لہو میں ڈوبا دیرہ پھُلاں دا سہرا ( تیسرا حصّہ) – حیدر جاوید سید
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی ترجیحات کیا ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ ہفتہ 20جنوری کی شام ڈیرہ اسماعیل خان میں ’’ نامعلوم ‘‘ موٹر سائیکل سواروں کی اندھا دھند فائرنگ سے 18سالہ نوجوان حسن علی شاہ شدید زخمی ہوگیا فائرنگ سے اس کے دونوں گردے بُری طرح متاثر ہوئے ابتدائی علاج کے دوران ہی ڈاکٹروں نے ایک گردہ نکال دیا دوسرا گردہ نصف سے زیادہ بیکار ہو چکا تھا سینے اور پیٹ میں لگنے والی گولیوں کے گھاؤ بہت گہرے تھے اتوار کے روز ڈی آئی خان ہسپتال کے ڈاکٹرز نے اسے اسلام آباد کے لئے ریفر کردیا ۔زخمی نوجوان کو اسلام آباد لیجایا جا رہا تھا کہ تلہ گنگ کے قریب وہ اپنے خالق حقیقی سے ملاقات کے لئے روانہ ہوگیا۔
حسن علی کے والدبھی دہشت گردی کے متاثرہ ہیں اس کا ایک بھائی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ کر طویل عرصے سے بستر پر ہے حسن کے دو سگے ماموں اور درجن پھر دوسرے قریبی رشتہ دار ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کا رزق بن چکے۔ حسن علی اور اس کے متاثرہ خاندان کی مظلومیت بھری داستان کے لئے ہمارے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے پاس جگہ ہے نا وقت۔ چند سطری خبر اور فرض ادا۔
بے سروسامانی ۔مظلومانا شہادتیں اور بین یہ صرف حسن علی کے خاندان کا المیہ نہیں۔ دیرہ میں مجھ سے متعددلوگوں نے سوال کیا۔ آپ کا میڈیا ہمارے بچوں کے قتل پر مجرمانہ خاموشی کا مظاہرہ کیوں کرتا ہے۔ کیا ہم اس ملک اور صوبے کے شہری نہیں؟۔ سوال میں چھپی تلخی اور درد عجیب اس لئے محسوس نہیں ہوئے کہ میڈیا جن امتیازات کا شکار ہے ایک عامل صحافی کی حثیت سے اُن کا تلخ تجربہ ہے۔ خود میں ذاتی طور پر وہ چند برس تنہائی اور بیروزگاری میں بسر کر چکا ہوں جب کالعدم ٹی ٹی پی کے امیر ملا فضل اللّہ کے حکم پر مجھے اس ادارے نے ایک ٹیلیفون کال پر مزید کام کرنے سے منع کردیاجس سے 22سال سے منسلک تھا۔ کچھ عرصہ تک اِدھر اُدھر ملازمت کے لئے کوششیں کیں مگر جواب یہ ہوتا۔’’آپ کی وجہ سے ہم طالبان اور لشکر جھنگوئی سے لڑائی مول کیوں لیں۔
دیرہ میں جب لوگ میڈیا کے طرز عمل پر شکایت کرتے تو جی چاہتا تھا کہ اُن سے کہوں۔ اس صنعت کے مالکان کی ترجیحات الگ ہیں یہاں ایک معاملہ اور بھی ہے وہ یہ کہ دہشت گردی میں مصرف کچھ گروپ کبھی ریاست نے اپنی ضرورت کے لئے بنوائے تھے جیسے انجمن سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوئی۔طالبان وغیرہ 1985ء سے 2014ء کے جون سے قبل ریاست دھڑلے سے ان گروپوں کی سرپرستی کرتی رہی اور یہ درندے اپنا کھیل کھیلتے رہے اس پر ستم یہ ہوا کہ شیعہ و صوفی سنی مسلمانوں کی تکفیر اور دیگر مذہبی برادریوں پر حملوں کو مختلف رنگ دیا جاتا رہا ۔
شیعہ قتل ہوتے تو سعودی ایرانی پراکسی وار کا چورن فروخت ہوتا مگر جب افغانستان میں طالبان حکمران تھے اوران کے ہم خیال پاکستان میں مخالف مسالک اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو نشانہ بناتے تو اس وقت کسی نے نہیں کہا کہ یہ دیو بندی افغانستان کی پراکسی وار ہے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ 9/11 اور پھر آپریشن ضرب عضب کے بعد پھلی پھولتی دہشت گردی کو ہم کیا نام دیں عجیب و غریب کہانیاں ہیں کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ ریاست اور دہشت گردوں کے درمیان خاموش معاہدہ ہے۔ دہشت گرد حساس مقامات پر حملے نہیں کریں گے۔
ہمارے سامنے پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کی وہ تقریر بھی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ طالبان اور ہماری فکر ایک ہے اس لئے طالبان کو پنجاب میں کارروائیاں نہیں کرنی چاہیں۔ قیام ڈیرہ اسماعیل خان کے دوران بہت سارے لوگوں سے تبادلہ خیال اور سوال و جواب کی نشستوں کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ڈیرہ میں مذہبی انتہا پسندی ایک سازش کے تحت پروان چڑھائی گئی۔ مثال کے طور پر 1990ء سے 2001ء کے درمیانی دور میں جب دہشت گردوں نے اس شہر کا چہرہ سمجھے جانے والے خورشید انور ایڈووکیٹ معظم شاہ، رجب علی شاہ، پروفیسر لیاقت عمرانی، پولیس انسپکٹر قمر قتل ہوئے تو شہریوں میں بلا امتیاز شدید اشتعال تھا۔ انہی سالوں میں ڈیرہ پولیس کا یہ دعویٰ سامنے آیا کہ اس نے بلوٹ(تاریخی اعتبارسے یہ شیعہ اور صوفی سنیوں کے لئے اور بالخصوص سادات کے لئے قابل احترام مقام ہے اس میں نقوی البھاکری سادات کے بزرگوں کے مزارات ہیں۔) شیعہ گوریلا ٹرینگ کیمپ پکڑا گیاہے۔
گرفتار شدگان اور دعویٰ کے مطابق برآمد بھاری اسلحہ کہاں گیا؟سوال ہوا نہ کسی نے دیکھایا۔اسی عرصہ میں شمیم نادر نامی شخص کو ڈیرہ کے ایس ایس پی اعجازلنگڑیال کے قتل کا مبینہ ذمہ دار قرار دیا گیا۔پھر یہاں ایس ایس پی عارف نواز تیعنات ہوئے یہ موصوف آجکل پنجاب کے آئی جی پولیس ہیں۔ عارف نواز کی تحقیقات میں اعجاز لنگڑیال کے قتل میں شیعہ پولیس افسروں کو مشکوک قرار دیا گیا۔ یہ سارے شیعہ پولیس افسر اور لنگڑیال کے قتل کا مبینہ سرپرست شمیم نادر ایک ایک کرکے قتل کردیئے گئے۔ شیعہ پولیس افسروں اور ان کے ہمدردوں کے قتل کے لئے سپاہ صحابہ سے تعلق رکھنے والے شوٹروں، عبدالرؤف بلوچ، عالم گنڈہ پور اور اسلم کی خدمات حاصل کی گئیں اطلاعات یہ تھیں کہ ایس ایس پی عارف نواز نہ صرف خود اس مشن کی نگرانی کرتے تھے بلکہ شوٹروں کو ہدف بھی وہی بتاتے۔
پولیس کی سرپرستی میں سپاہ صحابہ کی شوٹر ٹیم کا راز کھلا تو ایس ایس پی عارف نواز نے ایک ماتحت کے ذریعے بُگی شاہ نامی شخص کی سربراہی میں شیعہ گروپ بنوا کر یہ تاثر دیا کہ شیعہ اور سپاہ صحابہ والے ایک دوسرے کے لوگوں کو قتل کر رہے ہیں۔ اس وقت کی حکومت نے اگر شیعہ برادری کے مطالبہ پر جوڈیشل کمیشن کے ذریعے تحقیقات کروالی ہوتی تو نہ صرف عارف نواز کا گھناؤنا کردار عیاں ہو جاتا بلکہ ڈیرہ کے شہری بھی جان لیتے کہ ان کے ساتھ ہونے والے ظلم کا اصلمجرم کون ہے۔ لنگڑیال کیس اور اس کے بعد کے واقعات ایک مثال کے طور پر عرض کئے ہیں۔
ایسی درجنوں مثالیں موجود ہیں لکھنے کا فائدہ اس لئے نہیں کہ فی الوقت ریاست کا کوئی ادارہ غیر جانبدار نہیں ہے۔قانون کی حکمرانی ہوتی تو محض بندے پورے کرنے کے لئے شیعہ اور صوفی سنی برادریوں کے نوجوان غائب نہ کئے جاتے یہ شکایات بھی ہیں کہ اگر اغوا کئے جانے والے نوجوانوں کے خاندانوں کے ذمہ داران سود ے بازی کرلیں تو معمولی سا مقدمہ بنا کر بندہ جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ مکرر عرض کروں گا ڈیرہ مکمل طور پر بے اماں شہر ہے اس کا کوئی والی وارث نہیں 2008ء میں لوگوں نے فیصل کریم کنڈی کو پھر 2013ء میں پی ٹی آئی کو ووٹ دیئے مگر دونوں ادوار میں دہشت گردی کا سلسلہ جاری رہا وہ اب بھی جاری ہے سوال یہ ہے کہ اسے روکے گا کون؟یہ کسی کو معلوم نہیں۔ (جاری ہے)