لبرل اشراف مقدس گائے نہيں ہیں – عامر حسینی
زھرا صابری نے پاکستان کے (نیو) لبرل (پوسٹ مادرنسٹ) اشرافیہ کی طاقت اور اثر بارے اپنے بلاگ میں جن حقائق کی جانب اشارہ کیا تھا،اس بارے میں لبرل سیکشن کی جانب سے ردعمل آنا شروع ہوگیا ہے۔یہ ردعمل زیادہ تر انگریزی میں آرہا ہے تو حسب معمول پاکستان میں اردو پڑھنے والی اکثریت اس ردعمل سے ویسے ہی بے خبر ہے جیسے وہ پاکستان کے اکثر لبرل اشرافیہ کی کہی باتوں سے بے خبر رہتی ہے۔
جب اردو پریس اور سوشل میڈیا میں بنیاد پرست اور مذہبی رجعت پرست ان کی کہی باتوں کو مسخ کرتے ہیں تو پھر یہ شور مچاتے ہیں کہ دیکھو ہمارے ساتھ کیا ہورہا ہے؟
اور یہ شور بھی انگریزی میں مچاتے ہیں تاکہ انٹرنیشنل میڈیا پہ ان کو کوریج ملے۔یہ اشرافیہ پاکستان کی اردو اور دیگر زبانیں بولنے والی اکثریت کو اپنا مدعا سمجھانے میں کتنا سنجیدہ ہے،اس کا اندازہ ان کی اسی روش سے لگایا جاسکتا ہے۔جیسے حال ہی میں جبران ناصر کے خلاف بول ٹی وی چینل پہ چلی ایک مذموم مہم پہ اکٹر سوشل میڈیا ردعمل کا انگریزی میں سامنے آنا ہے۔
شایان راجنی جوکہ ہاورڈ سے وژیول انوائرمنٹ میں گریجویشن کئے ہوئے ہیں اور ہسٹری میں ان کی پی ایچ ڈی ٹفٹس یونیورسٹی امریکہ سے چل رہی ہے اور یہ آئی بی اے انسٹی ٹیوٹ سے بھی منسلک رہے ہیں۔
آن لائن سرچ بتاتی ہے کہ یہ ایسے لبرل ہیں جو نیولبرل ازم کے مخالف ہیں اور ان کا ملٹی نیشنل کمپنیوں کے خلاف خاصا ریڈیکل موقف نظر آتا ہے۔ ان کے نزدیک پاکستانی لبرل اور لیفٹ کا کیمپس میں مقابلہ مذہبی قوتوں سے کہیں زیادہ ریاست سے ہے اور ریاست کا نادیدہ ہاتھ یونیورسٹیوں اور میڈیا میں لبرل اور لیفٹسٹ کو متشددانہ طریقے سے دبانے میں مصروف نظر آتا ہے۔
لیکن یہاں سوال یہ جنم لیتا ہے کہ کیا پاکستان کی میڈیا اور تعلیمی اداروں میں بیٹھی لبرل اشرافیہ کی اکثریت جو اس وقت میڈیا کے مین سٹریم اور سوشل میڈیا کے غالب مین سٹریم لبرل بیانیہ پہ کنٹرول رکھتی ہے کیا شایان راجنی سے متفق ہے۔کیا وہ واقعی سمجھتی ہے کہ بائنری لبرل/لیفٹ بمقابلہ ریاست ہے؟
یہاں دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کی لبرل بورژوازی/سرمایہ دار کے حامی دانشور ،صحافی ریاست کے بارے میں کیا موقف رکھتے ہیں؟
کیا آج تک انھوں نے عوام کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ جب وہ سیکولر ریاست کی بات کرتے ہیں تو اس سیکولر لبرل ریاست کا طبقاتی کردار کیا ہے؟ اور اسے کیا ہونا چاہئیے؟
کیا وہ اس سوال کو زیر بحث لاتے ہیں؟ کیا انھوں نے آج تک پاکستان میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے معشیت، سوشل سروسز سیکٹرز جیسے ہیلتھ اور ایجوکیشن ہیں ان کے حوالے سے اختیار کی جانے والی حکومتی پالیسیوں پہ اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے؟ آخر وہ کس بنیاد پہ نواز شریف جیسے لیڈروں کو اینٹی اسٹبلشمنٹ،اینٹی سٹیٹس کو بتاکر عوام کو ان کی سپورٹ کرنے کو کہتے ہیں؟
شایان اپنے تنقیدی تجزیہ میں کہتے ہیں:
زہرا صابری کے آرٹیکل کو پڑھتے ہوئے، آپ یہ سوچ سکتے ہیں کہ یونیورسٹی کیمپسز میں ترقی پسند پروفیسرز بھرے پڑے ہیں اور وہ انقلابی طلباء کی فوج تیار کرنے کے لئے اوور ٹائم لگارہے ہیں۔لیکن مجھے تو لمز اور حبیب یونیورسٹیز کو چھوڑ کر لبرل اور پروگریسو پروفیسرز کہیں بھرے نظر نہیں آتے۔ہرجگہ ترقی پسند پروفیسرز چند ہیں اور کیمپسز ان کے لیے جارحانہ جگہیں ہیں جہاں پہ ان کو تنہائی کا سامنا ہے۔
میرے خیال میں یہاں شایان خود مبالغہ آرائی کا شکار ہوئے ہیں۔ پاکستان کی یونیورسٹیز میں عام لبرل اور روشن خیال سوچ کے پروفیسرز، لیکچرار، وزیٹنگ لیکچرار اور ان کے زیر اثر طلباء و طالبات کی تعداد نہ تو کم ہے اور نہ ہی ان کا اثر اسقدر کم ہے کہ ہم یہ کہیں کہ یونیورسٹی کیمپسز کا ماحول ان کے لئے جارحانہ ہے یا ان کو کیمپسز میں تنہائی کا سامنا ہے۔
بہاءالدین زکریا یونیورسٹی،پنجاب یونیورسٹی ، قائداعظم یونیورسٹی ، پشاور یونیورسٹی اور کراچی یونیورسٹی اور اسی طرح سندھ یونیورسٹی میں اور خود کوئٹہ یونیورسٹی ،ایسے ہی بولان میڈیکل کالج سمیت کورنمنٹ سیکٹر کی اکثر جامعات میں درجنوں شعبوں میں درجنوں لبرل سوچ کے پروفیسرز،لیکچرر، اور وزیٹنگ لیکچرر موجود ہیں اور ان کو عام لبرل اور روشن خیال نظریات رکھنے پہ یونیورسٹی کی ایڈمنسٹریشن کی طرف سے کسی بڑے جبر کا سامنا نہیں ہے۔
اکثر جامعات میں لبرل سرگرمیوں پہ مذہبی حلقوں خاص طور پہ جماعت اسلامی کی لابی کی جانب سے مزاحمت ہوتی ہے اور اکثر وبیشتر وی سی صاحبان اور یونیورسٹی ایڈمنسٹریشن جماعت کی لابی سے ٹکراؤ میں آجاتی ہے۔اور یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ قدامت پرست قوتوں کے دباؤ میں یونیورسٹی ایڈمنسٹریشن آکر رجعت پسندانہ اقدامات اٹھاتی ہے جس کی خود کیمپسز کے اندر فیکلٹی اور طلباء کی جانب سے مزاحمت ہوتی ہے اور جہاں یہ مزاحمت تیز ہو وہاں پہ ایڈمنسٹریشن خود قدامت پرستوں کے دباؤ سے نکلنے میں سکون محسوس کرتی ہے۔
ہاں اگر شایان یہ کہتے کہ یونیورسٹی کیمپسز میں ایسے پروفیسرز اور ایسے لیکچررز اور ایسے طالب علموں کو ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ایک طرف تو یونیورسٹی ایڈمنسٹریشن کی بدعنوانیوں،پرائیوٹائزیشن پہ مبنی سرکاری کی پالیسیوں اور یونیورسٹی کے اندر تعیناتیوں اور ایچ ای سی کی مالیاتی اور ایجوکیشنل پالیسیوں کو نشانہ بناتے ہیں،دوسراایسے لوگ ریاست کے ڈویلمپنٹ ماڈل اور اس کی ایجوکیشن، ہیلتھ، انفراسٹرکچر کی تعمیر، اربنائزیشن کے پروسس کو نیو کالونیل،سامراجیت،نیولبرل پروسس کا نام دیتے ہیں ۔
اور وہ اسے پاکستان کے اندر مذہبی و نسلی گروہوں پہ جبر وستم اور ان کو مسلسل دبانے کا اقدام قرار دیتے ہیں اور ایسے پاکستانی ریاست کی جانب سے جہادی/تکفیری پراکسیز بنانے اور آج کے سب سے ہاٹ ایشو بلوچ نسل کشی اور ایسے ہی شیعہ نسل کشی کو زیر بحث لاتے ہیں۔جبری گمشدگیوں پہ سوال اٹھاتے ہیں اور ایسے ہی سی پیک اور کراچی میں مہاجر سیاست بارے پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کے ڈیزائن وغیرہ پہ سوال اٹھاتے ہیں۔ایسے عناصر کو ریاستی جبر اور تشدد اور ڈرائے جانے، دھمکائے جانے کا بھی سامنا ہے اور ایسے پروفیسرز، لیکچرز اور طالب علم پاکستان کی جامعات اور مین سٹریم میڈیا میں واقعی بہت کم ہیں۔
شایان نے ڈاکٹر ریاض احمد کا حوالہ دیا جو کہ انقلابی مارکسسٹ ہیں۔اور وہ کراچی یونیورسٹی میں ان درجنوں پروفیسرز،لیکچررز سے بہت ہی مختلف اور انقلابی ریڈیکل موقف اور ایکٹوازم کے ساتھ کھڑے ہیں جو اپنے آپ کو ترقی پسند، بائیں بازو ی روایت سے جڑا اور روشن خیال،لبرل ازم کا علمبردار بتلاتے ہیں لیکن یہ سب حقیقت میں مصلحت پسندی کا شکار ہیں۔میں ڈاکٹر ریاض کا کسی سے موازانہ کرنا نہیں چاہتا۔ لیکن کیا ہم حال ہی میں ریٹائر ہوئے ڈاکٹر جعفر احمد، اور ابلاغیات میں بیٹھے ڈاکٹر توصیف احمد خان اور دیگر کو اس صف میں کھڑا کرسکتے ہیں جس صف میں اکیلے ڈاکٹر ریاض احمد کھڑے ہیں۔
سندھ یونیورسٹی میں ایک لبرل،لیفٹ، نیشنلسٹ ترقی پسندی امر سندھو، ڈاکٹر عرفانہ ملاح، پروفیسر شفقت قادری وغیرہ کی ہے اور ایسا ایک رجحان جامی چانڈیو وغیرہ کا ہے۔اول الذکر رجحان اپنے ریڈیکل اور انقلابی رویوں کی وجہ سے ریاستی دباؤ میں آتا ہے۔لیکن پھر بھی ریاست اور یونیورسٹی ایڈمنسٹریشن ان پہ اس طرح سے حملہ آور نہیں ہوتی جیسے یہ آزادی پسند سندھی قوم پرست طلباء اور دانشوروں پہ ہوتی ہے جن کا داخلہ سندھ یونیورسٹی سمیت سندھ کے اگٹر تعلیمی اداروں میں ویسے ہی بند ہے۔اگر ٹھیک طرح سے اور زبردست ریاستی تشدد اور جبر کا شکار کوئی گروپ سندھ میں ہے تو وہ سی پیک ، بلوچ نسل کشی سمیت دیگر سلگتے ایشوز پہ انقلابی اور مزاحمتی موقف اپنانے والے سندھی دانشور اور سیاسی و سماجی ایکٹوسٹ ہیں۔
جہاں تک بلاگرز میں پروفیسر سلمان حیدر، احمد وقاص گورایا اور عاصم سعید کا تعلق ہے تو یہ بھی استثنائی کیسز ہیں۔اور ہم نے یہ دیکھا کہ پاکستان کے لبرل اشرافیہ نے جتنا شور اور جتنی منظم کمپئن سلمان حیدر کی بازیابی کے لئے چلائی اتنی منظم کمپئن اور مہم شیعہ بلآگر ثمر عباس کے لئے نہیں چلائی بلکہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ پاکستان کی مین سٹریم اشراف لبرل سول سوسائٹی اور اشراف مین سٹریم لبرل جتنی تندہی سے مہم لاہور سے جبری گمشدہ ہونے والے احمد رضا کے لئے چلارہے ہیں اتنی تندہی ان کے ہاں شیعہ جبری گمشدگان،بلوچ جبری گمشدگان کے لئے نہیں دکھائی گئی بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ جبری گمشدگان بارے لبرل اشراف کے ہاں اس وقت تک طاقتور آواز بلند نہ کی گئی جب تک ان کے اپنے سیکشن سے چند ایک لوگ نہ اٹھالئے گئے۔ اب بھی بلوچ، سندھی، پشتون،شیعہ اور سنّی جبری گمشدگان کے حوالے سے لبرل اشرافیہ کے مین سٹریم میں کوئی بڑی کمپئن اور ہلچل موجود نہیں ہے۔یہ جتنا اپنے ٹوئٹ ہینڈل، فیس بک اکاؤنٹ، بلاگ ویب سائٹ اور دیگر سماجی رابطے کے اکاؤنٹس اور ایسے ہی مین سٹریم میڈیا کے انگریزی پریس میں اپنے کالموں اور الیکٹرانک میڈیا میں اپنے تجزیوں میں چند ایک لبرل کے ساتھ پیش آنے والے واقعات پہ اپنے حلقہ اثر کو سین سی ٹائز کرتے ہیں اتنا سین سی ٹائز یہ دوسروں کے ساتھ ریاستی اداروں کی بدسلوکی پہ نہیں کرتے۔ بلکہ شیعہ نسل کشی اور بلوچ نسل کشی پہ تو اس لبرل اشرافیہ کے ایک بڑے سیکشن کا کردار مجرمانہ ہے،جسے نظر انداز کرنا مشکل ہے۔
لمز، کراچی یونیورسٹی اور حبیب یونیورسٹی کے اندر شایان نے بلوچستان کے حوالے سے آگاہی اور بیداری کی جس مہم کی جانب اشارہ کیا تو شایان کا فرض بنتا تھا کہ وہ یہ بتاتے کہ یہ مہم چلانے والے روح رواں ڈاکٹر تیمور کمیونسٹ مزدور کسان پارٹی کے ایک دھڑے کے سربراہ ہیں،وہ مارکسسٹ ہیں، ایسے ہی حبیب یونیورسٹی کے اندر جنھوں نے اس مہم کو آرگنائز کرنے کی کوشش کی وہ بھی حفیظ جمالی جیسے یا تو مارکسسٹ ہیں یا پھر بی ایس او کی ترقی پسند بائیں بازو کی قوم پرستانہ روایت سے تعلق رکھتے ہیں۔ان دونوں یونیورسٹیوں میں لبرل اور پروگریسو کی بڑی تعداد تو ان ریڈیکل انقلابی مارکسسٹ اور ترقی پسند مزاحمتی قوم پرستوں سے فاصلے پہ ہوگئی۔بلکہ این جی نائزڈ لبرل نے تو الٹا خوف پھیلانا شروع کردیا تھا۔
ڈاکٹر ریاض احمد سے میری بات چیت ہوتی رہی ہے۔وہ پاکستان کی لبرل سوسائٹی کی اشرافیہ کے لوگوں کی جانب سے ریاستی جبر کی مثالیں سامنے آنے پہ بے جا خوف و ہراس پھیلانے پہ سخت نالاں نظر آئے اور ان کا کہنا تھا کہ اکٹر سول سوسائٹی ایکٹوسٹ خوف و ہراس کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور خود بھی بے عملی کا شکار ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی بے عملی کا شکار بناتے ہیں۔ تو خاموشی کی بڑی وجہ ریاستی تشدد ہی نہیں بلکہ اس میں ایک بڑا حصّہ لبرل اشرافیہ کی مبالغہ آرائی کا بھی ہے۔
شایان راجنی نے صبین محمود کے قتل بارے حقائق کو ایک بار پھر کمرشل لبرل مافیا کی طرح مسخ کرنا شروع کردیا ہے۔صبین محمود کے قاتل پکڑے گئے۔وہ تکفیری دیوبندی دہشت گرد تنظیم سپاہ صحابہ پاکستان/لشکر جھنگوی کے ایک عسکریت پسندی کے زریعے ریڈیکل ہوئے اور انھوں نے صبین محمود کو بلوچستان پہ خیالات کے حوالے سے قتل نہیں کیا بلکہ انھوں نے یہ قتل صبین محمود کے جہاد ازم، تکفیر آزم اور بنیاد پرست رجعت پرست سیاسی اسلام ازم بارے خیالات کے سبب کیا۔یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے کہ بنا کسی ثبوت کے ہم صبین محمود کے قتل کو اس لئے ملٹری اسٹبلشمنٹ کے گلے منڈھ دیں کہ ایسا نہ کرنے سے ہمارے مہابیانیہ کی کمزوری ظاہر ہوجاتی ہے۔
جامعات کے اندر جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے بعد سے قدامت پرستی ، بنیاد پرستی ، فرقہ پرستی اور سخت مذہبی ضابطوں کے نفاذ کا عمل شد و مد سے جاری ہے اور اس میں یونیورسٹی ایڈمنسٹریشن، حکومتیں رجعت پسندوں کے دباؤ کے اگے سرنڈر کرتی آئی ہیں۔اس مذہبی رجعت پرستی کے خلاف لیربل،پروگریسو، لیفٹ کے حلقے مزاحمت کرتے رہے ہیں اور یہ مزاحمت آج بھی جاری ہے۔زہرا صابری نے اس حوالے سے اپنے آرٹیکل کے اندر یہ ذکر کیا ہے کہ اگرچہ قانون سازی اور ضابطے بنانے کے عمل میں لبرل اور لیفٹ سوچ کو پسپائی بھی ہوجاتی ہے لیکن پھر بھی وہ اس حوالے سے بحث و مباحثے کی مین سٹریم سے باہر نہیں ہوتے۔تو کیسے شایان کہہ سکتے ہیں کہ زہرا صابری نے اس کا حوالہ نہیں دیا۔اگر پنجاب یونیورسٹی اور کراچی یونیورسٹی کے اندر سال نو کی تقریبات اور مرد و عورت کے اختلاط پہ بنیاد پرست اور قدامت پرست حملے کرتے ہیں تو جواب ميں ترقی پسند بھی مزاحمت کرتے ہیں اور ردعمل دیتے ہیں۔پنجاب یونیورسٹی میں کامران مجاہد کی وی سی شپ کے دور میں تو ایڈمنسٹریشن جماعت اور جمعیت کے خلاف بہت سرگرم نظر آئی تھی۔
شایان نے یونیورسٹیوں میں نگرانی اور جاسوسی کے نظام کو بڑھائے جانے کی جانب بالکل ٹھیک اشارہ کیا ہے۔خاص طور پہ سندھ،بلوجستان میں یونیورسٹیوں میں رینجرز،ایف سی اور انٹیلی جنس اداروں کی مداخل بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔رینجرز سندھ کے تعلیمی اداروں میں واقعی جابرانہ قو کے طور پہ موجود ہے۔اور خود جو یونیورسٹیز کی ایڈمنسٹریشن ہے اس نے بھی نگرانی کے نظام کو بہت سخت کردیا ہے۔یونیورسٹی میں سینڈیکیٹ اور پروفیسرز ایسوسی ایشن کے انتخابات میں مداخلت اور انجینئرنگ کی بات بھی درست ہے۔لیکن حال ہی میں عرفانہ ملاح پھر سندھ یونیورسٹی میں پروفیسرز کی ایسوسی ایشن کی صدر منتحب ہوئی ہیں۔جبکہ کراچی یونیورسٹی میں ڈاکٹر ریاض احمد نے بھاری اکثریت سے انتخاب جیتا تھا۔جبکہ پنجاب میں لیکچرز اینڈپروفیسرز ایسوسی ایشن پہ بھی ترقی پسندوں کا غلبہ ہے انھوں نے جماعت کی حمایت یافتہ تنظیم اساتذہ کو پنجاب بھر میں شکست دی۔
یہ حقائق یہ ظاہر کرتے ہیں کہ پروفیسرز کی ایسوسی ایشن اور سینڈیکیٹ کے انتخابات میں اکثر یونیورسٹیز کے اندر ترقی پسند تنظیموں کا اثر کمزور نہیں ہے۔ہاں یہ سوال ضرور کیا جاسکتا ہے کہ پروفیسرز اینڈ لیکچرر ایسوسی ایشن اور یونیورسٹیوں کے سینڈیکیٹس میں بیٹھے ترقی پسند،لبرل اور لیفٹ افراد اپنے اثر ورسوخ کو ریاست کی جانب سے یونیورسٹیوں کے اندر مداخلت اور سیکورٹی اداروں کی جانب سے دبائے جانے کے عمل کے خلاف نظر آنے والی مزاحمت کیوں نہیں کرپارہے۔
شایان نے مذہبی قدامت پرستی اور لالچی سرمایہ داری کے درمیان شادی کا ذکر کیا ہے۔لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ کارپوریٹ سرمایہ داری سے پاکستان کی مین سٹریم میڈیا اور تعلیمی اداروں میں بیٹھے نام ور لبرل اشراف نے بھی گٹھ جوڑ کر رکھا ہے اور وہ بھی پاکستان کے اندر سرمایہ داروں کے ایک بڑے کیمپ کے ساتھ نہیں کھڑے۔ عاصمہ جہانگیر،نجم سیٹھی سمیت لبرل اشراف کا ایک بڑا حصّہ نواز شریف، میاں منشا،اسحاق ڈار ان جیسوں کے ساتھ کھڑا ہے۔اس لالچی سرمایہ داری سے خود لبرل اشراف بھی ایسے ہی فائدہ اٹھارہے ہیں جیسے مذہبی قدامت پرست طبقہ اٹھارہا ہے۔انھوں نے کھادی کے ورکرز کے لئے لڑائی کا حوالہ دیا تو ایک بار پھر میں انتہائی معذرت سے کہوں گا کہ کھادی کے مزدروں کے لئے آواز ناصر منصور اور ان کے ساتھ مشتاق شان اور ديکر بائیں بازو کے کمیونسٹوں نے اٹھائی اور وہ عملی طور پہ میدان میں آئے تھے۔
شایان کہتے ہیں جمہوریت آج پاکستان میں لبرل فتح کی وجہ سے نہیں بلکہ ریاستی اداروں،مذہبی ، دائیں بازو اور سنٹرسٹ سیاسی پارٹیوں کے درمیان اتفاق کی ملی بھگت کے سبب ہے۔وہ شاید ایک بار پھر مین سٹریم میڈیا کے لبرل اشراف کو بھول گئے ہیں اس ملی بھگت میں وہ بھی شامل ہیں۔ آخر عاصمہ جہانگیر،نجم سیٹھی،کیرل المیڈا،رضا رومی،شیری رحمان، ملیحہ لودھی وغیرہ کو وہ کس میں شمار کرتے ہیں؟
شایان اور ان جیسے دوسرے دوستوں کو ‘لفظ لبرل’ کے ساتھ اتنا چھوئی موئی ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔یہ دوست پاکستان میں لبرل سیکشن کے اندر پائے جانے والے کمرشل ازم،موقعہ پرستی،دروغ گوئی، غلط بائنری اور گمراہ کن تصورات اور ان کے اندر موجود بے عملی کی بڑی بیماری کی نشاندہی پہ سیخ پا ہوتے ہیں۔اور حقیقت میں کہے بغیر پاکستان کے لبرل اشراف کو مقدس گائے بنانا چاہتے ہیں جوکہ وہ نہیں ہیں جیسے پاکستان کی ملائیت نہیں ہے۔