شیعہ نسل کشی کی نفی کرنے والا ادب ،ادب نہیں پروپیگنڈا ہے – محمد عامر حسینی
ظالم اور مظلوم میں برابری کی تلاش شیعہ نسل کشی پہ ابہام کا پردہ ڈالتی ہے ۔چاہے یہ فکشن کے راستے سے ہو یا تاریخ کے راستے سے یا پھر جعلی خبریں بناکر کی جائے۔جنگ اخبار میں ‘سو لفظوں کی کہانی’ لکھنے والے مبشر علی زیدی کا فکشن اور سو لفظوں میں کہانی کہنے کا فن جب کبھی پاکستان کے اندر ‘شیعہ نسل کشی’ کے سوال سے نبرد آزما ہوا تو وہ غلط مقدمے قائم کرنے کی غلطی کرتا رہا۔غلطی ایک بار ہو،سہ بار ہو اور اس کی نشاندہی کی جائے اور غلطی کرنے والا اس کی اصلاح کرلے تو غلطی کرنے والی نیت پہ شک نہیں کیا جاتا۔مگر غلطی کا مرتکب نہ تو اپنی غلطی درست کرے،نہ وہ دلائل و استدلال سے یہ بتائے کہ اس پہ غلطی کا الزام لگانے والے کہاں غلط ہیں بلکہ وہ طنز و تشنیع کے تیر برسانے لگے اور مشتعل ہوکر بے بنیاد الزام تراشی کرنے لگے تو پھر اس کی نیت اور اس کے مقصد پہ شک کرنے کی گنجائش نکلنے لگتی ہے۔
ابھی مبشر زیدی نے وسعت اللہ خان پہ لکھی میری ایک پوسٹ پہ ‘تہذیب و آداب’ سے عاری گفتگو پہ ندامت محسوس کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی اور پھر ایک اور بدزبانی کا نمونہ لاکھڑا کیا کہ انھوں نے اسی اثناء میں اپنی اس کہانی کے امیج لگائے جو آصف فرخی کے رسالے’دنیا زاد’ میں چھپی تھی اور یہ کہانی انہوں نے راولپنڈی میں راجا بازار میں دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے مدرسے اور مسجد پہ عاشورہ کے دن آگ لگائے جانے کے واقعے سے متاثر ہوکر لکھی تھی۔جب یہ کہانی شایع ہوئی تو میں نے نام لئے بغیر اس وقت اس تحریر کو
False Binary
کی اچھوتی مثال قرار دیا تھا۔اس وقت تحقیقات ابتدائی مرحلے میں تھیں لیکن ایجنسیز اور راولپنڈی کی انتظامیہ اس ابتدائی مرحلے پہ ہی مسجد اور مدرسے پہ حملے اور آگ کے حوالے سے مشکوک تھیں۔ان کو شک تھا کہ یہ آگ خود دیوبندی مکتب فکر کے اندر سے اٹھنے والے تکفیری خارجی ٹولے کی سازش اور منصوبہ بندی سے لگی ہے اور اس میں شیعہ برادری کا ہاتھ نہیں ہے۔
مجھ سمیت پاکستان کے اندر ایک بڑی تعداد کا خیال یہ تھا کہ تکفیری ٹولہ اسے شیعہ-دیوبندی فساد یا اس سے آگے بڑھ کر شیعہ-سنّی فساد میں بدلنا چاہتا ہے اور پاکستان میں شیعہ-سنّی خانہ جنگی کروانے کا خواہاں ہے۔
راوالپنڈی میں جب مسجد اور مدرسہ کو آگ لگ گئی اور اس حوالے سے شیعہ برادری پہ الزام دھرا جاچکا تو اس کے فوری بعد پورے راولپنڈی میں اور چشتیاں ، بہاولنگر ،ملتان سمیت کئی شہروں میں شیعہ امام بارگاہوں و مساجد پہ حملے کئے گئے اور پوری کوشش کی گئی کہ فساد پھیل جائے۔بلکہ راولپنڈی میں تو شیعہ گھروں تک پہ جملے کئے گئے۔
اس کے برعکس دیوبندی مساجد اور مدارس پہ حملوں یا سنّی محلوں پہ حملوں کی نہ تو کوئی خبر آئی اور نہ ہی راولپنڈی انتظامیہ کی رپورٹ میں ایسے کسی واحد حملے کا بھی ذکر نہیں ہے۔
فکشن میں تخیل کی کاریگری شامل ہوتی ہے اور تاریخ کی حالی جگہوں کو پر کیا جاتا ہے۔لیکن یہ نہیں ہوتا تاریخ نے جو جگہیں پر کردی ہوں آپ ان جگہوں پہ بھی فکشن داخل کردیں۔اور لازمی بیلنس کرنے کی کوشش کریں۔
آصف فرخی نے اپنے رسالے میں جب مبشر زیدی کا راولپنڈی میں عاشور پہ ہوئے واقعہ بارے افسانہ شایع کیا تو میں نے اس وقت بھی کہا تھا کہ آصف فرخی تنقید کے باب میں بار بار حسن عسکری کا ذکر کرتے ہیں اور نجانے اس موقعہ پہ مبشر زیدی کا افسانہ شایع کرتے ہوئے وہ منٹو کے افسانوں پہ حسن عسکری کا لکھا دیباچہ کیسے نظر انداز کرگئے۔حسن عسکری نے فسادات پہ اردو افسانہ نگاروں کی جانب سے بیلنس کرنے کی روش پہ تنقید کی تھی۔کہ اگر وہ سو مسلمان مارے گئے تو سو ہندؤ بھی مرتے دکھائیں گے۔اور یہ غیر جانبداری ظاہر کرنے کا غلط طریقہ ہے۔
آج سے پچاس ساٹھ سال بعد جب مبشر زیدی کا شمر لعین افسانہ کوئی قاری پڑھے گا تو اسے لگے گا کہ راولپنڈی میں عاشورہ 2013ء کے موقعہ پہ شیعہ سنّی فساد ہوا تھا۔وہ حقیقت کا سراغ کم ازکم مبشر زیدی کے افسانے سے نہیں لگا پائے گا۔
آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس اس تحریر کو پڑھنے والوں کو یاد ہوگی جس میں بتایا گیا کہ مسجد اور مدرسے پہ حملہ سپاہ صحابہ پاکستان کے لوگوں نے کیا تھا۔اس کے علاوہ پھر شیعہ ۔سنّی لڑائی اس ملک میں سرے سے موجود نہیں ہے۔اس ملک میں تو خارجی ،جہادی،تکفیری فاشزم ہے جو شیعہ نسل کشی کا مرتکب ہورہا ہے۔راولپنڈی میں بھی تکفیری فاشزم تھا جس نے فساد کرانے کی کوشش کی اور اس دن ہوئے ہنگامے کا سب سے بڑا متاثرہ فریق شیعہ کمیونٹی تھی۔
کیا جوزف کالونی گوجرہ ، مصری شاہ لاہور سمیت اس ملک میں بلوائی حملوں سے پہلے منصوبے کے تحت کرسچن آبادی کو مجرم بناکر نہیں دکھایا گیا؟ اور جو مارٹن آباد میں چرچ پہ حملوں کے بعد بعض شدت پسند مظاہرے دیکھنے کو ملے تھے کیا مبشر زیدی ان کو بنیاد بناکر یسوع مسیح کو ایک بار پھر مصلوب کرنے کا الزام یہودیوں کے ایک متعصب گروہ پہ رکھنے کی بجائے کرسچن آبادی پہ رکھنے والا افسانہ لکھیں گے یا انہوں نے ایسی کوئی کہانی اس وقت لکھی تھی؟
شمر لعین جیسی کہانیاں غلط طور پہ بیلنس کرنے کی پالیسی کے تحت لکھی جانے والی گمراہ کن افسانہ نگاری ہے۔یہ ایسی غلط بائنری ہے جو ملک میں شیعہ نسل کشی کے انکار کی طرف لیکر جاتی ہے۔ اور یہ پاکستان میں شیعہ کے قتل اور ان کو کمتر بنائے جانے کا بالواسطہ جواز فراہم کرنے جیسی کوشش ہے۔
ادبی نکتہ نظر سے بھی یہ ایک کمزور افسانہ ہے۔اگر آپ کے نزدیک راولپنڈی میں مدرسے و مسجد کو آگ لگانے والے تکفیری دیوبندی نہیں تھے بلکہ وہ شیعہ ہی تھے تو پھر بھی امام حسین جن کو ایک عالمی مزاحمت کا استعارہ کہا جاتا ہے اور سب ان کو اپنا کہتے ہیں سنّی بھی شیعہ بھی تو امام صرف امام بارگاہ اور شیعہ مدرسے میں ہی کیوں گئے؟ وہ سنّی مسجد اور مدرسے میں کیوں نہ گئے ؟ کیا سنّی شمر کو اپناتے ہیں؟ کیا امام کو سنّی مسلمان سے ملاقات کرتے دکھانے میں کوئی مضائقہ تھا۔اور آخر میں کیا یہ ضروری ہے کہ غلطی کے احساس پہ آپ مدرسے کو ہی آگ لگاتا دکھائیں؟ کیا یہ میلوڈراما نہیں ہے؟
پاکستان کے اندر شیعہ ، صوفی سنّی ،اعتدال پسند دیوبندی ، اہلحدیث ، لبرل ، سوشلسٹ ، قوم پرست سب ہی جہاد ازم،تکفیر ازم، مذہبی عسکریت پسندی کے ملغوبے تکفیری فاشزم کی دہشت گردی کے متاثرہ ہیں۔شیعہ کی نسل کشی ہورہی ہے۔اور اس نسل کشی کا سبب اس ملک میں شیعہ –سنّی لڑائی یا جنگ نہیں ہے۔شیعہ یا صوفی سنّی اس ملک کے لشکر جھنگوی، القاعدہ، طالبان ، جماعت احرار جیسے عسکریت پسند ونگ نہیں رکھتے۔یہ مسالک کے درمیان جنگ نہیں ہے بلکہ مٹھی بھر ایک اقلیتی تکفیری ٹولہ ہے جو یہاں بسنے والے لوگوں کی شناختوں کے سبب ان پہ حملہ آور ہے۔دیوبندی جلسے جلوس، مدرسے ، مساجد پہ نہ تو شیعہ اور نہ ہی صوفی سنّی حملہ آور ہیں اور نہ وہ خودکش بم دھماکوں کا نشانہ ہیں۔ایسے ہی دیوبندی اکثریت بھی شیعہ پہ حملہ آور نہیں ہے بلکہ ان کے اندر سے تکفیری ٹولہ حملہ آور ہے اور ریاست کے اندر بھی تزویراتی گہرائی کا مارا ایک چھوٹا سا گروہ ان کو کرائے کے قاتلوں کے طور پہ کبھی بلوچ قوم کی نسل کشی کے لئے استعمال کرتا ہے تو کبھی افغانستان کے اندر یہ استعمال ہوتے ہیں اور کبھی بھارت میں ،لیکن کیا افغان ، بھارتی ، امریکی ان کرائے کے قاتلوں کو استعمال نہیں کرتے؟ کرتے ہیں ۔ تو آپ ظالم ومظلوم میں برابری کے متلاشی ہیں۔ شیعہ کی نسل کشی ان کی مارجنلائزیشن کے انکاری ہیں اور ایسے ہی آپ صوفی سنّی آبادی کو دیوار سے لگائے جانے کے پروسس سے انکاری ہیں جس کے سبب ان کے اندر خادم رضوی جیسوں نے جنم لیا ہے۔لیکن جتنی طاقت سے خادم رضوی جیسوں پہ بولا جاتا ہے کیا اتنا زور تکفیری فاشزم کی سب سے بڑی طاقت کے خلاف صرف کیا جاتا ہے؟ یہ ہے وہ سوال جسے پوچھنے پہ مشتعل ہوا جاتا ہے۔
مبشر زیدی کہتے ہیں کہ آخر بہت سارے لوگ (جو ان کے بقول سنّی مدرسے کے لونڈے، چند شیعہ اور ایک آدھ نام نہاد کمیونسٹ ہیں) ان کے خلاف ایک ساتھ بولنا شروع ہوگئے تو ان کی کوئی اہمیت ہوگی نا۔۔۔۔ بالکل مبشر زیدی کی اہمیت ہے۔جنگ اخبار کے زریعے اور ان کے فیس بک اکاؤنٹ اور ٹوئٹر اکاؤنٹ کے زریعے ہزاروں لوگ ان کو پڑھتے ہیں۔وہ کہیں نہ کہیں رائے عامہ پہ اثرانداز ہوتے ہیں۔اسی لئے ان کے موقف کی غلطی کی نشاندہی کی جارہی ہے۔ اور لوگوں کو ان کے ‘طرز تخاطب اور ان کے لکھے جانے والے جملوں میں مبتذل الفاظ کے استعمال پہ حیرت،دکھ اور تکلیف ہوئی۔کیونکہ وہ ان سے ایسے جملوں اور الفاظ کی توقع نہیں کررہے تھے۔
مبشر زیدی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے چاہنے والوں کے اصرار کو ‘ڈکٹیشن’ سمجھ لیتے ہیں تو کبھی اپنے ابتذال پہ ہونے والی تنقید کو کسی ایجنسی کی سازش سمجھتے ہیں۔ان کو ان سب کے پیچھے ایک ہی ‘کمپنی’ نظر آتی ہے۔اور کمپنی کون سی ہے؟ مبشر زیدی صاحب کو چاہئیے اس کمپنی کا نام لیںے سے شرماتے کیوں ہیں؟ صاف بتلادیں ۔
ویسے مبشر زیدی کو میرا مشورہ ہے کہ وہ ‘شمر ، یزید ، ابن زیاد ‘ کو مظلوموں کے اندر تلاش کرنے کی بجائے ظالموں کے اندر تلاش کریں گے تو ان کو یہ اپنی پوری خون خواری کے ساتھ مل جائيں گے۔مرے ہوؤں کو اور مارنا ‘ادبی خلاقیت’ کا نمونہ نہیں ہوا کرتا۔