شیخ احمد سرہندی بھی بلاسفیمی کے الزام سے محفوظ نہیں رہے تھے – عامر حسینی

پاکستان میں کیوں کے تاریخ کا قتل بار بار ہوتا ہے۔اور ہمارے ہاں شحضیات اور ان کے افکار کو بھی اپنے مطابق ڈھال لینے کی روایت بہت پختہ ہے تو کسی شحضیت کو اس کی تاریخ میں موجود شخصیت سے ہٹ کر دکھائے جانے کی روش جب سامنے آتی ہے تو اس پہ چنداں حیرت نہیں ہوتی۔شیخ احمد سرہندی کو کالونیل دور اور پھر پاکستان بننے کے بعد اپنے خیالات اور افکار کے مطابق ڈھالنے کی کوششیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔پاکستان میں مذہبی جنونیوں نے جب اپنی جنونیت اور تکفیریت پہ مبنی غیر انسانی حرکات کا جواز تلاش کرنا ہو تو وہ جہاں اسلام اور خود جس مسلک سے وابستہ ہونے کے دعوے دار ہوتے ہیں ان پہ ظلم ڈھاتے ہی ہیں لیکن وہ بہت جوش و خروش سے شیخ احمد سرہندی کی ذات پہ بھی ظلم ڈھانے سے باز نہیں آتے۔میں ان کے بارے میں یوحنان فرائیڈمان کی لکھی ایک بہت شاندار کتاب کا ترجمہ کررہا ہوں اور اس دوران مجھے بہت سی اور چیزوں کو پڑھنے کا موقعہ ملا۔اس دوران ایک بڑی حقیقت یہ سامنے آئی:

شیخ احمد سرہندی جب تصوف سے وابستہ ہوئے اور انھوں نے نقشبندی سلسلے میں خواجہ باقی باللہ سے بیعت کرلی تو شیخ احمد سرہندی کے مزاج میں صلح کلیت اور وسیع المشرب ہونے کا رجحان نظر آیا۔ اس دوران انھوں نے جن باطنی مراحل کو طے کیا تو انہوں نے اپنے روحانیت میں مقام بارے بہت سارے دعوے کئے۔یہ دعوے جب سامنے آئے تو ان کی زندگی میں ہی بہت سارے لوگوں نے جن میں علماء اور کئی ایک صوفی بھی شامل تھے ان پہ توہین مذہب ، توہین صحابہ اور یہاں تک کہ ان پہ توہین رسالت تک کا الزام بھی عائد کردیا۔ان الزامات کی گونج مغل دربار تک سنی گئی۔شیخ احمد سرہندی کی زندگی کے آخری ایام میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے ایک خط شیخ احمد سرہندی کو لکھا۔اس خط کے جواب میں شیخ احمد سرہندی نے بھی ایک مفصل خط لکھا جو کہ مکتوبات کی جلد سوم میں مکتوب نمبر 121 ہے۔جبکہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی کا مکتوب معارج ولایت کے اندر موجود ہے جس کی عکسی نقل خلیق انجم نے اپنی کتاب ‘حیات شیخ عبدالحق محدث دہلوی’ میں دی ہے۔

ہمارے ہاں الیکٹرانک میڈیا چینلز اور سوشل میڈیا پہ بحث و مباحثہ کے دوران کسی بھی شخص کے منہ سے نکلے بعض کلمات کو لیکر جس طرح سے توہین ،توہین کا شور مچادیا جاتا ہے اور جیسے سلمان تاثیر ، مشال ، یوسف اور دیگر کئی لوگوں کے ساتھ ہوا اور پھر ہم نے دیکھا کہ خود ہر ایک مسلک کے کئی نامی گرامی مذہبی سکالرز ، ایسے ہی جامعات کے لیکچرار اور دیگر لوگوں کے خلاف توہین کا شور مچایا جاتا رہا ہے۔اس سے فضا بہت مکدر ہوگئی ہے۔ایسے میں راہ اعتدال واضح کرنے کی اشد ضرورت بنتی ہے۔

شیخ احمد سرہندی کی وفات کے بعد عالمگیر کے زمانے میں 16ویں صدی عیسوی میں عالمگیر نے ایک فتوی مکتوبات کی عبارت بارے اس وقت کے چیف جسٹس کو جاری کرنے کو کہا جس نے مکتوبات کے کئی حصوں پہ پابندی عائد کردی۔اورنگ آباد میں اس وقت کے علماء نے ایک متفقہ فتوی دیا اور انہوں نے حجاز کے علماء سے بھی فتوی مانگا جس پہ ایک شافعی قاضی محمد بن رسول برزنجی ‘قدح الزند’ کے نام سے فتوی جاری کیا جسے اس وقت کے ‏حجاز میں ‏عثمانی ترک کے مقرر کردہ گورنر نے اپنے خط کے ساتھ اورنگ زیب کو ارسال کیا تھا۔اس سارے عمل کی مزاحمت ہمیں نقشبندی سلسلے کے اس وقت کے مشائخ کی جانب سے ملتی ہے۔

اس طرح، سرہندی اپنے سے پہلے صوفیاء کے حالت جذب و سکر میں کہے گئے کلمات پہ خود کو تنقید کرنے سے دور رکھتے ہیں، اگرچہ وہ ان کے ناقص ہونے کے قائل ہیں۔ان کا رہنما اصول اپنی برادری (صوفیاء) پہ تنقید اور تقسیم سے خود کو روک لینا ہے۔یہ رویہ سرہندی کے نقشبندی سلسلہ میں شمولیت سے پہلے کے دنوں اور اس وقت جب انہوں نے فلاسفہ کے رد میں ‘اثبات نبوت’ اور شیعہ کے رد میں ‘رد روافض’ رسالے لکھے تھے کے وقت سے مختلف ہے۔

ان کا صوفیاء کی جانب قدرے وسیع المشرب رویہ اپنے کامل اظہار اس وقت پاتا ہے جب ان کو خود اپنے آپ کا ان نقادوں کے خلاف کرنا پڑتا ہے جو ان کی اپنے حالت سکر میں کہی باتوں پہ سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔مکتوبات کی تیسری جلد میں مکتوب نمبر 121 کے آخر میں، جو کہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی شیخ احمد سرہندی کے روحانی مرتبے میں سب سے آگے بڑھ جانے کے دعوؤں کی تنقید پہ مشتمل ہے کے جواب میں کہتے ہیں :

” اس قسم کی باتیں جو اسرار کے اظہار پہ مبنی ہیں ہمیشہ سے مشائخ سے سرزد ہوتی ہیں۔۔۔۔۔کیا یہ کوئی نیا امر ہے جو فقیر نے شروع کیا ہے؟اس طرح کا بیان جس کے ظاہری معنی علوم شریعہ کے مطابق نہ ہوں ان کو ان کے ظاہری معانی سے پھیر دینا چاہئیے۔اور ان کا مفہوم بمطابق شریعت لینا چاہئیے۔کسی کو ایک مسلمان کے خلاف ایسے الزامات نہیں لگانے چاہیں۔جب شریعت میں ایک فاحشہ کو رسوا کرنا اور گناہ گار و فاسق کو خوار کرنا حرام و ممنوع ہے تو ایک مسلمان کو محض شبے اور شک کی بنا پہ قصوار ٹھہرانا کس طرح سے درست ہوسکتا ہے۔اور بغیر ٹھوس ثبوت کے شہر شہر اس کی منادی کرنا کون سی دینداری ہے۔مسلمانی اور مہربانی کا راستا یہ ہے کہ اگر کسی سے ایسی بات کا صدور ہو جو بظاہر علوم شرعیہ کے خلاف ہو تو دیکھنا یہ چاہئیے کہ اس کا کہنے والا کون ہے؟ اگر وہ ملحد و ذندیق ہو تو اسے رد کردینا چاہئیے۔اور اس کی اصلاح میں کوشش نہیں کرنی چاہئیے۔اگر اس بات کا کہنے والا مسلمان ہو،خدا و رسول پہ ایمان رکھتا ہو تو اس کی اصلاح کی کوشش ہونی چاہئیے۔یا اس کا ٹھیک محمل (یعنی ایسا معنی جس سے اس کا ظاہر بمطابق شریعت ہوجائے) تلاش کرنا چاہئیے یا کہنے والے سے اس کا حل طلب کرنا چاہئیے۔اگر وہ اس کے حل میں عاجز ہو تو اسے نصحیت کرنی چاہئیے۔اور نرمی کے ساتھ نیکی کا حکم اور برائی سے منع کرنا چاہئیے۔کیونکہ یہ ہی بات جائز اور قبولیت کے نزدیک ہے۔اور مقصود اگر قبولیت نہ ہو بلکہ اگر خوار کرنا ہی مطلوب ہو تو اور بات ہے۔اللہ توفیق دے۔”

اس خط کے ان مندرجات کو پڑھنے کے بعد مذہبی جنونیت اور تکفیریت کے علمبرداروں کی شیخ احمد سرہندی سے محبت و وابستگی کے دعوؤں کا پول بھی کھل جاتا ہے۔

Comments

comments