ماڈل ٹاؤن رپورٹ اور میڈیا ڈسکورس
پانچ دسمبر،2017ء بروز منگل، لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب حکومت کی جانب سے سترہ جون،2014ء کو منھاج القرآن سیکرٹریٹ اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ پہ پولیس کی فائرنگ سے ہونے والی ہلاکتوں پہ قائم یک رکنی ٹربیونل کی رپورٹ پبلک کرنے کے ہائیکورٹ کے حکم کو ختم کرنے کی دو درخواستوں کو مسترد کردیا اور رپورٹ پبلک کرنے کا حکم دیا
وزیر قانون و وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے ہوم ڈیپارٹمنٹ پنجاب کو رپورٹ ڈی جی پی آر پنجاب کو دینے کا حکم دیا اور ڈی جی پی آر کی ویب سائٹ پہ جسٹس باقر نجفی کی سانحہ ماڈل ٹاؤن پہ مرتب کی گئی رپورٹ پہلی بار پبلک ہوگئی۔
چھے دسمبر،2017 بروز بدھ کے تمام اہم اردو اخبارات اور انگریزی اخبارات نے ماڈل ٹاؤن رپورٹ کو نمایاں جگہ دی ہے۔روزنامہ جنگ کو چھوڑ کر باقی تمام نمایاں اردو قومی روزناموں نے اپنے تمام شہروں سے شایع ہونے والے ایڈیشنوں میں اس رپورٹ کے مندرجات کو اپنی سرخی بنایا ہے۔جبکہ اس کےاڑوس پڑوس میں رانا ثناء اللہ کی پریس کانفرنس کو بھی نمایاں شایع کیا گیا۔
اکثر اردو اخبارات ذیلی سرخیوں میں ڈی جی پی آر کی آفیشل ویب سائٹ پہ موجود یک رکنی ریویو کمیٹی کی تنقیدی رپورٹ کے بھی پبلک کئے جانے کا تذکرہ چھوڑ گئے ہیں۔جبکہ انگریزی رپورٹنگ میں بھی اس کا تذکرہ خبر کی تفصیل میں کیا گیا ہے۔
ڈی جی پی آر پنجاب کی آفیشل ویب سائٹ کا وزٹ کرتے ہی ویب سائٹ پہ ایک پورٹل سامنے آتا ہے۔اور پورٹل میں سب سے اوپر سپریم کورٹ کے سابق جسٹس خلیل الرحمان خاں کی جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ پہ تنقیدی جائزہ موجود ہے۔یہ باقاعدہ ایک رپورٹ ہے جو یک رکنی کمیٹی کو مرتب کرنے کا فرض سونپا گیا۔
یاد رہے کہ پنجاب حکومت کی طرف سے کبھی بھی پریس اور عوام کو یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ اس نے جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کے تنقیدی جائزے کے لئے کوئی کمیٹی تشکیل دی ہے۔اور اس کمیٹی کا سربراہ مقرر کرنے کے لئے اپوزیشن جماعتوں سے بھی کوئی مشاورت کی گئی تھی کہ نہیں۔
یہاں یہ سوال بھی بہت اہمیت کا حامل ہے کہ اگر پنجاب حکومت جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کا تنقیدی جائزہ لینے کے لئے کسی جج کی تقرری کرنا ہی چاہتی تھی تو اس نے لاہور ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان سے کیوں نہ کہا کہ وہ ان کو تین ججز دیں جو اس رپورٹ کا جائزہ لیں۔
اس رپورٹ کو پڑھنے کے بعد بنیادی سوال یہ ہے کہ 16 جون 2014ء کو پنجاب سیکرٹریٹ میں جو اجلاس رانا ثناء اللہ کی صدارت میں ہوا تھا،کیا اس میں رانا ثناء اللہ کی جانب سے تجاوزات ہٹانے کے لئے جس آپریشن کا حکم دیا گیا،اس میں پولیس کو فائرنگ کرنے کی اجازت بھی دی گئی تھی کہ نہیں؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اس اجلاس میں موجود چیف منسٹر پنجاب کے پرنسپل سیکرٹری جن کے بقول وہ اجلاس میں دیر سے پہنچے،اس سے پہلے تجاوزات ہٹائے جانے کے لئے آپریشن کا فیصلہ ہوچکا تھا اور انھوں نے چیف منسٹر کی جانب سے اس پہ رضامندی ظاہر کی تھی،تو کیا واقعی چیف منسٹر کو اس کا علم تھا؟ توقیر شاہ کہتے ہیں وہ اس آپریشن بارے چیف منسٹر کو آگاہ نہیں کرسکے تھے۔
جسٹس نجفی کی ماڈل ٹاؤن رپورٹ کا آخری اور فیصلہ کن نتیجہ یہ ہے کہ جن 14 افراد کی ہلاکتیں ہوئیں اور جو 50 افراد گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے،ان سب کو پنجاب پولیس کی گولیاں لگیں۔ اور خون ریزی پنجاب پولیس نے کی۔
جسٹس نجفی کہتے ہیں کہ اگر وہ پنجاب پولیس کو فائرنگ کا حکم دینے والے شخص کا پتا نہیں لگاسکے تو اس کی ایک بڑی ذمہ داری تو خود پنجاب حکومت پہ ہے،جس نے اس ٹربیونل کو فیکٹ فائنڈنگ سے آگے جاکر انوسٹی گیشن نہیں کرنے دی۔ اور اس کی دوسری بڑی ذمہ داری ان تمام پولیس حکام اور اس ٹربیونل کے سامنے پیش ہونے والے حکومتی عہدے داروں پہ عائد ہوتی ہے جنھوں نے بالکل یہ بتانے سے انکار کیا کہ فائرنگ کا حکم کس نے دیا؟ اور ان سب نے ایک دوسرے کو قانون کی زد میں آنے سے بچانے کی کوشش میں حقائق چھپائے۔
جسٹس نجفی کی ماڈل ٹاؤن رپورٹ ایک اور خوفناک عنصر کی نشاندہی کرتی ہے۔اور وہ نشاندہی یہ ہے کہ پنجاب پولیس کے جو اہلکار وہاں بلائے گئے تھے،وہ بادی النظر میں فرقہ واریت کے زہر میں بجھے دکھائی دئے۔جب انہوں نے عورتوں کو گھسیٹا،لاٹھیوں سے مارا، اور کہا کہ ‘علی،حسین’ کو پکارو کہ تمہیں آگے بچائیں۔اور پھر شازیہ و تنزیلہ دو عورتوں کو گولیاں مار دی گئیں۔
شاید جسٹس باقر نجفی رپورٹ کا یہ وہ حصّہ ہے جس کی جانب رانا ثناء اللہ نے اپنے ایک بیان میں یہ کہہ کر اشارہ دیا تھا کہ اگر یہ رپورٹ شایع ہوئی تو فرقہ واریت کا اندیشہ بڑھ جائے گا۔
جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کے یہ الفاظ اس طرح سے ادا کئے گئے ہیں کہ ان کو یا تو یہ الفاظ میڈیا کی جانب سے فراہم کی گئی سی ڈیز میں کہیں سنائی دئے، یا پھر ایجنسیوں نے ان کو ایسی وڈیو ٹیپ فراہم کیں جن سے یہ بات سامنے آئی۔
اب اس بات کے تناظر میں دو امکانات ہیں۔یا تو پنجاب پولیس ، ایلیٹ فورس میں ایسے اہلکار بھرتی کئے گئے جن کا تعلق مسلم لیگ نواز کی اتحادی تکفیری فرقہ پرست تنظیم سپاہ صحابہ پاکستان سے ہے اور ان کو اس آپریشن میں استعمال کیا گیا یا پھر یہ لوگ سرے سے پنجاب پولیس کا حصّہ نہ تھے،ان کو پولیس کی وردیاں پہناکر اس آپریشن میں استعمال کیا گیا۔
چیف منسٹر پنجاب کا حلفیہ بیان اس رپورٹ کی رو سے تضاد پہ مبنی ہے۔ان کی جانب سے ڈاکٹر توقیر شاہ کو ان کے فرائض منصبی کی ادائیگی سے الگ کرنے کا حلف میں جو ذکر ہے ،اس کی کسی بھی زریعہ سے تصدیق نہیں ہوئی،یہاں تک کہ ان کی اس واقعے کے فوری بعد چیف منسٹر کی پہلی پریس کانفرنس میں بھی اس کا ذکر نہیں ہے۔
جسٹس باقر نجفی کہتے ہیں کہ 17جون،2014ء کو ساڑھے دس سے 12 بجے کے درمیان جب عملی طور پہ نئے آئی جی پنجاب نے اپنے عہدے کا چارج نہیں لیا تھا اور نئے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ حلف لینے جارہے تھے،اس دوران کیا ہوا؟ کون ان معاملات کا نگران تھا؟ ان دو سوالوں کے جواب میں ہی ذمہ داری کا تعین ہوسکتا
ہے،جس کا جواب پنجاب حکومت اور کسی بھی اہلکار نے نہيں دیا۔
Source:
ماڈل ٹاؤن رپورٹ اور میڈیا ڈسکورس