بلوچ ـ مذہبی شدت پسندی – ذوالفقار علی ذوالفی
بلوچستان میں ہزارہ برادری کی نسل کشی میں ملوث افراد کی اکثریت ، جامعہ حفصہ اسلام آباد کے سربراہان غازی عبدالرشید و مولانا عبدالعزیز اور سیہون دھماکے کے ماسٹر مائنڈز ڈاکٹر غلام مصطفی مزاری، صفی اللہ مزاری اور نادر جکھرانی کی قومی شناخت “بلوچ” ہے ـ
اس سے پہلے القاعدہ کے اہم ترین اراکین یوسف رمزی اور خالد شیخ محمد کی قومی شناخت بھی “بلوچ” رہی ہے ـ
بلوچ معاشرہ تاریخی طور پر مذہبی لحاظ سے کبھی بھی شدت پسند نہیں رہا ـ بلوچ تاریخ میں مذہبی شدت پسندی کی پہلی لہر بلوچ قومی ہیرو سمجھے جانے والے نوری نصیر خان کو قرار دیا جاسکتا ہے ـ جنہوں نے مکران کو “بلوچ ریاست” میں شامل کرنے کے لئے وہاں کے گچکی حکمرانوں کو زکری فرقے سے تعلق کی بنا پر غیر اسلامی قرار دیا ـ
نوری نصیر خان کی مذہبی شدت پسندی کو یہ مان کر آگے بڑھا جاسکتا ہے کہ چونکہ ان کی پرورش افغان حکمران احمد شاہ ابدالی کے زیرِ سایہ ہوئی ہے اس لئے ان کے فکر و عمل کو بلوچ سماج کا عکس نہیں مانا جاسکتا ـ یقیناً اس دلیل میں قوت بھی پائی جاتی ہے مگر خوانینِ قلات کی فکری ساخت اور ریاستی معاملات پر ان کی ترجیحات سے یہ پتہ چلتا ہے خوانین ، مذہب کو ریاست کا اہم حصہ تصور کرتے تھے ـ جیسے خان قلات میر احمد یار خان کو اس پر دکھ نہ تھا کہ پاکستانی فوج نے بلوچستان پر حملہ کیا بلکہ ان کا دکھ یہ تھا اس حملے میں مسجد کے میناروں کو نقصان پہنچا اور یہ حملہ نماز فجر کے وقت کیا گیا ـ
خوانین قلات کی مذہبی وابستگی کے اور بھی مظاہر ہیں جن کا تذکرہ طوالت کے خوف سے حذف کرنے پڑرہے ہیں ـ برطانوی دور میں آل انڈیا بلوچ کانگریس منعقدہ خان گڑھ (جیکب آباد) کی روداد سے اس کانگریس میں شریک سیکولر سمجھے جانے والے بلوچ رہنماؤں کی مذہب پسندی پر بھی کافی مواد ملتا ہے ـ
بلوچ حکمرانوں کے برعکس معاشرے میں مذہبی شدت پسندی کا سراغ نہیں ملتا ـ بلوچستان پر پاکستانی قبضے سے لے کر ضیا دور تک میں بھی بلوچ معاشرہ پاکستان کے دیگر معاشروں کی نسبت سیکولر مزاج رہا ہے ـ
نوے کی دہائی میں، سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد بلوچ سیاست نے نظریاتی کرپشن، موقع پرستی اور عملیت پسندی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا ـ اس طرزِ سیاست نے معاشرے کو کرپٹ اور کھوکھلا کردیا ـ رہی سہی کسر پاکستانی ریاست نے پوری کردی ـ
اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں بلوچ مزاحمت کے ابھار نے صورتحال کو بہتر بنانے کی جانب قدم بڑھایا مگر دوسری یعنی موجودہ دہائی کے اوائل اور وسط میں بعض مزاحمتی قوتوں نے دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے کہ غلط نعرے کو بنیاد بنا کر مذہبی شدت پسندوں سے مفاہمت کا راستہ اپنایا ـ اس مفاہمت کے بدترین اثرات مرتب ہوئے ـ آج بلوچ معاشرہ مذہبی لحاظ سے خوفناک حد تک تنگ نظر بنتا جارہا ہے ـ