کیموفلاج تکفیری فاشزم میں اعتدال پسندی کی تلاش – محمد عامر حسینی
دسمبر کی دس تاریخ 2017ء پاکستان کے سابق وزیراعظم اور پاکستان پیپلزپارٹی کے سینئر وائس چئیرمین سید یوسف رضا گیلانی ملتان شہر ایک تقریب میں شریک تھے۔اس تقریب میں کالعدم تنظیم اہلسنت والجماعت/سپاہ صحابہ پاکستان کے نوجوان رہنماء،جن کا نام فورتھ شیڈول سے حال ہی میں پنجاب حکومت نے نکال باہر کیا ہے۔ محمد معاویہ طارق اعظم بھی مدعو تھے۔اس تقریب میں انہوں نے خود جاکر سید یوسف رضا گیلانی سے ہاتھ ملایا۔ان سے اپنے ساتھ تصویر کھنچوانے کی درخواست کی۔سید یوسف رضا گیلانی بھی ان سے واقف تھے۔وہ تپاک سے ملے اور ساتھ تصویر کشی کی اجازت بھی دے ڈالی۔
محمد معاویہ اعظم نے پہلے اس تصویر کو اپنے ٹوئٹ ہینڈل پہ شئیر کیا اور اس کے بعد کالعدم اہلسنت والجماعت/سپاہ صحابہ پاکستان کے آفیشل میڈیا نیوز ٹوئٹ ہینڈل اے ایس ڈبلیو جے نیوز پہ بھی یہ تصویر نمودار ہوگئی۔اس عمل نے ہمیں یہ بتادیا کہ ایک کالعدم تنظیم کے رہنماء کی جانب سے دعوت ولیمہ میں سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے ساتھ یہ تصویر یوسف رضا کے ایک فین/مداح کے طور پہ نہیں لی گئی تھی بلکہ اس کا مقصد اپنی اور اپنی تنظیم کی سیاسی پروجیکشن تھا۔اس کا بادی النظر میں ایک مطلب یہ دکھانا بھی تھا کہ ایک کالعدم تنظیم اور اس کے رہنماء کتنے مین سٹریم ہیں اور کیسے ان کی اہمیت مین سٹریم سیاست میں سیکولر و لبرل سیاست کی علمبرداروں میں بنی ہوئی ہے۔
اس تصویر کو سید یوسف رضا گیلانی یا ان کے ساتھ کام کرنے والے کسی سوشل میڈیا ایکٹوسٹ نے اپنے اکاؤنٹ پہ شئیر نہیں کیا۔ایسے ہی اس سے پہلے سید خورشید شاہ قائد حزب اختلاف جھنگ میں سید اسد حیات شاہ برادر سید فیصل صالح حیات کے گھر پہ منعقد نوروز کی تقریب میں مدعو تھے۔اس تقریب یں سید اسد شاہ نے کالعدم اہلسنت والجماعت محمد احمد لدھیانوی جن کا نام بھی پنجاب حکومت نے فورتھ شیڈول سے نکال دیا ہے کو بھی مدعو کررکھا تھا۔وہاں پہ سید خورشید شاہ ،سید اسد حیات اور محمد احمد لدھیانوی ایک بیٹھک میں ایک ساتھ بیٹھے تھے اور اس موقعہ پہ ان کی تصویر کشی ہوئی۔ان تصویروں کو بھی فیس بک اور ٹوئٹر پہ بنے اہلسنت والجماعت کے سوشل پیجز پہ شئیر کیا گیا ۔جبکہ پی پی پی یا سید خورشید کے کسی سوشل پیج یا ٹوئٹر ہینڈل پہ کوئی تصویر اپ لوڈ نہیں ہوئی۔
ایسے ہی ون نیوز ٹی وی چینل نے محرم کے حوالے سے حلیم کی دعوت کا اہتمام کیا۔اس دعوت میں سید قائم علی شاہ سابق چیف منسٹر جہاں مدعو تھے وہیں کالعدم اہلسنت والجماعت /سپاہ صحابہ پاکستان کے موجودہ صدر اورنگ زیب فاروقی بھی مدعو کئے گئے۔اس موقعہ پہ اورنگ زیب فاروقی سے سامنا ہوا۔ جب سابق چیف منسٹر سید قائم علی شاہ اور اورنگ زیب فاروقی مل رہے تھے تو اس موقعہ پہ بھی تصویریں بنائی گئیں اور ایک بار پھر کالعدم اہلسنت والجماعت کے ميڈیا سیل نے خود ہی ان تصویروں کو آن لائن کیا۔
سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے موقعہ پہ کراچی لانڈھی ملیر ٹاؤن کی ایک یونین کونسل میں پی پی پی کی مقامی قیادت نے اہلسنت والجماعت کے امیدوار کے ساتھ انتخابی اتحاد قائم کرلیا۔یہ انتخاب اہلسنت والجماعت /سپاہ صحابہ پاکستان نے کراچی اور اندرون سندھ میں پاکستان راہ حق پارٹی کے نام سے لڑا۔
راہ حق پارٹی کے سوشل میڈیا پہ بنے سوشل پیجز اور کالعدم اہلسنت والجماعت کے سوشل میڈیا سیل نے اس اتحاد کی ایک ایسی کارنر میٹنگ کی تصہویر شایع کیں جن میں راہ حق پارٹی اور پی پی پی کے جھنڈوں سے مزین پینا فلیکس بیک گراؤنڈ میں صاف نظر آرہے تھے۔
اس سے پہلے کالعدم تنظیم اہلسنت والجماعت نے 2012ء کے انتخابات کے دوران کھاریاں تحصیل میں اپنی مقامی قیادت کے موجودہ پی پی پی سنٹرل پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ کے انتخابی پینل سے اتحاد کے موقعہ پہ ہوئی ملاقات کی تصویریں اور خبریں سب سے پہلے سوشل ميڈیا پہ جاری کی تھیں۔ایسے ہی ایک تقریب میں قمر زمان کائرہ کی راستے میں محمد احمد لدھیانوی کے ساتھ معانقہ کی تصویریں اپنے سوشل پیجز پہ جاری کیں۔
کالعدم اہلسنت والجماعت/سپاہ صحابہ پاکستان کا ميڈیا سیل و سوشل میڈیا پیجز یہی نہیں ہے کہ وہ صرف پاکستان پیپلز پارٹی کے اہم رہنماؤں اور لیڈروں سے اپنی قیادت سے میل جول یا ان سے کسی تقریب میں ملاقات کی تصویریں شایع کرتا ہے بلکہ ان کے پیجز پہ ریسرچ ہميں بتائے گی کہ انہوں نے یہ پریکٹس باقاعدگی کے ساتھ دوسری جماعتوں کے اہم رہنماؤں سے ملاقات کے حوالے سے بھی اختیار کی۔اس کی اسی طرح کی کوشش حکومتی عہدے داروں، وردی بے وردی نوکر شاہی،مین سٹریم میڈیا اور سول سوسائٹی کے چند ایک بڑے ناموں کے ساتھ بھی نظر آئی۔
یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے کہ ہمیں یہ پتا نہ چلے کہ اہلسنت والجماعت/سپاہ صحابہ پاکستان اور اس جیسی دوسری کالعدم تنظیمیں سوشل میڈیا پہ اپنے سوشل پیجز پہ ،حکومتی عہدے داروں،مین سٹریم سیاسی جماعتوں،مین سٹریم میڈیا کے بڑے بڑے ناموں اور سول سوسائٹی کے اشراف چہروں کے ساتھ اپنے رہنماؤں کی میل ملاقاتوں کی تشہیر کیوں کرتی ہیں؟
کالعدم تنظیموں کا اس طرح کی پروجیکشن کرنے کا مقصد ایک طرف تو اپنے سافٹ امیج کو ابھارنا ہوتا ہے اور دوسری طرف اس دباؤ کو کم کرنا ہوتا ہے جو ان پہ حکومتی پابندیوں اور معاشرے کے اندر سے پیدا ہونے والے دباؤ اور ردعمل کی وجہ سے برداشت کرنا پڑتا ہے۔
نائن الیون کے بعد ، افغانستان میں امریکی جنگ کے آغاز سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام سے پولیٹکل اسلام ازم اور مسلم وہابی/سلفی/دیوبندی /اخوانی/مودودی ازم کے زیر اثر پنپنے والی عسکریت پسندی پہ مبنی جہاد ازم اور تکفیر ازم پہ جو دباؤ پڑنا شروع ہوا۔اس نے پاکستان کی اس وقت کی فوجی حکومت کو ریاستی پالیسیوں پہ نظرثانی پہ مجبور کیا،اس نے کم ازکم سپاہ صحابہ جیسی تںطیموں کے لئے کام جاری رکھنا مشکل کردیا۔ایسی تںطیمیں جو جہاد ازم اور تکفیر ازم کے ملغوبے کے ساتھ مین سٹریم سیاست اور سماجیت کا حصّہ بنی ہوئی تھیں ان کے لئے کام جاری رکھنا مشکل کردیا۔دیوبندی مکتبہ فکر میں اس حوالے سے سیاسی اسلام پسندی کے ریڈیکل/جہادی/تکفیری چہرے کے ساتھ سپاہ صحابہ سب سے طاقتور تنظیم تھی۔
سپاہ صحابہ پاکستان کی سماجی بنیادیں :
اس تنظیم کا دیوبندی مدارس، کالجز و یونیورسٹیز میں پڑھنے والے والے دیوبندی پس منظر کے طلباء و طالبات،پروفیشنل(اساتذہ، ڈاکٹرز، بینکر،وکلاء، سابق ججز ،حاصر سروس ججز، وفاق المدارس سے فارغ التحصیل سکالرز،مولوی،مفتی،صحافی) شہروں اور دیہاتوں میں چھوٹے دکانداروں اور مختلف تکنیکی شعبوں میں مہارت رکھنے والے (پلمبر،ترکھان،موچی،نائی،الیکٹریشن،ڈرافٹس مین،آرکیٹیکچر ،کچے مزدور جوکہ مختلف فیکٹریوں اور کارخانوں میں کام کرنے والے تھے)،چھوٹی ملکیت رکھنے والے کسان،اور کئی ایسے تھے جو ماضی میں اپنے علاقے میں بڑے عسکریت پسند کے طور پہ ابھرے تھے اور شیعہ ٹارگٹ کلنگ میں بھی ان کا نام آیا تھا،وہ زمینوں پہ قبضے اور چند دیگر غیرقانونی سرگرمیوں کے سبب رئیل اسٹیٹ ، آئل اینڈ گیس و سمینٹ وغیرہ یا کسی اور طرح کی ڈسٹربیوشن، پٹرول پمپ یا سی این جی پمپ وغیرہ کے مالک بن گئے۔چھوٹی موٹی جیننگ اینڈ پریس آئل ملز کے کاروبار سے منسلک ہوگئے تھے اور کم از کم ایک مستحکم چھوٹے یا درمیانے درجے کے کاروباری یا ٹھیکدار بن کر ابھرے یا سعودی عرب ، کویت اور یو اے ای میں انہوں نے دولت کمائی اور وہاں پہ ریڈیکل نظریات کا شکار ہوئے اور پاکستان آکر سپاہ صحابہ پاکستان ان کی ترجیح بن گئی ایسے لوگ تھے۔
پابندی اور نئے ناموں کا اجراء
جنرل مشرف نے جنوری 2002ء میں جب سپاہ صحابہ پاکستان پہ پابندی عائد کی اور اس کی مرکزی صدر اعظم طارق سمیت ملک بھر میں مرکزی و صوبائی و مقامی عہدے داروں کو گرفتار کرلیا گیا۔ملک بھر میں دفاتر سیل کردئے گئے۔
ملت اسلامیہ پاکستان سے اہلسنت والجماعت تک
اکتوبر 2002ء میں جنرل مشرف نے عام انتخابات کرائے تو اس زمانے میں مولانا اعظم طارق نے جیل سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور جیت گئے۔ان کے ساتھ ساتھ پشاور سے حکیم ابراہیم قاسمی پی ایف 2 سے صوبائی اسمبلی کا آزاد حثیت سے الیکشن لڑکر اسمبلی میں پہنچے۔اعظم طارق تین آزاد امیدواروں میں شامل تھے۔اور اعظم طارق کا ووٹ مسلم لیگ ق کے وزیراعظم کے امیدوار کے لئے بڑی اہمیت کا حامل بن گیا۔انہوں نے یہ ووٹ ظفر اللہ جمالی کے حق میں استعمال کیا۔اس ووٹ نے ان کی رہائی کی راہ ہموار کی اور ضمانت پہ رہا ہوکر یہ باہر آگئے۔انھوں نے مشرف حکومت کی اس نرمی سے فائدہ اٹھایا اور حیرت انگیز طور پہ ملت اسلامیہ پاکستان کے نام سے ایک نئی پارٹی رجسٹرڈ ہوگئی۔سپاہ صحابہ کے اکثر کارکن جیلوں سے باہر آگئے اور زیرزمین کارکنوں کو بھی رہا کردیا گیا۔2003ء میں مولانا اعظم طارق کا قتل ہوگیا۔ان کی جگہ ملت اسلامیہ پاکستان کی صدارت محمد احمد لدھیانوی کے پاس آگئی اور 2003ء میں ہی ایک مرتبہ پھر اس پارٹی پہ پابندی لگ گئی۔
اس پابندی کے بعد باوجود سپاہ صحابہ پاکستان کا سب سے بڑا اور مرکزی دھارا اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے تھا اور مشرف حکومت کے آخری دو سالوں میں اس نے اپنے آپ کو اہلسنت والجماعت پاکستان کے نام سے رجسٹرڈ کرالیا۔اور اس نام سے دیکھتے ہی دیکھتے اس کے دفاتر پورے ملک میں کام کرنے لگے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان میں بھی یہ جماعت رجسٹرڈ ہوئی۔اور پھر اس پہ بھی پابندی لگائی گئی لیکن اہلسنت والجماعت کے نام پہ اس پابندی کے بعد سے اس نام سے اس تنظیم نے کام کرنا بند نہ کیا۔
لچکدار حکمت عملی
یہاں پہ یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ جب سپاہ صحابہ پاکستان کی قیادت محمد احمد لدھیانوی کے پاس آئی اور وہ ملت اسلامیہ پاکستان پارٹی اور اس کے بعد اہلسنت والجماعت کے سربراہ بنے تو انھوں نے نے سپاہ صحابہ پاکستان کے کام کو کسی ایک خاص تنظیم کے تحت کام کرنے کی حکمت عملی کو بہت حد تک ترک کردیا۔خاص طور پہ سیاسی میدان میں۔اہلسنت والجماعت کو اپنی مذہبی اور فکری سرگرمیوں کو ملک بھر میں اس نام سے جاری رکھنے میں نہ تو مشرف دور میں پیش آئی،نہ ہی پی پی پی کے دور میں اور نہ ہی مسلم لیگ نواز کے دور میں۔اسے سیاسی میدان میں مشکلات کا سامنا رہا۔محمد احمد لدھیانوی ،اورنگ زیب فاروقی اور دیگر رہنماؤں نے اس حوالے سے ایک لچکدار حکمت عملی اپنائی۔اور کراچی،اندرون سندھ، خیبر پختون خوا کے اندر اس نے پاکستان راہ حق نام سے پارٹی الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ کرائی۔اور اس کے ساتھ ساتھ بطور آزاد امیدوار کے الیکشن لڑنے کی حکمت عملی کو جاری رکھا۔جبکہ محمد احمد لدھیانوی اور اورنگ زیب فاروقی کی قیادت میں اہلسنت والجماعت نے پہلے تو شیعہ کو کافر قرار دلوانے کی تحریک کو ایک سیاسی و سماجی تحریک کے طور پہ سامنے لانے اور اپنی پارٹی کے اندر موجود زیادہ ریڈیکل عناصر کو کیموفلاج کرنے پہ مجبور کیا۔اس روش کو اس تنظیم کے اندر سے اس وقت بڑے چیلنج کا سامنا ہوا جب ایک مبینہ ڈیل کے نتیجے میں ملک اسحاق اور اس کے ساتھی رہا ہوگئے اور انھوں نے اہلسنت والجماعت/سپاہ صحابہ پاکستان پہ اپنا حق فائق ہونے کا دعوی کیا۔
ملک اسحاق اور محمد احمد لدھیانوی کے گروپوں کے درمیان تنظیم پہ کنٹرول کی لڑائی کو ختم کرانے کے لئے عالمی ختم نبوت تحریک کے بانی صدر مرحوم عبدالحفیظ مکّی نے ان کو اپنے پاس سعودی عرب بلایا اور وہاں افہام و تفہیم کرائی لیکن یہ تنازعہ برقرار رہا۔ملک اسحاق نے اہلسنت والجماعت/سپاہ صحابہ کے اندر بڑا گروپ تشکیل دیا۔اور اس دوران ملک اسحاق گروپ کے ہاتھوں اہلسنت والجماعت کے پنجاب کے صدر شمس معاویہ کا قتل ہوگیا۔ملک اسحاق سپاہ صحابہ پاکستان/اہلسنت والجماعت کے تکفیری مشن کو کیموفلاج کرنے کو تیار نہ تھے۔اور وہ داعش کے حوالے سے اور ٹی ٹی پی سمیت پاکستانی ریاست سے لڑنے والے لوگوں کے لئے بھی نرم گوشہ رکھتے تھے۔اور اعلانیہ ان کی حمایت کررہے تھے۔ایک بار پھر وہ ساتھیوں سمیت گرفتار ہوئے اور ایک مبینہ پولیس مقابلے میں اپنے دو بیٹوں اور دست راست غلام رسول شاہ کے ہمراہ مارے گئے۔اور یہ ایک بار پھر اہلسنت والجماعت پہ محمد احمد لدھیانوی-اورنگ زیب فاروقی کے کنٹرول کی تصدیق ہوگئی۔اہلسنت والجماعت کو وفاق المدارس ، جمعیت علمائے اسلام (ف)اور جمعیت علمائے اسلام (س) جیسی مرکزی تنظیموں کی جانب سے کافی سرپرستی میسر آئی۔
اس دوران اہلسنت والجماعت کے سربراہ محمد احمد لدھیانوی اور اورنگ زیب فاروقی، ابراہیم قاسمی ، رمضان مینگل اور ان کے جملہ دوستوں سے اپنی سیاسی حکمت عملی کو لچک دار بنایا۔ابراہیم قاسمی پشاور کے پی کے وادی میں راہ حق پارٹی کے نام سے سرگرم ہیں۔ان کی جے یوآئی ایف کے ساتھ قربت بڑھی ہے اور وہ مسلم لیگ نواز کو بھی کھل کر سپورٹ کررہے ہیں۔جبکہ ہزارہ ڈویژن میں ایک طرف تو اورنگ زیب فاروقی، ابراہیم قاسمی 2018ء کے انتخابات میں اپنے امیدوار سامنے لانے، اور خود اورنگ زیب فاروقی ہری پور سے الیکشن لڑنے پہ پر تول رہے ہیں۔دوسری طرف 2008ء سے 2017ء تک انھوں نے اس علاقے میں اپنی تنظیم کی مقامی قیادت کو موقع محل کے مطابق مسلم لیگ نواز ، پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کی اجازت دی۔جبکہ پنجاب میں اس تنظیم نے مسلم لیگ نواز کے ساتھ اپنے اتحاد کو قائم رکھا ہوا ہے۔مسرور جھنگوی نے آزاد حثیت سے الیکشن جیتا اور جے یوآئی ایف میں شامل ہوگئے۔محمد احمد لدھیانوی کی اپنی حکمت عملی جھنگ کے اندر بہت ہی پیچیدہ ہے۔ان کو اسد حیات برادر فیصل صالح حیات کی مقامی حکومتوں کے انتخابات میں مدد حاصل رہی ہے۔چینوٹ میں یہ لالیوں کو سپورٹ کررہے ہیں۔جبکہ پنجاب بھر میں انہوں نے موقعہ محل کی مناسبت سے اپنی حکمت عملی ترتیب دی۔اکثر جگہوں پہ نواز ليگ کو سپورٹ کیا۔کہیں اس سے ہٹے بھی۔جیسے مظفرگڑھ میں جمشید دستی کو اعلانیہ سپورٹ کیا۔رمضان مینگل بلوچستان میں ایک غیر سیاسی روپ میں سامنے ہیں۔وہ وہاں پہ جمعیت کے اثر والے حلقوں میں جمعیت کو سپورٹ کررہے ہیں تو بلوچ قبائلی سرداروں جیسے موجودہ چیف منسٹر ثناء اللہ زھری ہے کی حمایت ہے اور ساتھ ساتھ وہاں پہ ان کو غیر منتخب ہئیت مقتدرہ کا دست شفقت بھی حاصل ہے۔
سول سوسائٹی اور مین سٹریم میڈیا
پاکستان میں مشرف کے زمانے سے لیکر ابتک مین سٹریم میڈیا پہ انگریزی اور اردو دونوں سیکشن میں ایسے اینکرز، ٹاک شو کے ہوسٹ موجود ہیں جنھوں نے اپنے پروگراموں میں خاص طور پہ محمد احمد لدھیانوی اور اورنگ زیب فاروقی کو بہت زیادہ پروجیکٹ کیا اور ان کی تشہیر بھی خوب کی۔جبکہ انگریزی میڈیم کے چند بڑے نام جن میں سرفہرست نجم سیٹھی ہیں جن کے اردگرد کئی نمایاں لبرل نام جمع ہیں۔ان لوگوں نے دیوبندی مکتبہ فکر کے اندر پروش پانے والے تکفیری فاشزم پہ بڑھتی ہوئی تنقید اور اہلسنت والجماعت کے کالعدم ہونے کے باوجود سرگرمیاں جاری رکھے جانے اور پھر سب سے بڑھ کر اس تنظیم کے مسلم لیگ نواز کے ساتھ اتحاد اور اشتراک پہ سامنے آنے والی تنقید پہ کان دھرنے کی بجائے ، اس تکفیری فاشزم کے بڑے علمبردار محمد احمد لدھیانوی اور اورنگ زیب فاروقی کے کیموفلاج کو ہی ماڈریٹ دیوبندی ازم کے طور پہ پیش کرنا شروع کردیا۔
ان کی جانب سے تکفیری فاشزم کو دیوبندی ماڈریٹ ازم کے طور پہ پیش کرنے کی نمایاں کوشش اس وقت سامنے آئی جب نجم سیٹھی نے اپنے ہفت روزہ انگریزی رسالے ‘فرائیڈے ٹائمز’ میں محمد احمد لدھیانوی کی پروجیکشن بطور ماڈریٹ مذہبی سکالر کے شروع کی۔محمد احمد لدھیانوی کے انٹرویو رسالے میں شایع کئے گئے۔ اور ساتھ ہی ان کے ماڈریٹ ازم پہ مضامین کا سلسلہ شروع ہوگیا۔اور اسی دوران نجم سیٹھی جیو ٹی وی پہ ایک پروگرام کرنے لگے اور اس کے ساتھ ہی جیو نیوز پہ محمد احمد لدھیانوی کی پروجیکشن کا سلسلہ بھی زیادہ ہوتا چلا گیا۔
اسی دوران ایکسپریس نیوز ٹی وی چینل پہ اس وقت فرائیڈے ٹائمز کے ایڈیٹر رضا رومی بھی پاکستان علماء کونسل کے سربراہ طاہر اشرفی کے ساتھ ‘میں اور مولانا’ ٹاک شو کے ساتھ نمودار ہوئے۔اس سے پہلے فرائیڈے ٹائمز ہی میں طاہر اشرفی کو بھی ایک نابغہ ماڈریٹ مولوی کے طور پہ پیش کرنے کا سلسلہ شایع ہوچکا تھا۔
حامد میر،طلعت حسین سے لیکر پاکستان کے کئی نامور اینکرز محمد احمد لدھیانوی، اورنگ زیب فاروقی اور طاہر اشرفی کی بطور دیوبندی ماڈریٹ رہنماؤں کے طور پہ پرائم ٹائم میں پروجیکشن کرتے نظر آئے۔اور حیرت انگیز طور پہ اس دوران پاکستان کے اس لبرل سمجھے جانے والے پریس سیکشن نے محمد احمد لدھیانوی، اورنگ زیب فاروقی، طاہر اشرفی کے مشرق وسطی میں جاری فرقہ وارانہ خلفشار اور یمن و شام پہ تکفیری جنگ مسلط کرنے کے عمل کی پوری حمایت کرنے اور پاکستان میں سعودی عرب کی متنازعہ خارجہ پالیسی کے ترجمان بن جانے پہ خاموشی اختیار کئے رکھی اور یہاں تک کہ اس جانب کوئی’دوستانہ تنقید’ کا رویہ بھی اختیار نہ کیا۔
پاکستان کا یہ لبرل سیکشن جو ایک طرف تو میاں نواز شریف کے لبرل امیج کی کمپئن چلارہا تھا۔دوسری جانب یہ محمد احمد لدھیانوی،اورنگ زیب فاروقی اور طاہر اشرفی کو دیوبندی ماڈریٹ مولویوں کے طور پہ پیش کررہا تھا تو اس کے ساتھ ساتھ یہ پاکستان کی فوجی قیادت اور انٹیلی جنس ایجنسیوں پہ اس تنقید کے ساتھ سامنے آرہا تھا کہ وہ کالعدم جہادی و عسکریت پسند تنظیموں کی مین سٹریمینگ کرنے کا الزام دے رہا تھا۔اور ایک مرتبہ پھر اس سے مسلم لیگ نواز کی حکومت کے کردار کو نظر انداز کررہا تھا۔بلکہ اسے چھپانے میں لگا ہوا تھا۔لیکن یہی لبرل سیکشن کالعدم اہلسنت والجماعت/سپاہ صحابہ پاکستان کی مین سٹریم کئے جانے کا سرے سے تذکرہ بھی نہیں کررہا تھا۔اس حوالے سے انگریزی پریس میں ( ڈیلی ڈان اس سے مستثنی ہے ) آنے والے تجزیہ اور فیچر دیکھیں خاص طور پہ فرائیڈے ٹائمز، نیوز لائن، نیوز ویک پاکستان اور انٹرنیشنل میڈیا (نیویارک ٹائمز،واشنگٹن پوسٹ وغیرہ ) کو دیکھیں تو ان میں اہلسنت والجماعت پاکستان/سپاہ صحابہ پاکستان اور خاص طور پہ محمد احمد لدھیانوی،اورنگ زیب فاروقی اور رمضان مینگل وغیرہ کے تذکرے سرے سے غائب دیکھیں گے۔
آپ اگر پاکستان کے لبرل انگریزی سیکشن کی کالعدم تنظیموں کے مین سٹریم کئے جانے کی مبینہ پالیسی پہ تنقید اور غم وغصّہ سے بھرے مواد کا جائزہ لیں تو حیرت انگیز طور پہ یہ بات سامنے آئے گی کہ اس مواد میں حافظ سعید، جماعت دعوہ ، جیش محمد، حقانی نیٹ ورک،مسعود اظہر کے تذکروں اور اس کی مین سٹریم کئے جانے پہ ملٹری اسٹبلشمنٹ پہ تنقید کا جو وزن ہے وہ بہت بھاری نظر آئے گا۔جبکہ اس تنقید میں ایک تو یہ حقیقت زیادہ تر غائب نظر آئے گی کہ جماعت دعوہ اپنی مین سٹریم سرگرمیوں میں اہلسنت والجماعت/سپاہ صحابہ پاکستان اور اس کی قیادت کی مکمل سپورٹ پارہی تھی جبکہ جیش جوکہ اصل میں اعظم طارق کی کوششوں سے بننے والی تنظیم تھی جس کا 99 فیصدی کیڈر سپاہ صحابہ کا ہی رکن ہے کو بھی اہلسنت والجماعت/سپاہ صحابہ پاکستان کی حمایت حاصل ہورہی تھی۔
اس دوران ایک اور عنصر جسے پاکستان کے انگریزی پریس سیکشن اور جیو-جنگ گروپ میں اہلسنت والجماعت/سپاہ صحابہ پاکستان کو دیوبندی ماڈریٹ ازم کے طور پہ پیش کرنے والے صحافتی گروپ نے خاص طور پہ چھپایا وہ تھا سندھ اور بلوچستان کے اندر سیکورٹی فورسز خاص طور پہ رینجرز اور ایف سی کے انچارج صاحبان کی جانب سے اہلسنت والجماعت پہ ہونے والی نظرکرم تھی۔اورنگ زیب فاروقی اور محمد احمد لدھیانوی و رمضان مینگل کو اس حوالے سے کسی چیلنج کا سامنا نہیں ہوا جو وہاں پہ دیگر جماعتوں کو بطور خاص ہوا۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ نواز شریف کی اینٹی اسٹبلشمنٹ اور لبرل امیج بلڈنگ کرنے والا پاکستان کا ایک لبرل پریس سیکشن اپنے تجزیوں میں منھاج القرآن، سنّی اتحاد کونسل،مجلس وحدت المسلمین کو اسٹبلشمنٹ نواز ثابت کرنے اور ان کی سنّی بریلوی اور شیعہ شناخت پہ خاصا زور دے رہا تھا لیکن اس نے اہلسنت والجماعت / سپاہ صحابہ پاکستان اور اس کی قیادت کے سندھ-کراچی ، بلوچستان اور خیبرپختون خوا میں اسٹبلشمنٹ کے ساتھ رشتوں اور ناتوں کو سرے سے دیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔اور اس تنظیم کے کراچی، کوئٹہ،پشاور،ڈیرہ اسماعیل خان میں شیعہ نسل کشی اور سنّی بریلوی کلنگ اور یہاں تک کہ بلوچ ایکٹوسٹ اور دانشوروں اور سیاسی کارکنوں کے قتل میں ملوث ڈیتھ اسکواڈ کے رمضان مینگل گروپ سے مبینہ رشتوں کو سرے سے چھپائے رکھا۔
اور نجم سیٹھی کی جانب سے شروع کئے جانے والے تکفیری فاشزم کے کیموفلاج سیکشن کو دیوبندی ماڈریٹ بناکر پیش کرنے کی اس مہم کو پاکستان کی این جی او کے شعبے میں بھی ایک سیکشن کے اندر مقبولیت ملی۔اور اس سیکشن نے اس کیموفلاج سیکشن کو ماڈریٹ بناکر پیش کرنے کی مہم آگے بڑھائی۔
یہاں سوال یہ جنم لیتا ہے کہ پاکستان کا ایک لبرل سیکشن کیموفلاج تکفیری سیکشن کے اسٹبلشمنٹ اور اس کے نواز-شہباز سے رشتہ داری کو کیوں چھپاتا آیا ہے؟
یہاں ایک اور پہلو پہ بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔یہ پاکستانی سیکشن جو کیموفلاج تکفیری سیکشن کو دیوبندی ماڈریٹ بناکر پیش کرتا آیا ہے۔اس نے اس کیموفلاج سیکشن کے سلمان تاثیر اور شہباز بھٹی کے قتل کی حمایت کو کبھی بیان نہیں کیا۔اور نہ ہی اس سیکشن کی جانب سے احمدی کمیونٹی سمیت ديکر کمیونٹیز کے خلاف ہونے والی نفرت انگیزی اور اس سے آگے ان پہ حملوں تک لیجانے والی جو سرگرمیاں ہیں ان میں تعاون فراہم کرنے کی کوششوں پہ بھی کبھی ویسے کلام نہیں کیا جیسے آج کل یہ سنّی بریلوی کے اندر تحریک لبیک یارسول اللہ جیسی تنظیموں کی انتہا پسندانہ مہم پہ پے درپے مواد مین سٹریم کررہا ہے۔
کیا اس سیکشن نے آج تک کبھی عالمی ختم نبوت انٹرنیشنل موومنٹ کے نیٹ ورک/مجلس احرار اسلام اور اس کے اہلسنت والجماعت/سپاہ صحابہ پاکستان کے درمیان رشتوں پہ کوئی تحقیق اپنے پڑھنے والوں کو پیش کی ہے اور ان کی احمدی کمیونٹی پہ حملوں کی تفصیل سے آگاہ کیا ہے؟ یہ آخر تکفیری فاشزم کے کیموفلاج کو ‘ دیوبندی اعتدال پسندی’ کے طور پہ کیوں پیش کرتا ہے؟ کیا پورے دیوبندی تھیاکریسی میں اسے اہلسنت والجماعت/سپاہ صحابہ پاکستان ، پورے دیوبندی مذہبی پیشوائیت میں ماڈریٹ مذہبی پیشوا کیموفلاج تکفیری محمد احمد لدھیانوی،اورنگ زیب فاروقی جیسے ہی میسر آئے؟
جبکہ اس سیکشن کا جو رویہ ڈاکٹر طاہر القادری، دعوت اسلامی کے سربراہ محمد الیاس قادری وغیرہ کے بارے میں وہ تضحیک آمیز بھی ہے اور بہت زیادہ نفرت سے بھرا ہوا بھی ہے۔بلکہ اس سیکشن نے تو ان کو دہشت گرد تک قرار دینے سے گریز نہ کیا۔
ان تضادات کو سامنے لائیں تو اچانک سے یہ سیکشن تھیاکریسی، تھیاکریٹک رویوں کا اپنے آپ کو سب سے بڑا مخالف بناکر پیش کرتا ہے لیکن اس دعوے کے برعکس یہ تھیاکریسی میں کیموفلاج تکفیری فاشزم کے اندر اعتدال پسندی کی تلاش کرتا پایا جاتا ہے۔