پشتون تحفظ تحریک اور بہار پشتون
پشتون تحفظ موومنٹ-پی ٹی ایم کے نام سے اس وقت خیبرپختون خوا اور فاٹا کے پشتون بولنے والی نوجوانوں کی ایک سماجی تحریک سامنے آئی ہے۔پی ٹی ایم کا چہرہ اس وقت منظور پشتین نام کا ایک نوجوان ہے،جس کے خیالات کو کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے انگریزی پریس اور غیر ملکی نشریاتی اداروں خاص طور پہ یورپ اور امریکی زرایع ابلاغ میں کافی کوریج مل رہی ہے۔
پشتون تحفظ موومنٹ کے تین مطالبات بہت ہی برمحل ہیں۔ ماورائے عدالت قتل پہ جوڈیشل کمیشن کا قیام، راؤ انوار کی برآمدگی،اور لاپتا افراد کو برآمدگی ہونی چاہئیے ۔
لیکن پی ٹی ایم کو سوشل میڈیا پہ کچھ قوتیں ایک اور رنگ سے پیش کررہی ہیں۔
پاکستان میں سوشل میڈیا پہ لبرل پرتیں خاص طور پہ وہ جن کے خیال میں مذہبی دہشت گردی کا جہادی و تکفیری نیٹ ورک پاکستان کی فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیز کی پراکسیز کے سوا کچھ بھی نہیں ہے،ان کی جانب سے بھی پشتون تحفظ موومنٹ کو بہت زیادہ سپورٹ مل رہی ہے۔
ان کی جانب سے بھی پاکستان میں جہاد ازم، عسکریت پسندی اور اس کے ساتھ جڑی بڑے پیمانے پہ دہشت گردی کا سب سے بڑا اور واحد ذمہ دار پاکستان کی فوج بلکہ وردی کو ٹھہرایا جارہا ہے۔
پاکستان میں لبرل لیفٹ کی ترجمان پاکستان عوامی پارٹی جس کا آج کل واضح جھکاؤ پاکستان مسلم لیگ نواز کی جانب ہے،وہ پشتون تحفظ موومنٹ کے بیانیہ کو پوری طاقت سے سپورٹ کررہی ہے۔
بی بی سی،وائس آف امریکہ، ریڈیو ڈویچے، وآئس آف جرمنی،نیویارک ٹائمز،واشنگٹن پوسٹ جیسے بڑے غیر ملکی انٹرنیشنل لبرل پریس اسٹبلشمنٹ اور ‘دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ’ کے حامی صحافی اور این جی او تھنکرز بھی پی ٹی ایم کی جانب بہت بڑا جھکاؤ رکھے ہوئے ہیں۔
پاکستانی لبرل،لبرل لیفٹ اور انٹرنیشنل لبرل پریس و سول سوسائٹی کا ایک بڑا حصّہ پی ٹی ایم اور منظور پشتین میں اسقدر دلچسپی کیوں لے رہا ہے؟ اور ان کو اپنے بڑے پیمانے پہ کوریج کیوں مل رہی ہے؟ یہ سوال اپنی جگہ پہ بڑے اہمیت کے حامل ہیں۔
یہ لبرل و لبرل لیفٹ لابیاں اکثر وہ ہیں جنھوں نے امریکہ کے افغانستان اور عراق پہ حملوں کی یا تو حمایت کی تھی یا اس کی مخالفت کرنے سے سرے سے انکار کردیا تھا۔پاکستان میں لبرل نے دہشت گردی کے خلاف امریکی سامراجی اور اس کی اتحادی ممالک کی جنگی اور فوجی مداخلت کی پالیسیوں کو سپورٹ کیا۔اور ان میں سے اکثر امریکی جنگ کے حامی بنکر سامنے آئے۔افغانستان پہ عوامی نیشنل پارٹی-اے این پی ، پشتون خوا ملی عوامی پارٹی، پشتون سول سوسائٹی کے بڑے بڑے نام افغانستان پہ امریکی جنگ کے حامی بنے اور انھوں نے امریکی جنگ کی مخالفت میں کچھ بھی نہیں کہا۔بلکہ جب آمریت کا دور ختم ہوا تو انھوں نے سوات طرز کے فوجی آپریشن کی حمایت کی۔اس لبرل لابی کی جانب سے بار بار یہ مطالبہ سامنے آتا رہا کہ وزیرستان سمیت پورے فاٹا اور خیبرپختون خوا میں پھیلتی طالبانائزیشن،جہاد ازم اور عسکریت پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہے۔شمالی وزیرستان،جنوبی وزیرستان، خیبر ایجنسی، اورکزئی ایجنسی،مالاکنڈ سوات،کوہستان سب جگہ ہونے والے فوج آپریشنوں کو پاکستانی لبرل نے کھلی سپورٹ فراہم کی۔
پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں بشمول مذہبی پارلیمانی جماعتوں ، پاکستان کا جملہ لبرل و قدامت پرست پریس چند ایک کو چھوڑ کر آپریشن ضرب عضب،آپریشن ردالفساد، نیشنل ایکشن پلان،پاکستان پروٹیکشن آرڈیننس، فوجی عدالتوں کے قیام،رینجرز کی پنجاب سمیت سب صوبوں میں دائرہ کار بڑھانے کی سپورٹ کرتا رہا۔
پاکستان میں اکثر وبیشتر وہ لبرل جو پشتون تحفظ موومنٹ کو ‘بہار پشتون’ قرار دے رہے ہیں،پشتون تحفظ موومنٹ کے پشتون علاقوں میں حقوق فراہم کرنے کے مطالبات کی سپورٹ کررہے ہیں وہ پشتون تحفظ موومنٹ کے چہرے پہ اپنے سب سے بڑے بیانیہ ‘یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی’ اور ‘دہشت گردی کے پیچھے پاکستانی فوج ہے’ چسپاں کررہے ہیں یا پشتون تحفظ موومنٹ کے بہت سارے مطالبات کو اس ایک مطالبے کے پردے میں لپیٹ رہے ہیں۔
منظور پشتین سے بی بی سی اردو کے خدائے نور نے انٹرویو کیا۔اس انٹرویو کو پاکستانی سوشل میڈیا پہ بھی بہت پروموٹ کیا جارہا ہے۔اس انٹرویو میں بی بی سی کا نمائندہ منظور پشتین سے پوچھتا ہے کہ وزیرستان میں نیک محمد سے لیکر بیت اللہ محسود تک جو نوجوان شدت پسندی (حالانکہ تحریک طالبان پاکستان کی گوریلا، خودکش، ڈیوائس کنٹرول بم دھماکہ اور بارودی سرنگیں بچھائے جانے اور لوگوں کے سروں سے فٹبال کھیلنے اور 80 ہزار پاکستانیوں کی جانیں لینے کے مجموعی پروس اور اس میں شامل شیعہ نسل کشی، صوفی سنّی مسلمانوں کی ہلاکتیں ،کلیساؤں پہ حملے یہ سب کے سب محض شدت پسندی نہیں بلکہ کھلی دہشت گردی تھی جو ابتک جاری و ساری ہے۔)اس کی وجہ کیا ہے؟تو منظور پشتین اس کے جواب میں بالکل وہی یک رخی جواب کے ساتھ سامنے آتا ہے جو اس ملک میں لبرل لابی کا ہمیشہ سے رہا ہے۔اس کے خیال میں پورے خیبرپختون خوا اور فاٹا کے اندر جہاد ازم،عسکریت پسندی اور دہشت گردی کی پرداخت کی ذمہ دار پاکستان کی فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیاں ہیں۔وہ 80ء دہائی میں پاکستان-امریکہ-سعودی عرب اور دیگر مغربی سرمایہ دار بلاک کے رکن ممالک کے باہمی گٹھ جوڑ،پاکستان کی سلفی،دیوبندی وہابی مذہبی قیادت کی موقعہ پرستی سے ملکر کھڑی ہونے والی جہادی سلطنت اور نیٹ ورک کا سارا الزام صرف اور صرف جرنیلوں اور انٹیلی جنس افسران پہ دھرتے آئے۔امریکی حکومتوں، سی آئی اے، سعودی عرب سمیت مڈل ایسٹ کی فنڈنگ کے عوامل کو وہ بالکل نظر انداز کرتے ہیں۔وہ مذہبی بنیادوں پہ ہونے والی دہشت گردی اور اس کے دیوبندی عسکریت پسندی اور اس کے پیچھے کارفرما عالمی جہادی نیٹ ورک اور اس کی مقامی سرپرست لابیوں میں صرف اور صرف فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو (ان میں بھی ان کے اندر موجود ضیاء الحقی باقیات کو نہیں بلکہ ساری فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو ) سنگل آؤٹ کرکے ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
اے این پی ،پشتون خوا ملی عوامی پارٹی سمیت پشتون قوم پرستوں کی اکثریت جن کا تعلق پشتونوں کی ابھرتی ہوئی مڈل کلاس سے ہے پاکستان کی فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو ساری خرابی کا ذمہ ٹھہرانا چاہتے ہیں اور اس سارے عمل میں ان سے یہ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کہ نائن الیون کے بعد تو پاکستان کی کیا پنجابی،کیا سندھی، کیا بلوچ،کیا پشتون لبرل مڈل کلاس چاہے اس کا تعلق قوم پرست سیکولر جماعتوں سے تھا یا وہ صحافت یا این جی اوز میں لبرل سیکولر سوچ کے علمبردار کہلاتے ہوں امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی حامی تھی۔یہ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ اتحاد کی بھی بالکل مخالف نہیں تھی۔بلکہ یہ سول سوسائٹی اور لبرل دماغ ہمیں اب سرد جنگ کے زمانے سے شروع ہونے والے جہاد ازم،مذہبی دہشت گردی کے خاتمے کی نوید سنارہے تھے۔پاکستان کے لبرل کے درمیان اگر کسی معاملے میں اختلاف اگر تھا تو وہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ سے نہیں بلکہ اسے لیڈ کون کرے گا؟ پہ تھا۔پاکستان کی لبرل پرتوں کا ایک حصّہ چاہتا تھا یہ جنگ امریکی پرچم تلے پاکستانی جمہوری چہرے لڑیں۔
اب بھی اس لبرل کیمپ کا خیال یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکہ افغانستان کے اندر مطلوبہ نتائج نہ پاسکا اور وہ افغانستان کو جاپان یا مغربی جرمنی نہیں بناسکا تو اس کی ذمہ داری پاکستانی ریاست کے جرنیل اور انٹیلی جنس افسران ہی ہیں۔جبکہ اس معاملے میں علاقائی طاقتوں اور سب سے بڑھ کر امریکہ بہادر اور سعودی عرب کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور اس ناکامی میں کروڑوں ڈالر بٹورنے والی مغربی سرمایہ دار نواز این جی اوز کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔
پشتون تحفظ موومنٹ نے پشتون سماج کے اندر بڑے پیمانے پہ جہادی اور انتہا پسند مدرسوں اور تنظیمی نیٹ ورک پہ مشتمل ریڈیکل تکفیری یا جہادی آئیڈیالوجی کے حامل مراکز اور ان کے بڑے بڑے ناموں بارے پراسرار سی خاموشی اختیار کرلی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ اتنے بڑے تکفیری جہادی سعودی فنڈڈ نیٹ ورک کو محض کسی ادارے کی پراکسی خیال کرتے ہیں۔جیسے امریکہ سمیت مغرب نواز سامراجی لبرل کے خیال میں پاکستان سمیت پورے جنوبی ایشیاء میں پھیلے دہشت گرد نیٹ ورک کے پیچھے پاکستانی فوج یا انٹیلی جنس ایجنسیاں ہی ہیں۔اور وہ جہاد ازم کو پراکسی سے ہٹ کر دیکھنے کو تیار نہیں ہیں اور پراکسی بھی بس پاکستانی ملٹری اور انٹیلی جنس اداروں کی۔
اتنے خام خیال کے ساتھ کیا پاکستان کے پشتون علاقوں میں بالخصوص جہاد ازم، تکفیر ازم، جہادی نیٹ ورک، تحریک طالبان پاکستان،داعش، جماعت الاحرار، لشکر جھنگوی، القاعدہ اور سب سے بڑھ کر ان کا نظریاتی شراکت دار اور سہولت کار جیسے سپاہ صحابہ پاکستان وغیرہ ہیں کی جانب بالکل آنکھیں بند کرکے کیا پشتونوں کے حقوق کے تحفظ کی بات ٹھوس عملی نتائج دے پائے گی؟
پشتون تحفظ تحریک کا سب سے کمزور حصّہ اس تحریک سے غیر پشتون یعنی سرائیکی اور ہندکو بولنے والی آبادی کی بے گانگی ہے۔جبکہ اور پشتون تحفظ موومنٹ کی جانب سے پاکستان کے حکمران طبقات کی طرف ‘نسلی شاؤنزم’ کے ساتھ دیکھنے کا رویہ انتہائی خطرناک ہے۔اس تحریک کی طرف شیعہ اور صوفی سنّی پشتونوں کا رجحان نہیں ہے اور اس کی ایک وجہ تو پی ٹی ایم کے جلسے جلوسوں،کارنر اجلاسوں اور کمپئن کے دوران تکفیری –جہادی ریڈیکل دیوبندی گروپوں کا نمایاں نظر آنا ہے۔
اس لیے دہشت گردی،جہاد ازم، تکفیر ازم اور دہشت گردی کے خلاف جنگ پہ پی ٹی ایم کولبرل سامراجیوں کے یک رخی اور انتہائی خام نظریہ پہ نظر ثانی کرنے اور اپنی دوست و دشمن قوتوں کے انتخاب میں بھی مزید غور و خوض کی ضرورت ہے۔ ورنہ یہ بہار شام کی طرح جعلی بہار ثابت ہوگی اور امریکی سامراجی، جگہ تلاش کرنے والے طالبان اور اس تحریک کو پروجیکٹ میں بدل کر ڈالر لوٹنے والوں کو یہ سانس لینے کا موقعہ فراہم کرے گی۔
Source:
پشتون تحفظ تحریک اور بہار پشتون