تکفیری وہابی فاشزم کی شام اور عراق میں شکست : تصوف کے ماننے والوں پہ حملے تیز ہوگئے – محمد عامر حسینی
مصر: الصوفيّون في مرمى نيران التكفيريّين
‘لكن ثمة عنصراً جوهرياً، لا يمكن تجاهله في مذبحة الروضة، ويتمثل في الهدف الرمزي للهجوم الإرهابي، وهو الحالة الصوفية، بما تشكله من مكوّن أساسي في التراث الديني الذي لطالما أضفى على التديّن في مصر طابعاً خاصاً، وشكّل لسنوات طويلة نموذجاً للإسلام الوسطي، قبل أن تخترقه التيارات المتشددة التي تغرف من الفكر الوهابي المتزمّت
مصر کے شمالی صحرائے سینا کے صوبہ العریش کے قصبے بئر العبد میں مسجد پہ تکفیری سلفی وہابی دہشت گردوں کے حملے میں مرنے والوں کی تعداد 305 ہوگئی ہے۔اس حوالے سے مصر اور عالم عرب میں بحث کا جو رخ ہے وہ اس میں ایک بار پھر تکفیری فاشزم کے تباہ کن اور ہولناک کردار پہ بحث بہت نمایاں ہے۔روزنامہ الاخبار بیروت نے 27 نومبر 2017ء کی اشاعت میں، مصر کے معروف اخبار ‘الاہرام’ نے بھی صحرائے سینا میں تکفیری سلفی وہابی فاشسٹوں کی کاروائیوں کے جہاں اور بہت سے اہداف گنوائے ہیں،وہیں ان کا سب سے بڑا ہدف مصر کی صوفی سنّی آبادی کو بتایا ہے۔ایک مضمون کی سرخی’ صوفی تکفیریوں کے غیظ آتش کے نشانے پہ’ ہے۔
اس مضمون کے مطابق داعش کی شام اور عراق میں شکست کے بعد داعش اور اس کے حامی جن مذہبی برادریوں کو اپنی شکست کا ذمہ دار خیال کرتے ہیں،ان میں صوفی سنّی بدرجہ اتم شامل ہیں۔داعش کے حامیوں نے اب اور زیادہ شدت سے صوفی سنّی اسلام کے ماننے والوں کو ہدف بنالیا ہے۔
الروضہ مسجد پہ حملے کے بعد داعش/انصار بیت المقدس سینا کے نشرواشاعت کے شعبہ نے خبر جاری کی اس میں ‘تجمع للشيعة من الطرق الصوفية الكفار’کافر صوفیوں کے راستے آنے والے شیعہ کے اجتماع’ پہ حملہ کرنے کا اعتراف کیا گیا۔جب سب کو معلوم ہے کہ صوبہ العریش مصر اور اس کا گاؤں بئر العبد شافعی اشعری اور صوفی طریقہ شیخ احمد الجریری کے لوگوں کی اکثریت کا گاؤں اور یہ مسجد بھی ان کے کنٹرول میں ہے۔اس سے ان کی تکفیری سوچ کا اندازہ لگایا جانا مشکل نہیں ہے۔
مضمون نگار نے لکھا ہے کہ مصر میں صوفی اسلام کو مارجنلائز کرنے اور اسے اقلیت میں بدلنے کا سلسلہ جدید تکفیریوں سے شروع نہیں ہوا بلکہ یہ سلسلہ سید قطب کے زمانے میں اخوان المسلمون کی کایا کلپ ہونے اور اخوان المسلمون کے سعودی سلفی اسلام اور آل سعود کے ساتھ اتحاد بنانے سے شروع ہوا تھا اور اب یہ بہت ہی خطرناک روش اختیار کرگیا ہے۔اور مصر میں تکفیری فاشزم صوفی اسلام کو ویسے ہی نشانہ بنارہا ہے جیسے اس نے افغانستان، پاکستان، شام، عراق اور شمالی افریقہ کے مسلم اکثریتی ممالک میں بنایا ہے۔
صحرائے سینا میں انصار بیت المقدس نامی تنظیم جو خود کو داعش کی شاخ بتاتی ہے نے صوفی اسلام کے ماننے والوں کو تنبیہ کی کہ وہ ‘شرک و بدعت ‘ (صوفی شعائر،رسوم) سے باز آجائیں۔انھوں نے صوفی اسلام کو کفر قرار دیتے ہوئے قبور کو زمین کے برابر اور ان پہ بنے مزارات کو ڈھانے کا کہا۔اور پھر جو ان احکامات کو نہیں مانے گا اس کو مرتد خیال کیا جائے گا اور اس کا قتل مباح ہوگا۔اس اعلان کے بعد درجنوں مزارات پہ بم دھماکے، فائرنگ کی گئی اور صوفی مشائخ کا قتل کیا گیا۔
تکفیری فاشزم مصر میں نظریاتی اور مسلح دہشت گردی کے ساتھ صوفی اسلام پہ حملہ آور ہے۔اور مصر میں اس کا فکری اور عملی طرز اسی طرح سے ہلاکت خیز ہے جیسے یہ پاکستان میں ہلاکت خیز ثابت ہوا اور اس نے یہاں 70 ہزار پاکستانی شہریوں کی جان لے لی۔
مضمون نگار کا خیال ہے الروضہ مسجد پہ ہوئے حالیہ حملے کا جو جوہری و بنیادی سبب ہے اس سے غفلت نہیں برتی جاسکتی وہ تکفیری دہشت گردوں کی کے حملے کا علامتی ہدف ہے۔اور یہ علامتی ہدف ‘صوفی اسلام’ ہے۔یہ صوفی اسلام مصر کا ثقافتی ورثہ اور صدیوں مصر میں مسلمانوں کی واحد ثقافت رہا ہے تاآنکہ یہاں پہ متشدد مذہبی خیالات کی تحریکوں نے جنم لیا جو کہ وہابی فکر سے متاثر تھیں۔
Link: http://al-akhbar.com/node/287022