کرسمس مبارک مائیکل مندر – عامر حسینی

خانیوال شہر میں مسیحی برادری کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔یہ آبادی تین بڑے علاقوں میں آباد ہے۔ایک کرسچن کالونی ہے جو سول لائن سے ملحق ہے۔دوسری بڑی آبادی خرم پورہ کالونی کہلاتی ہے اور یہ پیپلزکالونی سے ملحق ہے جبکہ اسٹیشن کے عقب میں،پرانا خانیوال میں لانڈھی کالونی ہے۔چند ایک گھر سول لائن میں آباد ہیں۔جبکہ ان تین کالونیوں میں ورکنگ کلاس مسیحی برادری کی اکثریت ہے۔

خانیوال میں لیفٹ اور ترقی پسندی سے جڑے کارکنوں نے ہمیشہ خانیوال میں ان ورکنگ کلاس مسیحی آبادی کے ساتھ خصوصی روابط قائم رکھے اور ان میں جتنا ہوسکا اپنے کام کو آگے بھی بڑھائے رکھا۔اور پھر خوش قسمتی یہ رہی کہ یہاں مسیحی برادری کے اندر سے مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے چند ایسے ترقی پسند لوگ بھی میسر آگئے جنھوں نے مسیحی ورکنگ کلاس کے اندر کام کرنے کی راہ میں آسانیاں پیدا کرنے میں بہت مدد فراہم کی۔

پہلے اس شہر میں ایک ہی گورنمنٹ ڈگری کالج ہوا کرتا تھا۔یہ کالج 1960ء سے لیفٹ اور رائٹ کی طلباء سیاست کا مرکز رہا اور 60ء کی دہائی میں بھی یہاں طلباء یونین کے الیکشن میں مرکزی مقابلہ بائیں بازو کی طلباء تنظیم این ایس ایف اور دائیں بازو کی جماعت اسلامی کا طلباء فرنٹ اسلامی جمعیت طلباء کے درمیان ہی ہوا تھا۔نتائج ملے جلے تھے۔

قیوم بھٹی ایڈوکیٹ 60ء میں خانیوال بار کی سیاست میں مترک ہوئے۔وہ حسین شہید سہروردی کے شاگرد ہیں۔اور ایوب خان کے زمانے میں ہی یہ خانیوال بار کے صدر منتحب ہوئے۔ان دنوں خانیوال ضلع نہیں بنا تھا۔اور مسیحی برادری کی اکثریت تو زیادہ تر درجہ چہارم کی نوکریاں کرتی تھی یا پھر کچھ لوگ پیشہ ڈرائیوری سے منسلک تھے اور زیادہ تر خانیوال میں رہنے والے مسیحی بلدیہ میں سینی ٹیشن کے محکمہ میں ملازم تھے۔جبکہ ایک بہت چھوٹی تعداد نرسنگ اور پرائمری سطح کی تدریس سے وابستہ تھی۔

یہ وہ دور تھا جب خانیوال کے گرد و نواح میں کرسچن آبادی کا سب سے بڑا گاؤں شانتی نگر تھا۔اور شانتی نگر کی اکثر زمینوں پہ نیازی قبیلے کے بااثر لوگوں نے قبضہ کیا ہوا تھا اور شانتی نگر کے لوگ انتہائی غربت کے سبب ان کے خلاف کوئی قانونی اقدام اٹھانے سے قاصر تھے ۔اور یہ صرف شانتی نگر کا ہی معاملہ نہ تھا بلکہ پنجاب سیڈ کارپوریشن کے زیر انتظام فارم کے چکوک میں بھی اکثر زمینیں مزارعوں سے مقامی بااثر جاگیردار سرکاری حکام سے ساز باز کرکے ہتھیالیتے تھے اور یہ نہ صرف مسیحی برادری کے غریب مزارعوں اور کسانوں کا مسئلہ تھا بلکہ یہ یہاں بسنے مالے مسلمان کسانوں کا معاملہ بھی تھا۔

پاکستان بننے سے پہلے ہی خانیوال کے اندر چھوٹے، متوسط کسان اور مزارعوں کی تحریک نے منظم ہونا شروع کردیا تھا۔لیکن اس تحریک کو منظم کرنے میں بنیادی اور اہم کردار سکھ اور ہندؤ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ان پڑھے لکھے درمیانے طبقے کے دانشور ایکٹوسٹ کا کردار تھا جو کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا یا کانگریس میں سوشلسٹ رجحان سے جڑے ہوئے تھے۔ایسا ہی ایک کردار اس زمانے میں خانیوال بار کے صدر لالہ پنڈی داس کا تھا جو کہ تحصیل خانیوال میں کانگریس کے صدر تھے اور خانیوال شہر کے کچھ ہندؤ ڈاکٹر ، استاد اور چند ایک وکیل اس کانگریس کا حصّہ تھے۔لالہ پنڈی داس غریب کسانوں اور مزارعوں کے مقدمات مفت لڑا کرتے تھے۔جبکہ دیہاتوں میں خاص طور پہ فارم کے چکوک،تلمبہ کے ساتھ ملحق چکوک، گنجی بار میں نئی آباد ہونے والی زمینوں کے نئے آبادکار کسانوں میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے فرنٹ کیرتی پارٹی اور اس کی بنائی ہوئی کسان کمیٹیوں نے بھی منظم ہونا شروع کردیا تھا۔ان کیمٹیوں کے انچارج زیادہ تر ہندؤ یا سکھ پڑھا لکھا باشعور کیمونسٹ پارٹی کا کیڈر تھا۔جبکہ مسلمانوں میں بھی چند ایک لوگ تھے اور مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے کسانوں میں بھی۔

ہندؤستان کی تقسیم نے سب سے بڑا نقصان یہ کیا کہ پنجاب کے چھوٹے شہروں اور مضافاتی علاقوں میں جو پڑھے لکھے اور باشعور انقلابی کیڈر تھا ان کی ہندؤ اور سکھ پس منظر کے سبب انہیں انتہائی نامساعد حالات میں ہجرت کرنا پڑگئی۔

جب چودہ و پندرہ اگست کی درمیانی رات پاکستان بن گیا تو خانیوال بار کے صدر اور کانگریس خانیوال تحصیل کے صدر لالہ پنڈی داس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ آج کے گپّی والہ چوک (نجانے اس وقت اس چوک کا کیا نام ہوگا ) ایک جھوٹے سے مجمع کے سامنے تقریر کررہے تھے اور کہہ رہے تھے۔پاکستان بن گیا ہے۔تاریخ کا جبر ہے۔ہم اس کی مخالفت کررہے تھے۔لیکن اب یہ ہمارا ملک ہے ہم اس ملک میں سوشلزم اور جمہوریت کی جدوجہد جاری رکھیں گے۔

اس تقریر کے گواہ لالہ پنڈی داس کے ساتھی مسلمان وکلاء تھے جن میں ان کے دوست غلام نبی ایڈوکیٹ بھی تھے۔لیکن لالہ پنڈی داس ایڈوکیٹ کو چند دن بعد ہی خانیوال سے جانا پڑگیا ایسی حالت میں کہ خانیوال اسٹیشن پہ کسی نے ان کو چھرا مار دیا اور اور وہ زخمی حالت میں ہی ہندوستان جانے والی ٹرین میں بیٹھ گئے۔ان کی بیٹی وبملاداس بعد میں اندرا گاندھی کی پولیٹکل سیکرٹری مقرر ہوئیں اور وہ ایک مرتبہ پاکستان آئیں تو اس وقت بار کے صدر قیوم بھٹی صاحب تھے۔انہوں نے وبملاداس کو بار میں بلایا اور انہوں نے اپنا گھر جو کہ اس وقت ایک وکیل چودھری غلام رسول ایڈوکیٹ کے پاس تھا کا وزٹ بھی کیا اور اس میں آم کے تناور درخت بھی دیکھے جو ان کے والد نے لگائے تھے۔

خیر ہندؤ اور سکھوں کے بڑی تعداد میں چلے جانے سے نہ صرف خانیوال شہر کے اندر کم اثر رکھنے والی ترقی پسند سیاست بھی کمزور پڑگئی اور ساتھ ہی کسان تحریک بھی۔لیکن جلد ہی اس میں نئی جان 1948ء سے 1951ء کے دوران کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان اور اس کے بنائے ہوئے ریلوے ٹریڈ یونین ، واپڈا میں لیبر یونین اور ایسے ہی کسان کمیٹی نے ڈالنی شروع کردی تھی۔بعد ازاں جو یہاں بچھے کچھے ترقی پسند سیاسی کارکن تھے ،ترقی پسند وکیل تھے اور کسان تحریکوں میں تھوڑا بہت کام کرنے کا تجربہ رکھنے والے کسان تھے اور ساتھ ساتھ مشرقی پنجاب اور ہریانہ و یو پی –سی پی سے آنے والے کچھ ترقی پسند تھے انہوں نے نیشنل عوامی پارٹی کی تشکیل /نیپ بننے کے بعد یہاں کافی کام کیا۔ان میں قیوم بھٹی حسین شہید سہروردی کی عوامی لیگ میں تھے۔نور محمد چوہان کمیونسٹ پارٹی اور پھر نیپ میں تھے۔اور یہ دونوں وکیل بھی تھے۔

نور محمد چوہاں 60ء کی دہائی کے آخر میں آئے۔اور انھوں نے فارم کے چکوک میں مزارعوں کو بہت منظم کیا۔پاکستان بننے کے بعد خانیوال میں کسان تحریک کو منظم کرنے کا اولین سہرا ہم نور محمد چوہان کے سر پہ رکھ سکتے ہیں۔یہ بعد ازاں سوشلسٹ پارٹی پاکستان میں چلے گئے تھے اور سی آر اسلم کے انتہائی قریبی ساتھی تھے۔

انیس سو اڑسٹھ میں قیوم بھٹی صاحب ذوالفقار علی بھٹو کی پاپولسٹ سیاست کے اسیر ہوگئے اور جب 30 نومبر 1969ء کو ڈاکٹر مبشر حسین کے گھر پاکستان پیپلز پارٹی کا تاسسی اجلاس منعقد ہوا تو یہ اس میں بھی شریک تھے۔اور پھر اس پارٹی کے پلیٹ فارم سے یہ پیپلزلائرز ونگ کے محاذ سے جدوجہد کرتے رہے۔یہ شاعر اور ڈرامہ نگار بھی ہیں۔انھوں نے فیض کی صحبتوں کا لطف بھی اٹھایا اور ترقی پسند ترقی کے بڑے بڑے شاعروں اور ادیبوں کے ساتھ بڑا وقت گزارا۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ شانتی نگر کی اکثر زمینوں کو انھوں نے غریب مسیحیوں کو واپس دلایا اور خرم پورہ کالونی ،کرسچن کالونی اور لانڈھی کے غریب کرسچن گھرانوں کے لئے بھی بہت کام کیا۔

قیوم بھٹی صاحب کا جو گھر سول لائن میں ہے اس کی تعمیر میں بڑا کردار مائیکل مندر کے والد اور خود مائیکل مندر کا تھا۔اور خانیوال کے کئی گرجاگھروں کی تعمیر میں بھی مائیکل مندر کے والد کا کردار رہا۔راج گیری کے پیشے سے وابستہ مائيکل مندر نے قیوم بھٹی صاحب کی صحبت میں بہت کچھ سیکھا تھا اور آہستہ آہستہ وہ اپنے علاقے ،شانتی نگر میں سیاسی و سماجی کاموں میں متحرک ہوگیا تھا۔

میں یہاں ایک دلچسپ بات بتاتا چلوں کہ میری دوستی قیوم بھٹی صاحب سے تھی۔جبکہ عامر فہیم سے میری یاری بعد میں استوار ہوئی۔خیر جب مائیکل مندر نے قیوم بھٹی صاحب سے سیاست میں متحرک ہونے کا ارادہ ظاہر کیا تو قیوم بھٹی صاحب نے مجھے اور فہیم عامر کو بلایا اور ہمیں کہا کہ وہ پیرانہ سالی کے سبب اب متحرک نہیں ہوسکتے تو ہمیں مائیکل مندر کا ساتھ دینا چاہئیے۔

میں اس سے پہلے خرم پورہ، کرسچن کالونی اور لانڈھی میں اور کسی حد تک شانتی نگر میں نوجوانوں میں کام کررہا تھا اور ہماری کوشش تھی کہ یہاں نوجوانوں کو رجعتی سیاست کی بجائے ترقی پسند ،انسان دوست سیاست کی طرف راغب کرنے کی کوشش کررہے تھے۔اگرچہ ہمیں ان علاقوں میں دو درجن سے زیادہ نوجوانوں کا تعاون حاصل نہ ہوا تھا اور پھر ان علاقوں میں این جی او کلچر نے بھی ہمارے راستے میں کافی روکاوٹ کھڑی کررکھی تھی اور ساتھ ساتھ ان ہی دنوں کرسچن کمیونٹی کے اندر رجعت پرست پادرشاہی بھی ابھر رہی تھی اور یہ دائیں بازو کی مسلم بنیاد پرستی کی بڑھتی ہوئی لہر کا ردعمل تھا۔ہم یہ بھی چاہتے تھے کہ کرسچن ورکنگ کلاس اور مسلم ورکنگ کلاس کے باشعور سیکشن کی تعمیر کی جائے اور ان کے درمیان اشتراک عمل بڑھے اور یہ ملکر استحصال و جبر کے خلاف جدوجہد کریں۔

مائیکل مندر کے ملنے سے ہمیں سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ خرم پورہ کے اندر ورکنگ کلاس مسیحی گھرانوں کے دروازے ہمارے لئے کھل گئے اور بہت بڑی تعداد میں نوجوان لوگ ہم سے ملے۔اور ہمیں مائیکل مندر نے سب سے پہلے ایک مشکل ترین ٹاسک یہ دیا کہ ان کے علاقے میں کچی شراب اور منشیات کا کام کرنے والا ایک گینگ تھا جو ایک طرف تو نوجوانوں کو منشیات اور شراب کا عادی بناتا تھا تو دوسری طرف یہ گینگ پیسے سود پہ دیتا اور آہستہ آہستہ اکثر گھروں کے مردوں اور عورتوں کو اپنا بلا اجرت سیلزمین بنالیتا اور جعلی پتی ، دو نمبر شیمپو اور کئی مشہور برانڈز کی نقلی مصنوعات دیہاتوں اور غریب علاقوں میں فروخت کراتا تھا۔اور مقروض لوگ ان کے قرضے سے کبھی جان ہی چھڑانا پاتے تھے۔

پھر اس نے غنڈے بھی پال رکھے تھے اور ساتھ ہی مقامی تھانے سے بھی ساز باز کیا ہوا تھا۔ان کا اثر ختم کرنا اور ان کے چنگل سے لوگوں کی جان چھڑانا خاصا مشکل ٹاسک تھا۔مائيکل مندر اس گینگ کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہوگیا۔اس نے نوجوانوں کو تیار کیا، کئی ایک بزرگ ساتھ ہوئے اور ہم نے اپنی پریس اور سیاست میں تعلقات اور اعلی حکام تک رسائی کو استعمال کرکے اس گینگ کو بہت کمزور کردیا اور اس علاقے میں جوئے اور کچی شراب و منشیات کے بڑے اڈے ختم کردئے اور کھلے عام کیا چھپ کر بھی اس علاقے میں یہ کام کرنا بہت مشکل ہوگیا۔اس دوران مائیکل مندر نے خود آگے بڑھ کر سرکاری اداروں میں پیش آنے والی مشکلات کے خلاف علاقے کے مجبوروں اور محکوموں کا ساتھ دینا شروع کردیا اور شانتی نگر میں بھی کئی لوگوں سے ہمیں ملوایا۔ اور خرم پورہ میں لوگوں نے اپنی طاقت کو محسوس کرنا شروع کردیا۔اسی دوران بلدیاتی الیکشن آگئے۔

اس دوران مائیکل مندر نے خرم پورہ کے لوگوں کا ایک بڑا کٹھ کیا۔اور اس کٹھ میں میں نے کھڑے ہوکر علاقے کے لوگوں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنا نمائندہ چننے کا فیصلہ خود کریں اور کسی سرمایہ دار سیاست دان کی کوٹھی سے فیصلہ نہ لیں کہ ان کا نمائندہ کون ہوگا۔یہ واحد وارڈ تھا جہاں پہ کرسچن ووٹ فیصلہ کن کردار ادا کرنے والا تھا۔فہیم عامر اور ہمارے دوسرے ساتھیوں نے فیصلہ کیا تھا کہ خرم پورہ کی سیاسی قسمت کا فیصلہ بھی خرم پورہ کی ورکنگ کلاس کرے اور اس خرم پورہ کے اندر چند ایک بڑے گھر والے جو اپنی دولت کے گھمنڈ میں اور سرمایہ دار سیاست دانوں کی چاکری کررہے ہیں وہ یہ فیصلہ نہ کریں۔خرم پورہ میں اس کٹھ کے بعد ایک اور کٹھ ہوا۔ہم نے کوشش کی اور نہ صرف کرسچن برادری کے لوگ آئے بلکہ مسلم گھرانوں سے بھی لوگ جو خرم پورہ کے رہائشی تھے ان کو لایا گیا اور اس کٹھ میں سوائے ایک دو لوگوں کے سب نے مائیکل مندر کو اپنا امیدوار چن لیا۔

ان کا مقابلہ رئیل اسٹیٹ کے ایک مافیا گروہ کے سربراہ سے تھا جس نے اس علاقے کے جرائم پیشہ، غنڈہ عناصر پہ ہاتھ رکھا ہوا تھا اور اس نے کافی خوف و اراس پھیلایا ہوا تھا لیکن ہم نے شہر بھر سے عوام دوست صحافیوں ،وکلاء ، ٹریڈ یونینسٹ کارکنوں کی مدد سے اس خوف و ہراس کو زائل کردیا۔خانیوال بلدیہ کے انتخابات میں کم ازکم سولہ وارڈز میں ہم محنت کشوں کی جانب ہمدردانہ اور دوستانہ رویہ رکھنے والے امیدواروں کی سپورٹ کررہے تھے۔ان میں سے 8 کی جیت یقینی تھی اور وہ کامیاب بھی ہوئے۔ہم نے اتنے بڑے پیمانے پہ سیاسی مداخلت ایک سوچی سمجھی پالیسی کے تحت کی تھی۔ہم چاہتے تھے کہ اگر سرکاری مشینری اور پیسے و جبر اور خرم پورہ میں مذہبی پیشوائیت اور چند چودھریوں کے سبب مائیکل مندر الیکشن ہار بھی جائے تو اقلیتی سیٹ پہ الیکشن میں کامیابی کو یقینی بنایا جائے۔

اس دوران رئیل اسٹیٹ کے مافیا نے ‘بلینک پے چیک ‘ مائیکن مندر کے سامنے رکھے۔مجھے،فہیم عامر اور میرے ساتھیوں کو بار بار پیشکش کی گئی اور مائیکل مندر کے کئی ساتھیوں کو پیسوں کی پیشکش کی گئی۔کیونکہ رئیل اسٹیٹ مافیا کی سرپرستی کرنے والا یہ شخص مسلم لیگ نواز کے وزیرمملکت عابد شیر علی کے زریعے حمزہ شہباز شریف اور ایسے ہی نواز شریف کے انتہائی قریب دیکھا جارہا تھا۔یہ ہر صورت بلدیاتی الیکشن جیتنا چاہتا تھا اور چئیرمین بدلیہ بننا چاہتا تھا۔اس نے اپنے مدمقابل باقی چار امیدواروں کو دست بردار کروایا اور آخر میں بس مائیکل مندر رہ گیا تھا۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ آخر ایک معمولی سامستری جو اس کے ٹھیکے داروں کے نیچے کام کرتا رہا کس بنیاد پہ اس کے مدمقابل کھڑا ہے اور کسی بھی پیشکش کا جواب مثبت نہیں دے رہا۔

الیکشن کے سے ایک رات پہلے پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا۔ووٹ خریدنے کی بدترین پریکٹس ہوئی، الیکشن عملے کو خریدا گیا۔کئی صحافیوں کو خریدا گیا اور الیکشن والے دن بھی مسلح افراد آزادانہ گھومتے رہے،دھمکاتے رہے اور مائیکل مندر اس کے باوجود چند درجن ووٹوں سے ہارا۔اس نے بھی مائيکل مندر کو مایوس نہ کیا۔آٹھ کے قریب کونسلر تو ہماری حمایت سے منتخب ہوئے تھے اور اس دوران میں نے اور فہیم نے اپنے تعلقات کو بروئے کار لاتے ہوئے کئی اور بااثر کونسلرز سے اقلیتی نشست پہ مائیکل مندر کے لئے حمایت حاصل کرلی اور ایسے میں 20 سے زیادہ کونسلروں نے حکمران جماعت کو مجبور کردیا کہ وہ مائیکل مندر کی اقلیتی نشست پہ حمایت کريں۔میں انتخاب والے دن بلوچستان چلا گیا اپنی ایک اسانئمنٹ کرنے۔اور بیس دن بعد لوٹا۔مائیکل مندر اسی رات جالندھر ٹی سٹال پہ جو میرا مستقل اڈا ہے بیٹھنے کا آکر مجھے ملا۔

وہ ہار اور مٹھائی لیکر آیا تھا اس نے ہار میرے گلے میں دیا۔پھر علاقے میں ایک خصوصی تقریب رکھی گئی اور اس میں بھی ہم سب ساتھیوں کی کوششوں کو سراہا گیا۔ پچھلے سال دسمبر کے آخری دو ہفتے میں اپنے نیوز ایجنسی کی دی گئی اسائنمنٹ پوری کرنے اور سوشلسٹ پاکستان کی طرف سے سالانہ مارکسی اسٹڈی سرکل میں شرکت کے لئے سندھ گیا ہوا تھا۔اس دوران 22 دسمبر کو میں حیدرآباد آیا۔تو مجھے سیٹ 27 دسمبر کی ملی ۔24 دسمبر کو مائیکل مندر کا فون آیا۔ کہہ رہا تھا کہ آپ کے بنا دل اداس ہوگیا ہے’حسینی جی! چھیتی آجاؤ ،تہاڈے نال کجھ گلاں کرنیاں نیں۔’ 25 دسمبر کو ان کی طبعیت خراب تھی اپنے بچوں کو میرے گھر کرسمس کیک بھیجا اور خود گھر سے مجھے کال کی۔’کدوں آؤنا اے۔اینی دیری کیوں؟’ میں نے کہا ‘ تہانوں دسیا تے سی 27 تریخ اے 28 نوں آؤاں گا۔’ ‘یار بہتی دیر ہوجانی اے۔”26 دسمبر کو مائیکل مندر کے بیٹے شانی (ذیشان مائیکل ) کا فون آگیا ‘ (روتے ہوئے) حسینی سرجی ! ابا جی نئیں رہے، فوت ہوگئے ،اخیر وقتی تہانوں یاد کردے پئے سی۔کردوں آشنا اے تساں؟’

یوں مائیکل مندر کا سفر تمام ہوگیا۔اس کرسمس پہ میں ان کے گھر کیک لیکر گیا۔سچی بات ہے پورے سال بعد ہی ان کے گھر گیا۔اور اسی کمرے ميں بیٹھا۔میں صوفے پہ بیٹھا تھا ،سامنے ایک پیڑھا تھا جس پہ مائیکل مندر بیٹھا کرتا تھا۔ان کی اہلیہ آنسو بہارہی تھی۔ اور تین بیٹے میرے سامنے بیٹھے مجھے تک رہے تھے۔میرے ساتھ راشد رحمانی، طارق حنیف تھے۔یہ بھی اس سارے سفر کے گواہ تھے۔ہم سب چپ تھے۔خرم پورے میں جگہ جگہ پینا فلیکس تھے ۔ بڑی سی تصویر تھی مائیکل مندر کی تھی نیچے میری اور ذیشان کی تصویر تھی اور اس پہ کرسمس کی مبارکباد کا پیغام تھا۔

Comments

comments