پشتون تحفظ تحریک کے کنوینر منظور محسود پشتون عرف منظور پشتین اور وزیر قبائل کے علی وزیر نے دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کا دورہ کیا اور مدرسے سے اپنی تحریک کے لیے حمایت طلب کی ہے۔ اس دورے پہ سیکولر، لبرل اور لیفٹ کے حلقوں کی جانب سے پی ٹی ایم کو سخت تنقید کا سامنا ہے۔اس اقدام پہ شیعہ اور صوفی سنّی پشتونوں کی جانب سے بھی تنقید کی جارہی ہے۔
مذہبی اقلیتوں اور پشتون معاشرے میں خاص طور پہ نسل کشی کا شکار پشتون اور سرائیکی شیعہ جن کی زیادہ تعداد کرم ایجنسی، اورکزئی ایجنسی اور ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن میں آباد ہے نے اس اقدام کو مایوس کن اقدام ٹھہرایا ہے۔
منظور پشتین اور علی وزیر جنھوں نے دارالعلوم حقانیہ کا دورہ کیا، اس تنقید پہ اب تک خاموش ہیں اور پی ٹی ایم نے بھی اس دورے پہ ہونے والی تنقید کے بارے میں اپنا موقف اب تک واضح نہیں کیا ہے۔
پی ٹی ایم کے تین قسم کے حامیوں نے اس تنقید کے جواب میں اپنا ردعمل دیا ہے اور تینوں قسم کے حامی منظور پشتین اور علی وزیر کے اقدام کو ٹھیک قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں۔
پہلی قسم، پشتون قوم پرستوں میں سے ان لوگوں کی ہے جن کا خیال یہ ہے کہ ’اکوڑہ خٹک میں دارالعلوم حقانیہ والے، انتظامیہ، اساتذہ اور طلبا چونکہ پشتون ہیں ااس لیے وہ ان کے اپنے ہیں۔ان کو تو پنجابی اسٹبلشمنٹ اور آئی ایس آئی نے استعمال کیا تھا۔ منظور پشتین ان کو سمجھانے گئے تھے کہ اب وہ استعمال ہونے سے باز آجائیں اور پشتونوں کا ساتھ دیں‘۔
ان پشتون قوم پرستوں میں سے کچھ کا کہنا ہے کہ دارالعلوم حقانیہ کے دورہ کرنے کا مقصد وہاں کے مولویوں کی مدد لینا ہے تاکہ کل کو کوئی اس تحریک پہ ’گستاخی و توہین’‘ کا الزام عائد نہ کرسکے۔
پشتون قوم پرستوں میں سے ایک حصّہ وہ ہے جس کا خیال یہ ہے کہ منظور پشتین کے دورہ حقانیہ پہ تنقید کرنے والے آئی ایس آئی اور پنجابی اسٹیبلشمنٹ کے ایجنٹ ہیں۔ پشتون تحریک حقانیہ مدرسہ اور اس سے منسلک لوگوں کو ساتھ ملائے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتی۔
پشتون قوم پرستی سے جڑے کچھ لوگوں نے باچا خان کا قول ڈھونڈ نکالا ہے اور وہ کہتے ہیں حجرے اور مسجد کو ساتھ ملائے بغیر پشتون تحریک کامیاب نہیں ہوسکتی۔
پشتون قوم پرستوں کی جانب سے پی ٹی ایم کے دورہ حقانیہ پہ تنقید کے جواب میں مذکورہ بالا تمام ردعمل میں جو پہلا ردعمل ہے، اس پہ ذہنوں میں یہ سوال اٹھتا ہے:
کیا دارالعلوم حقانیہ کے مہتمم مولانا سمیع الحق، اس دارالعلوم کے صدر المفتی اور دیگر اساتذہ یہ مانتے ہیں کہ حقانیہ مدرسہ ’افغان جہاد‘ سے لے کر اب تک مذہبی بنیادوں پہ ہونے والی عسکریت پسندی کے لیے جو نظریاتی جواز تلاش کرتا آیا ہے وہ دراصل ’آلہ کار/پراکسی‘ بننے کا نتیجہ تھا؟
کیا دارالعلوم حقانیہ اپنے نظریہ جہاد و تکفیر سے دست بردار ہوگیا ہے؟
کیا وہ پاکستان وافغانستان کے اندر جہاد کے نام پہ دہشت گردی کرنے والوں کو ’دہشت گرد‘ کہنے پہ تیار ہے؟
کیا وہ یہ مانتا ہے پشتون سماج کے اندر پھیلی تباہی و بربادی میں سب سے بڑا کردار ’ڈیپ سٹیٹ‘ اور ’تزویراتی گہرائی‘ کے نام پہ جہادی پراکسیزکو بروئے کار لانا تھا؟
کیا دارالعلوم حقانیہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں تکفیری سلفی، دیوبندی عسکریت پسندوں کی جانب سے مذہبی شناخت پہ لوگوں کے قتل کی مذمت کرنے اور اپنے اب تک کے کردار پہ نادم ہے؟
اور کیا وہ پشتون قوم سمیت دہشت گردی کی متاثرہ تمام اقوام سے اپنے کردار کی معافی مانگنے پہ تیار ہے؟
دوسرا ردعمل کہ ’توہین و گستاخی کے فتوؤں سے بچنے کے لیے اکوڑہ خٹک کے مولویوں کے پاس گئے‘، انتہائی مضحکہ خیز اور بچگانہ عذر ہے۔
حقانیہ مدرسہ کو ملائے بغیر کوئی تحریک خیبرپشتون خوا میں کامیاب نہیں ہوسکتی جیسا عذر ظاہر کرنا نظریاتی دیوالیہ پن کا ثبوت تو ہے ہی، ساتھ میں یہ اس بات کا اعتراف بھی ہے کہ ایسے پشتون قوم پرست بھی ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ مقتولوں اور مظلوموں کے لیے انصاف کی تحریک کے لیے قاتلوں اور ظالموں کو ساتھ ملانا اشد ضروری ہے۔
باچا خان کے قول حجرے اور مسجد کے تعاون کے ساتھ پشتون قوم کی تحریک کو کامیاب کرنے کی جو بات ہے، وہ سیاق و سباق سے ہٹ کر بیان ہوئی ہے۔
باچا خان، ولی خان، اجمل خٹک جن دنوں دارالعلوم حقانیہ میں پڑھا کرتے تھے ان دنوں دارالعلوم حقانیہ ریڈیکل جہاد ازم اور وہابی ازم سے گدلایا ہوا ریڈیکل انتہا پسند دیوبندی ازم کا نظریاتی اور بھرتی کا مرکز نہیں تھا۔نہ ہی حقانیہ ان دنوں امریکا، برطانیا سمیت مغربی سرمایہ داروں کے کسی جہادی پروجیکٹ کا سٹرٹیجک شراکت دار تھا اور نہ ہی یہ ادارہ سعودی عرب سمیت مڈل ایسٹ کے وہابی حکمرانوں کی ایجنٹی کا کردار ادا کررہا تھا۔
یہ بالکل عام سا مدرسہ تھا جو مقامی لوگوں کے چندے سے چلایا جاتا تھا لیکن آج کا حقانیہ مدرسہ ایک بالکل مختلف مدرسہ ہے۔
یہ لال مسجد سمیت ملک کے طول و عرض میں پھیلے ان مدارس کا حصّہ ہے جو جہادی، تکفیری انتہا پسند، بنیاد پرست اور دہشت گردی کا جواز فراہم کرنے والا بہت وسیع و عریض نیٹ ورک ہے۔
دارالعلوم حقانیہ کے بانی مولانا عبدالحق حقانی فاضل دارالعلوم دیوبند انڈیا دیوبندی سنّی مکتب فکر کی جمہور اعتدال پسندانہ روایت کے قائل تھے۔ وہ عدم تشدد کے قائل تھے اور جمعیت علمائے ہند کے سیکولر نیشنلسٹ نظریہ سے اتفاق رکھتے تھے اسی لیے ان کے باچا خان اور ان کے بزرگوں سے بہت اچھے تعلقات تھے۔
باچا خان نے دارالعلوم دیوبند کی مدد سے ہی باجوڑ ایجنسی میں پہلا مدرسہ قائم کیا تھا۔اگر دارالعلوم دیوبند دہشت گردی، جہاد ازم، تکفیر ازم کا علمبردار ہوتا اور اس کی جمہور کی روایت طالبان کی آئیڈیالوجی کی پیرو کار ہوتی تو باچا خان کبھی بھی مدرسہ حقانیہ اور دارالعلوم دیوبند سے تعلقات استوار نہ کرتے۔
آج حقانیہ جس شکل میں موجود ہے، باچا خان اس شکل کے خلاف تحریک چلاتے اور وہ حقانیہ سے طالبان نواز قوتوں کی بے دخلی کی مہم کا حصہ ہوتے۔
جو پشتون قوم پرست، مولانا سمیع الحق کو محض ایک عالم کہہ کر پیش کرتے ہیں، وہ اس حقیقت سے انکاری ہیں کہ مولانا سمیع الحق ان قوتوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے پشتون سماج کو بالخصوص اور پورے پاکستانی سماج کو بالعموم دہشت گردی، انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کا متاثرہ بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ وہ ظالم و قاتل کیمپ کا حصّہ رہے ہیں اور ان کے خیالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
جہاں تک جمعیت علمائے اسلام (ف‘ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا تعلق ہے، وہ افغانستان میں جاری تحریک طالبان افغانستان کی جنگ کو ’جہاد‘ سمجھتے ہیں اور پاکستان میں لڑنے والوں کے مقصد کو ٹھیک تاہم طریقہ کار کو غلط کہتے ہیں۔
وہ پاکستان کے اندر دیوبندی مکتب فکر سے اٹھنے والی سب سے بڑی تکفیری تنظیم سپاہ صحابہ پاکستان/اہلسنت والجماعت کے حامی ہیں اور ان کی قیادت کو اپنی تنظیم کی پناہ بھی فراہم کرتے ہیں۔
ان پہ یہ الزام ہے کہ وہ آج تک ڈیرہ اسماعیل خان میں شیعہ سرائیکی نسل کشی کو رکوانے یا اس کے ذمہ داروں کا پبلک میں نام لینے سے بھی شرماتے ہیں۔
جے یو آئی (ف) کی بلوچستان کی تنظیم بلوچستان میں شیعہ ہزارہ کی نسل کشی میں ملوث سپاہ صحابہ پاکستان کے رمضان مینگل وغیرہ کی حامی ہے اور اس کا سندھ چیپٹر تو سپاہ صحابہ پاکستان کے ساتھ مل کر مذہبی منافرت پھیلانے میں شریک ہے اور وہاں پہ جے یوآئی (ف) اور سپاہ صحابہ ایک ہی سکّے کے دو رخ خیال کیے جاتے ہیں۔
جماعت اسلامی کی پوزیشن جے یو آئی(ف) سے کہیں زیادہ خراب ہے۔
یہ جماعت نہ صرف تحریک طالبان افغانستان کی سپورٹر ہے بلکہ یہ القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان کی حامی بھی ہے۔سوات میں اس کی ہمدردیاں آج بھی ملّا فضل اللہ کے لوگوں کے ساتھ ہیں۔پشتون سماج کی ریڈیکلائزیشن اور یہاں پہ مذہبی جنونیت اور عسکریت پسندی کو ترقی دینے میں جماعت اسلامی کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔
مختصر بات یہ کہ پشتون سماج میں مذہبی و نسلی تشدد اور جہاد ازم، تکفیر ازم کو پھیلانے میں اہم اور بڑا کردار جمعیت علمائے اسلام (ف)، جمعیت علمائے اسلام (س)، جمعیت علمائے اسلام (ن)، سپاہ صحابہ، تحریک نفاذ شریعت اور ان سے منسلک مدارس کا ہے۔اس میں پنج پیری گروپ کا بھی بڑا کردار ہے۔
یہی مذہبی سیاسی دھڑے جو آج بھی پشتون سماج میں جہاد ازم، تکفیر ازم اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف منافرت پھیلاتے ہیں، صوفی کلچر کے سب سے بڑے مخالف ہیں۔
یہ دھڑے پاکستانی ریاستی اداروں میں موجود جہاد ازم کی حامی لابی کے ساتھ کھڑے ہیں اور مڈل ایسٹ سمیت مسلم دنیا میں ہونے والے جھگڑوں کو یہ گھیر گھار کر پشتون سماج میں لے کر آتے ہیں اور فرقہ وارانہ تقسیم کو گہرا کرتے ہیں۔
پشتون سماج میں جنگ اور فرقہ وارانہ منافرت پہ مبنی تقسیم کے خاتمے اور پشتون نوجوانوں کے اندر رواداری اور مذہبی ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے بنیاد پرستی، جہاد ازم، انتہا پسندی، فرقہ پرستی کی علمبردار قوتوں کے خلاف جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے ناکہ ان سے اتحاد بنانے یا ان سے مدد مانگنے کی۔
جماعت اسلامی اور جے یو آئی کے سب دھڑے جب تک خود کو جہاد ازم اور تکفیر ازم اور مذہبی منافرت سے الگ نہیں کرتے اور وہ افغانستان ہو یا پاکستان یا کوئی اور ملک وہاں پہ نام نہاد جہادی تنظیموں سے اپنے روابط یا ان سے موافقت کرنا ترک نہیں کرتے تب تک پشتون نوجوانوں کا کوئی فرنٹ ہو وہ ان سب کے خلاف ہی بنے گا ناکہ ان کے ساتھ مل کر کسی اتحاد کو بنانے کی بات کی جائے گی۔
ایسا کوئی بھی عمل سمجھوتہ بازی اور منافقت ہی خیال کیا جائے گا۔
Source:
http://nuktanazar.sujag.org/manzoor-pashtee-akora-khattak-madrasa-haqqani