پشتون تحفظ مومنٹ، /تحفظات و سوالا – حیدر جاوید سید
منظور پشتین کی پشتون تحفظ موومنٹ کی ابتداء سے اب تک دوستوں اور سوشل میڈیا کے ساتھیوں کے اصرار کے باوجود لکھنے سے معذرت کرلی۔ چند احباب مصر ہوئے تو عرض کیا کچھ تحفظات مانع ہیں لکھنے میں۔ عزیز جاں دوست محبی رانا اظہر کمال نے کمال مہارت سے شیشے میں اتارنے کی کوشش کی تو فقیر نے موضوع بدل لیا۔ برادرم عامر حسینی کی وال پراس حوالے سے ایک دو کمنٹس کئے تو برسوں سے ترقی پسند قوم پرستی کا علم اٹھائے چند مہربان خالص نسل پرست کے طور پر رائی کا پہاڑ بنانے لگے۔ سچ یہ ہے کہ میں اس بحث میں دو وجہ سے حصہ لینے سے گریزاں تھا۔اولاًیہ کہ منظور اور اس کی تحریک کے جائز مطالبات کے لئے قلبی ہمدردی اور ثانیاً سفرحیات کے جتنے برسوں سے صحافت کے کوچے میں ہوں ہمیشہ مظلوم اقوام اور طبقات کے حق میں مقدور بھر آواز بلند کی۔
برادرم عامر حسینی نے ایک بار کہا کہ شاہ جی اب آپ ’’عمر‘ ‘کے بوجھ تلے دب گئے ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ سچ ہو لیکن پورا سچ نہیں۔ تجربے، مشاہدے، مطالعے اور لوگوں کے رویوں نے سمجھا دیا ہے کہ ضروری نہیں جو دکھ رہا ہو وہ درست ہو اور چمکنے والی چیز سونا ہو یا راستہ بتانے والی رہنمائی اس بحث میں نہ پڑنے کی تیسری وجہ یہ تھی کہ پشتین کے حامیوں میں شامل افغان مہاجرین اور افغانستان سے آپریٹ ہونے والے سوشل میڈیا اکاؤنٹس دونوں تنقید اور سوال کرنے والوں کو عظیم الشان گالیوں سے نوازتے ہوئے پنجابی فوج کا دلال تک کہتے ہیں۔ کیا فوج واقعی سو فیصد پنجابی ہے؟۔ کم از کم میرا جواب نفی میں ہے۔ کچھ جذباتی افغان مہاجر پنجاب والوں کو غزنوی و ابدالی کی طرح کا سبق پڑھانے کا کہتے چلے آرہے ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے سماج کا ہر شخص ایک انتہا پر کھڑا ہے۔ مکالمہ گالی بن چکا ہے۔اور گالی پر عزم قومی موقف کا درجہ پا چکی ہے۔ اسی دوران بہر طور چند باتیں ایسی سامنے آئیں جن کی وجہ سے یہ سطور رقم کرنا پڑرہی ہیں۔ آگے بڑھنے سے قبل دو باتیں عرض کرنا ضروری ہے۔ اولاً یہ کہ پشتون تحفظ موومنٹ کے بعض مطالبات سو فیصد درست ہیں۔ آئین پاکستان اور قانون کی سربلندی کے لئے ان پر توجہ دینا ہوگی۔ چند باتیں بہر طور ایسی ہیں جن کا کوئی سر پیر نہیں۔ مثلاً پشتون تحریک کا یہ الزام کہ 1400خواتین کو پنجابی فوج نے اغوا کیا ہے۔32ہزار پشتون لاپتہ ہیں۔ یا یہ کہ پاکستان سے مذاکرات تیسرے ثالث کی موجودگی میں ہوں گے۔ خیبر پختونخواہ بند گلی یا دور افتادہ سمندری جزیرے پر واقع نہیں کہ فوج 1400 خواتین اغوا کرکے لیجاتی اور منظور پشتون یا اس کے ساتھیوں کو پتہ ہی نہ چلتا۔ غالباًانہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ سوات میں ملا فضل اللہ کے مجاہدین نے کتنی عفت مآب خواتین کی عصمت دری کی اور پھر انہیں قتل کرکے یہ دعویٰ کیا کہ قتل کی گئی خواتین دھندہ کرتی تھیں۔ سوات کی سکول ٹیچر اور محکمہ ہیلتھ میں کام کرنے والی اس کی بیوہ والدہ کے سفاکانہ قتل تو کم از کم اہل سوات کو یاد ہوں گے۔
اسفندیارولی، آفتاب شیر پاؤ ، میاں افتخار حسین اور دوسرے سینکڑوں ہزاروں پشتون رہنماؤں اور کارکنوں کی غیرت نے کیسے برداشت کرلیا کہ فوج 1400خواتین کو اغواکرکے لے جائے اور یہ چُپ رہیں؟۔32ہزار پشتون لاپتہ ہیں کا دعویٰ پہلی بار سامنے آیا ہے۔ اعدادوشمار کہاں اور کیسے مرتب ہوئے اور کیا طالبان کے دوگروپوں، جنداللہ، عمر ٹائیگر، لشکرجھنگوی العالمی اور داعش وغیرہ کے ساتھ افغان طالبان سے تسلی کرلی گئی اور ان کی صفوں میں موجود پاکستانی پشتونوں کی گنتی کے بعد یہ اعدادوشمار مرتب ہوئے۔ یہاں پھر ایک سوال ہے پشتون قوم پرست یا خیبر پختونخوا میں سیاست کرنے والی دوسری جماعتوں نے ان اعدادوشمار کے حوالے سے اب تک کیا کیا اور پارلیمان کے مختلف ایوانوں یا میڈیا میں اس حوالے سے آواز کیوں نہ اٹھائی؟
منظورپشتین کی تحریک نے نقیب اللہ محسود کے قتل سے جنم لیا۔ اس تحریک کے لانگ مارچ اور اسلام آباد دھرنے میں کالعدم تنظیموں کے سرکردہ لوگوں اور دیگر کی موجودگی کا کیا جواز تھا(جو جواز منظور اور اس کے عقیدت مند پیش کرتے رہے وہ بہر طور ڈنگ ٹپاؤ سے زیادہ کچھ نہیں تھا) اب بھی پشتین کی تحریک کی حمایت میں مقامی پشتونوں سے کہیں زیادہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں مقیم افغان مہاجر پیش پیش ہیں اور جس طرح کی بدزبانی وہ پاکستان اور دوسری مقامی قوموں(سرفہرست پنجابی ہیں)کے خلاف کررہے ہیں اُسے کیا نام دیا جائے؟ تحریک مقامی مسائل پر ہے لیکن دو باتیں ساتھ ساتھ چل رہی ہیں ایک یہ کہ کابل وغیرہ میں اس کے ساتھ یکجہتی کے مظاہرے ہوئے اوردوم یہ ہے کہ کل تک جو لوگ طالبان کی حمایت میں پاکستان، اداروں اور مختلف طبقات کو گالی دے رہے تھے وہ آج پشتین کی تحریک کی حمایت میں ویسی ہی زبان استعمال کررہے ہیں۔
لاریب سکیورٹی چیک پوسٹوں پر اہلکاروں کا رویہ درست نہیں تھا لیکن ایسا بدترین اور غیر انسانی رویہ تو شہری علاقوں کو کینٹ ایریاز سے ملانے والے مقام پر واقع چیک پوسٹوں پر بھی ہے۔ آئی ڈی پیز بحالی پر توجہ نہیں دی گئی۔ بالکل بجا شکوہ ہے مگر اس مسئلہ پر ہمارے پشتون لکھنے والوں سے زیادہ غیر پشتون لکھنے والوں نے آواز اٹھائی اور ان میں بہت سارے پنجابی بھی شامل رہے۔ بعض اطلاعات کے باوجود میں پشتین اور اس کے ساتھیوں پر الزام لگانے کی بجائے بہت ادب کے ساتھ ایک سوال کروں گا۔کیا پشتین اپنے ساتھی علی وزیر اور طالبان کے نائب امیرو شیخ الحدیث خالد حقانی کے درمیان ٹیلیفونک رابطوں کے بعد مولانا سمیع الحق کے مدرسہ، جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک گئے تھے؟۔کیا یہ درست ہے کہ علی وزیر اور خالد حقانی پچھلے تین سالوں سے باہم رابطے میں ہیں اور 25سے 27فروری کے درمیان خالد حقانی کے نمائندے وجاہت اللہ محسود اور افضل اچکزئی نے ان سے ملاقات کی تھی؟
یہ دو سوال بہ امر مجبوری رقم کئے ہیں مجبوری یہ ہے کہ پشتون علاقوں کی بربادی اور پشتون لہو بہنے کی تنہا فوج (یا پشتین کے بقول)اورپاکستان ہی ذمہ دار نہیں۔ صاف سیدھی بات یہ ہے کہ آخر کیوں طالبان اور دوسری عسکری تنظیموں کے جرائم کو پشتون ولی کے نام پر کلین چٹ دی جا رہی ہے؟۔کہیں ایسا تو نہیں کہ طالبانی دہشت گردوں کے جرائم کا ملبہ بھی منصوبے کے تحت پاکستانی اداروں پر ڈالا جارہا ہو؟۔یہ سوال بھی ہے کہ لانگ مارچ، اسلام آباد دھرنے اور اب مختلف اجتماعات میں پشتونستان کے نعرے کیوں لگ رہے ہیں؟ پشتین اور اس کے ساتھی قوم پرست جماعتوں کے قائدین سے ملاقاتیں کرتے ہیں مگر انہیں ولی ء کامل اور دیوتا کے طور پر پیش کرنے والے متاثرین کی ایک قسم قوم پرستوں کو گالی دینے سے نہیں چوکتی۔ مثلاً سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ وائرل ہوئی جس میں لکھا تھا’’بندے کے بے غیرت ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اے این پی کا رکن ہو‘‘۔
مکرر عرض کروں تحریر نویس پاکستانی ریاست کے اداروں کا وکیل صفائی ہرگز نہیں داخلی و خارجی پالیسیوں اور لشکر سازیوں یا دوسرے تجربوں پر ہمیشہ کھل کر تنقید کی سو اس حوالے سے کسی سند کی ضرورت ہر گز نہیں۔ ایک عامل صحافی کے طور پر میرا کام سوال اٹھانا ہے اور میں ایک سوال منظور پشتین کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ کیا یہ درست ہے کہ وہ 10سے 15دسمبر 2017ء کے درمیان سرحد پار افغانستان گئے تھے اور کابل یا جلال آباد میں ان کی ولی داد قندہاری نامی شخص اور اس کے ساتھ کے لوگوں سے چند ملاقاتیں ہوئیں؟۔یہ ولی داد قندہاری کون ہے اور اس کا افغان انتظامیہ کے کس ادارے سے تعلق ہے؟۔کیا یہ درست ہے کہ ولی قندہاری سے منظور پشتین کا رابطہ جناب محمود اچکزئی کی معرفت ہوا؟۔ایک سوال پھر دہراتا ہوں اپنے شکوے اور الزام ہر دو میں وہ پھر کیوں کہتے ہیں کہ پاکستان نے پشتونوں کے ساتھ ظلم کیا۔ کیا وہ ذہنی اور فکری طور پر پاکستان اور پشتونوں کو الگ فریق سمجھتے ہیں؟۔اب آتے ہیں ان کے مطالبہ کے سرنامہ کلام ٹھہرے اس مطالبہ پر، وہ کہتے ہیں کہ ’’پاکستان سے مذاکرات تیسرے ثالث کی موجودگی میں ہوں گے‘‘۔ کیا پاکستان اور پشتون تحفظ مومنٹ کے درمیان علاقائی و جغرافیائی تنازعہ ہے دونوں فریق جنگیں لڑچکے اب ثالث ان کے مذاکرات کروائے؟۔
مجھے یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ منظور اور اس کے ساتھیوں نے چند جائز مطالبات کے ساتھ بعض باتیں (الزامات) بذات خود جواب طلب ہیں۔ ویسے حرف آخر کے طور پر منظور پشتین کو اس بات کی مبارکباد دیتا ہوں کہ ان کی تحریک کے بعض معاملات پر خیبر پختونخوا کے اخبارات کو مخالف یا تنقیدی مضامین شائع کرنے سے ’’اُنہوں‘‘ نے منع فرمایا جو اس بربادی کے ذمہ داروں میں سے ایک ہیں۔ کیسی عجیب بات ہے کہ ان کے نرم و گرم حامیوں میں انجمن ہمدردان طالبان اور سہولت کاروں کی بڑی بات شامل ہے۔ اس لئے فقیر فقط یہی عرض کرسکتا ہے۔
’’کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی‘‘