سالگرہ مبارک ہو علی حیدر

فاطمہ علی حیدر نے اپنے شوہر ڈاکٹر علی حیدر کو ان کی سالگرہ پہ ایک خط لکھا ہے۔ڈاکٹر علی حیدر 18 فروری 2013ء کو اپنے بارہ سالہ بیٹے مرتضی حیدر کو ایچی سن کالج چھوڑنے جارہے تھے تو ایف سی کالج کے قریب پل پہ تکفیری دیوبندی دہشت گرد تنظیم سپاہ صحابہ پاکستان کے دہشت گردوں نے ان کی گاڑی پہ فائرنگ کی۔اس فائرنگ کے نتیجہ پہ دونوں باپ بیٹا شہید ہوگئے۔ان کے والد نے کہا کہ ان کا بیٹا اس لئے شہید ہوا کہ وہ شیعہ تھا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی آل سے محبت کرتا تھا۔

فاطمہ حیدر معروف سرجن راجا افتخار علی کی بیٹی ہیں۔انھوں نے اس سے پہلے او لیول کا رزلٹ آنے پہ اپنے بیٹے کے نام ایک دلخراش خط لکھا تھا۔اس بار انھوں نے اپنے مقتول شوہر کے نام خط لکھا ہے۔یہ خط اگرچہ کتھارسس کا ایک بہانہ ہے۔لیکن ہم پڑھنے والوں کے لئے یہ ان 70 ہزار تکفیری فاشزم کے ہاتھوں مقتول ہوئے لوگوں کے گھروں کی کہانیوں کی ایک نفسیاتی کیفیت کی علامت بھی ہے،جو مستقل ملال کی صورت اس پورے سماج پہ چھائی ہوئی ہے۔لیکن اب تک اس سماج پہ ‘رائے عامہ’ بنانے کے کی اتھارٹی ان قوتوں کے پاس ہے،جو تکفیری فاشزم کے بارے میں ‘انکار، جواز یا ابہام’ جیسے بیانیوں کو فروغ دیتی آئی ہیں۔ابتک یہ سماج تکفیری فاشزم کے خلاف ایک بڑی عوامی تحریک کو جنم دینے میں ناکام رہا ہے بلکہ اس سماج کے اندر اب بھی حافظ سعید، مسعود اظہر، محمد احمد لدھیانوی، سمیع الحق، فضل الرحمان سراج الحق،اورنگ زیب فاروقی اچھے ،برے طالبان و جہادی و تکفیری سب معتبر ہیں اور ان کو مزید مرکزی دھارے میں لائے جانے کے سامان ہورہے ہیں۔مترجم عامر حسینی

پیارے علی حیدر

اس خصوصی دن پہ سال بھر میں تمہارے پیاروں کے ہاں جو بدلاؤ آیا اس بارے تمہیں ایک دستاویز لکھتے ہوئے مجھے تمہیں بتانا ہے کہ ان میں سے تو کچھ بہت ہی مثبت اور کچھ دردناک بھی ہیں۔

اس سال ہم نے بابا ( ڈاکٹر علی حیدر کے والد ) کو کھودیا۔20 برسوں کے دوران،میں نے ان کو آج کے واقعات(تمہاری سالگرہوں) کو بڑی خوشی اور فخر کے ساتھ شمار کرتے پایا، اور پھر سسکیوں اور آنسوؤں سے یہ سب کرتے دیکھا،جبکہ آج وہ خود بھی یہاں نہیں ہیں۔میں ان کی روایت کو نبھاتے ہوئے ،جو میں یاد کرتی ہوں، اسے شئیر کروں گی۔وہ ہمیں بتایا کرتے تھے کیسے بوبو جی (تمہاری دادی اماں) نے پاکپتن سے اس دن ایک ٹیلی گرام/تار بھیجا تھا،جس دن تمہاری پیدائش کا انھوں نے سنا۔میرے پاس آج بھی وہ ٹیلی گرام/تار محفوظ ہے ،اسے میں نے بانو اور اسد کے لئے بچا رکھا ہے، جس میں بوبو جی نے تمہارا نام قمر حیدر رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔مجھے یاد ہے کہ میں تمہیں چھیڑا کرتی تھی کہ اگر تمہارا نام قمر حیدر ہوتا تو میں تم سے کبھی شادی نہ کرتی۔

بانو نے اس سال لکھنا سیکھا ہے اور اس کا پسندیدہ لفظ اردو میں ‘بابا’ لکھنا ہے۔میں اسے یہ لفظ بلند آواز میں لکھنے کے بعد کئی بار دوھراتے سنتی ہوں تو مجھے لگتا ہے جیسے وہ اسے تمہیں محسوس کرانے کے لئے اس لفظ کا ذائقہ چکھنے کی کوشش کررہی ہو۔میں اپنے آنسو ضبط کرنے کی کوشش کرتی ہوں اور اس سال میں نے اس میں کافی کامیابی حاصل کی ہے لیکن میرا دل اس مشق میں ناگزیر طور پہ ٹوٹ پھوٹ گیا ہے۔

صرف تمہیں دوبارہ یقین دلانے کے لئے بتانا ہے،اسد بہت تیزی سے مضبوط نوجوان مرد بن رہا ہے،اب بھی وہ زخم خوردہ ہے لیکن گزرتے سالوں میں وہ عقل مند ہوتا جاتا ہے اور اس کے پاس حوصلہ دینے والی نہ صرف میں ،اور بانو ہیں بلکہ اس کی دادای ،نانی اور اس کی پھوپھیاں، خالائیں بھی ہیں،جو تمہارے نقش قدم پہ چل رہی ہیں۔اور مجھے اس پہ بہت فخر ہے۔

میں اس خط میں دو تصویریں بھیج رہی ہوں،ایک تمہارے آخری بار سالگرہ کا کیک کاٹتے ہوئے بانو کو گود میں لئے ہونے کی ہے،اور یہ سال میرے اور بانو کے تکلیف دہ سوال و جواب کا سال بن چکا ہے،کیونکہ اس سال اس نے سوالات پوچھنے شروع کردئے ہیں جن کو میں بھی اتنے سالوں سے پکارہی تھی لیکن اس کے ساتھ یہ بھی جانتی تھی کہ وہ ناگزیر ہیں۔یہ سوال کہ تم اور مرتضی کب گھر آؤ گے؟ اور ہم آپ کو کال کیوں نہیں کرپاتے؟ اور اللہ عزوجل کے پاس کیا کوئی سیل فون نہیں ہے کہ ہم اس کے زریعے سے آپ سے بات کرسکیں؟اپنی ساری ہمت جمع کرکے، میں نے اسے بتا ہی دیا کہ تم اور مرتضی اب واپس نہیں آؤ گے اور تم سے بات کرنا ممکنات میں سے نہیں ہے۔پھر اس کی امیدوں کو نہ توڑنا چاہتے ہوئے اور اس کے دل کو مکمل ٹوٹنے سے بچاتے ہوئے،میں نے اسے بتایا کہ ہم ایک دن جائیں گے اور تم سے ملیں گے۔اس نے جواب میں مجھ سے پوچھا،’کب؟’ تو اس کے جواب میں ،میں نے کہا کہ تب،جب ہم نے جن کاموں کی لسٹ بنائی ہے ،ان کو سرانجام دیں لیں گے تب ہم تمہیں اور مرتضی کو جوائن کرلیں گے۔اور یہ کہ اسے بڑھنا ہوگا، تعلیم حاصل کرنا ہوگی،اور ایک پروفیشنل بننے کے بعد، شادی ،پھر بچے اور پھر ان کی پرورش اور تب شاید ایک دن ہم جائیں اور تمہیں ملیں۔امید کی چمک اپنی آنکھوں میں لئے تب کہیں جاکر اس نے اس موضوع کو ترک کیا۔

دوسری تصویر آج کی ہے،اور گزشتہ پانچ سالوں کے اس سفر کی روداد ہے جو تمہاری سالگرہ تمہارے بغیر مناتے گزرے۔میں نے اگلے دن اسے بتایا کہ آج تمہاری سالگرہ ہے۔اس نے لفظ بابا کئی بار دوھرایا اور پھر کہا ‘بابا! سالگرہ مبارک ہو۔’ ایسے لگتا تھا تھا جیسے اسے یہ احساس ہو کہ تم یہیں کہیں موجود ہو۔اس کے لئے تمہاری سالگرہ کا دن یاد رکھنا ایک خوشی کے دن جیسا رہا ہے،میں اسے اس کی پسندیدہ کھیل کی جگہوں پہ لے گئی۔

اگرچہ اس سال کی قراردادوں میں سے ایک کو ‘ ایسا ہونا چاہئیے تھا” میں نہیں ڈھلنا چاہئیے،لیکن اس بہت ہی خصوصی دن کے موقع پہ،میں ایسا کرنے کی رعایت لیتی ہوں۔میری خواہش ہے کہ تم آج یہاں ہوتے تاکہ بانو تمہاری گود میں بیٹھتی اور کیک کاٹتے،تاکہ اسد اپنے ‘گا جی ‘ کے گلے سے لپٹ جاتا، جیسے کہ وہ تمہیں کہا کرتا تھا۔اور میرے اپنے واسطے ،میری خواہش ہے کہ مرتضی بھی یہاں ہوتا اور میں اسے بھی ایک بار پھر سے گلے لپٹا پاتی ۔

HAPPY BIRTHDAY ALI HAIDER!!!!”

سالگرہ مبارک ہو علی حیدر !!!!!!!!!!
فاطمہ

Comments

comments