لہو میں ڈوبا دیرہ پھُلاں دا سہرا ( دوسرا حصّہ) – حیدر جاوید سید
اپنی تاریخی تہذیبی ثقافتی اور جدا لسانی شناخت کے حامل ڈیرہ اسماعیل خان کے مسائل انگنت ہیں۔ اہم ترین مسئلہ تو یہی ہے کہ سرائیکی بولنے والی شیعہ اور صوفی سُنی آبادی کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا عام شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ کے چند واقعات کے درمیان دہشت گرد شہر میں امن و امان بحال رکھنے کے لئے فرائض ادا کرتے پولیس اہلکاروں کو بھی نشانہ بنا جاتے ہیں۔ متعدد پولیس اہلکار دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔
دہشت گردی کے ہر واقعہ کے بعد چند مذمتی بیان اور وعدوں تسلیوں سے بات آگے نہیں بڑھتی۔ڈیرہ میں سرائیکی بولنے والی شیعہ آبادی کا شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جس سے پچھلے دو عشروں کے دوران ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کا شکار ہوئے مقتول کا جنازہ نہ اُٹھا ہو۔ اس شہر نے وہ بھیانک دن بھی دیکھے جب ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہونے والے مقتول کے ورثا میت لینے ہسپتال میں جمع ہوئے تو خود کش بمبار ان کے درمیان پھٹ گیا یا کسی مقتول کے جنازہ پر خود کش حملہ ہوگیا ایک بار تو یہ المیہ بھی ہوا کہ ایک طرف سے دو خود کش بمباروں نے جنازے پر حملہ کیا دوسری طرف سے فرنٹئیر کانسٹیبلری نے فائرنگ کردی اس دو طرفہ اقدام سے درجنوں لوگ موت کا رزق بن گئے۔ ڈیرہ کے بعض گھر تو ایسے بھی ہیں جہاں سے دو یا اس سے زیادہ اُن افراد کے جنازے اُٹھے جو دہشت گردی کا شکار ہوئے۔
کوٹلہ سیدان اور کوٹلی امام حسینؑ کے قبرستانوں کے علاوہ بھی چند مقامات پر دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے بچوں، نوجوانوں اور بزرگوں کے ساتھ متعدد خواتین کی قبریں بنی ہوئی ہیں۔ گنج شہیداں کہلانے والے قبرستانوں کے ان گوشوں میں قبروں کی تعداد بڑھ رہی ہے پرافسوس کہ ملکی میڈیا کا ایک ادارہ بھی ایسا نہیں کہ جس نے اس مظلوم و بے اماں شہر کے حق میں آواز بلند کی ہو یا کوئی ایک آدھ ایسا پروگرام جس سے باقی ماندہ ملک کے لوگ ڈیرہ اسماعیل خان کے لوگوں کی مظلومیت سے آگاہ ہوسکتے۔
سچ یہ ہے کہ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کی ترجیحات مختلف ہیں کمرشل ازم کا دور دورہ ہے اس لئے صرف مخصوص موضوعات پر بات ہوتی اور اسی پر طوفان اٹھائے جاتے ہیں گو بعض مواقع پر سوشل میڈیا کی مختلف سائٹس نے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کو رویہ تبدیل کرنے پر مجبور کیا لیکن ڈیرہ اسماعیل خان کو سوشل میڈیا نے بھی نظر انداز کیا۔ اس شہر بے اماں (ڈیرہ اسماعیل خان) کے ایک صاحب علم کا کہنا تھا کہ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ مرنے والوں کی لسانی اور مذہبی عقیدوں والی شناخت انہیں انسانی دائرے سے باہر نہیں نکال دیتی۔ مر تو انسان ہی رہے ہیں ۔
ہمارے شہر کے قبرستانوں میں گنج شہدا کہلانے والے مخصوص حصوں میں آئے روز بنتی نئی قبرانسان کی ہی ہوتی ہے ڈیرہ سے باہر کے پاکستان والے کب ہمیں انسان اور بھائی سمجھ کر ہمارے لئے آواز بلند کریں گے؟۔ اس سوال کا میرے پاس تو کوئی جواب نہیں تھا سوایسے کسی بھی سوال سے بچ کر موضوع بدلنے کا جرم تو نہیں کیا لیکن یہ ضرور دریافت کیا کہ کیا تبدیل شدہ پختونخوا میں بھی آپ بے اماں ہیں؟۔ترنت جواب یہ ملا کہ یہ صوبائی حکومت بھی پچھلی صوبائی حکومتوں کی طرح ہمیں (ڈیرہ کے سرائیکی بولنے والوں)مساوی شہری نہیں سمجھتی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ شہر کے اکثر ملاقاتی مولانا فضل الرحمن کو اپنی بربادیوں کے ذمہ داروں میں شامل سمجھتے ہیں مگر ایم ڈبلیو ایم کے صوبائی سیکرٹری سیاسی امور کی اہلیہ محترمہ جے یو آئی کے کوٹے پر ضلع کونسل کی رکن ہے۔ شیعہ سیاسی جماعتوں کے عمومی کردار پر جس سے بھی سوال کیا وہ پھٹ ہی پڑا۔ لوگوں کی اکثریت شیعہ علماء کونسل اور ایم ڈبلیو ایم کے کردار سے شاکی دیکھائی دی۔ ان کا خیال تھا کہ ان دونوں تنظیموں کو اپنی زندگی کے لئے شیعوں کی لاشیں ضرورت ہوتی ہیں جو چند دنوں کے وقفوں سے انہیں مل جاتی ہے اور وہ جنازوں پر دوڑی چلی آتی ہیں ان کے رہنما ہر سانحہ کے بعد جذباتی تقریریں کرتے ہیں اور پھر اگلے سانحہ تک غائب ہوجاتے ہیں۔
کوٹلی امام حسینؑ کے قبرستان میں واقع گنج شہیداں والے حصہ میں گفتگو کرتے ہوئے نوجوانوں کے ایک گروپ نے کہا۔ ہمارے مولویوں کی اکثریت ہماری لاشوں کو کاروبار بنائے ہوئے ہے۔ رنج سے بھرے ایک نوجوان نے کہا ’’شاہ جی! ایک بار کسی نے ایک قائد سے ڈیرہ کے حوالے سے ان کی حکمت عملی دریافت کی تو وہ غصے سے تڑخ کر بولے۔ ’’ یہ میں ہی ہوں جس کی وجہ سے شیعہ ڈیرہ شہر میں رہ رہے ہیں میں نہ ہوتا تو کب کے ہجرت کر گئے ہوتے ‘‘۔ آپ بتائیں انہوں نے اور ان کی جماعت نے ہمارے لئے کیا کیا۔ ایم ایم اے کے دور میں جب رمضان توقیر صوبائی مشیر رہے تو انہوں نے کتنے نوجوانوں کو ملازمتیں دلوائیں؟۔ ہاں ہم بتا سکتے ہیں کہ انہوں رمضان تو قیر نے خود ترقی کی ایک سائیکل رکھنے والا مولوی آج کروڑ پتی ہے یہ دولت کہاں سے آئی۔ کیا ہم یہ سمجھیں کہ یہ ہمارے پیاروں کے خون کی سوداگری سے کمائی گئی؟۔
شیعہ علماء کونسل کے مولانا رمضان توقیر ایک ذات ہیں اور کہانیاں بے حساب ہیں وہ ان دنوں جس مدرسہ پر قابض ہیں کبھی اس مدرسہ، جامعہ باب النجف کوٹلی امام حسینؑ میں عام مدرس تھے یہ درسگاہ مرحوم مولانا محمد افضل رکنوی نے تعمیر کی وہ ایک بڑے زمیندار تھے اپنی وفات سے قبل انہوں نے جامعہ کے قیام اور اسے قائم رکھنے کے 80لاکھ روپے کا قرضہ اتارنے کے لئے ذاتی اراضی فروخت کردی۔ آج ان کے دو بیٹے شہر میں موٹر سائیکل رکشہ چلاتے ہیں اور ایک عام پیش نماز و مدرس رمضان توقیر کروڑ پتی ہے۔
المیہ یہ ہے کہ مدرسہ جامعہ باب النجف کے بانی مولانا محمد افضل رکنویؒ کے صاحبزادوں کا مدرسہ میں داخلہ بند ہے۔ ان دنوں رمضان توقیر علی امین گنڈا پور کے توسط سے وزیراعلیٰ سے درخواست گزار ہیں کہ جامعہ باب النجف کی 30 کنال اراضی کا انتقال ان یعنی رمضان توقیر کے نام کردیا جائے ’’ جامعہ باب النجف ‘‘ کوٹلی امام حسینؑ کے قبر ستان کے لئے وقف اس 327کنال 9مرلے میں سے 30کنال پر قائم ہے۔ 327کنال 9مرلے کی یہ اراضی 1837ء میں ایک ہندو خاندان نے حضرت امام حسینؑ سے اپنی عقیدت کی بنا پر وقف امام حسینؑ کی تھی وقف کی یہ اراضی ان دنوں لُٹ دا مال بنی ہوئی ہے۔ فی الوقت 50کنال پر قبرستان اور زیارات قائم ہیں۔
کوٹلی امام حسینؑ کے فرنٹ پر موجود ڈیرہ بنوں روڈ کا ایک بڑا حصہ وقف اراضی پر تعمیر ہوا۔ بہر طور اس وقف اراضی کی ایک اپنی الگ آنسو رولانے والی داستان ہے شہر کی قیمتی ترین اراضی پر شکروں اور جگاڑیوں کی نگاہ ہے کیوں نہ ہواس سے ملحقہ زمین کے 13کنال رقبے کا مالک11ارب روپے قمیت مانگ رہا ہے لالچیوں کے لالچ کی وجہ یہی ہے۔