ڈیرہ، کبھی تھا “پھلاں دا سہرا” – اب لہو لہو ہے – حیدر جاوید سید

دنیا قصوں کہانیوں سے بھری پڑی ہے۔ ہر شخص اور ملک اپنی اپنی مار میں ہے۔ سب اپنا رانجھا راضی رکھنے کے چکروں میں ہیں۔ ان سارے قصوں کہانیوں کے بیچوں بیچ ہوئی اہم بات نظر انداز ہوئی۔ سعودی عرب میں اپنے منصب سے مستعفی ہونے والے لبنانی وزیراعظم سعد الحریری نہ صرف وطن واپس پہنچ گئے بلکہ اپنے استعفیٰ کو بھی عارضی ور پر معطل کردیا۔ ادھر داعش کے جنگجو شام اور عراق میں مکمل شکست کے بعد نئے ٹھکانوں کی طرف نکل گئے۔ لیبیا ان کی نئی جائے پناہ ہے۔شام سے لیبیا تک راستہ کس نے دیا، وسائل کس نے اور تحفظ کس نے، یہ راز اب راز ہرگز نہیں ہے لیکن زیادہ مناسب یہ ہو گا کہ ہم یمن کے اس میدان جنگ کی بھی بات نہ کریں جہاں سعودی عرب کی قیادت میں قیامت بونے کا سلسلہ جاری ہے۔ جارح چونکہ سعودی عرب ہے اور مکہ و مدینہ سعودی عرب میں ہیں اس لئے سعودی عرب کی مخالفت میں بولنے سے لوگ ڈرتے ہیں کہ مبادا مقدسات کی گستاخی کا الزام نہ لگ جائے۔

ہم ہندی مسلمانوں کو گستاخ گستاخ کھیلنا بہت پسند ہے۔ ہمارے ملاؤں کی دال روٹی اور لینڈ کروزر اسی سے چلتی ہے۔ خود ہمارا خون بھی گرم رہتا ہے۔ پاکستان میں تو لہو گرم رکھنے کےلئے چند کالعدم تنظیموں کے دہشت گردوں کو مکمل آزادی ہے یا پھر فیض آباد دھرنے والے مولانا خادم کو گالیاں دینے، عامر لیاقت کو کرائے کا بدزبان بننے اور ڈاکٹر شاہد مسعود کو آثارِ قیامت بتاتے رہنے کی۔ میرے دوست عامر حسینی کہتے ہیں کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں دو دہائیوں سے جاری شیعہ مسلم نسل کشی پر لکھوں۔ وہ ایک سلسلہ ہائے مضامین کے متقاضی ہیں اور ادھر غمِ روزگار سے وقت میسر نہیں۔

ڈھنگ سے یاد ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان شہر سے پہلا تعارف سال 1973ء میں ہوا تھا جب ہم کچھ دوست کراچی سے ایک طویل سفر طے کرکے ملتان اور تونسہ کے راستے ڈیرہ اسماعیل خان پہنچے تھے۔ اس لمبی مسافت کی وجہ ہمارے ڈیرہ وال کلاس فیلو ارشد علی بلوچ کا یہ دعویٰ تھا کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں چاند دریائے سندھ کے اندر سے طلوع ہوتا ہے (ارشد کے سرائیکی والدین اور بہت سارے رشتہ دار کرچی میں مقیم تھے ۔ ارشد کے والد علی عباس بلوچ غالباََ کے پی ٹی میں اچھے عہدے پر تھے) سندھ دریا اور چاند کا نقشہ وہ کچھ ایسے کھینچتا کہ ہم تین چار سرائیکی اور سندھی دوست ایک لمبی مسافت کے لئے تیار ہوگئے۔ دو دن کے سفر کے بعد ہم ڈیرہ اسماعیل خان پہنچے۔ بلوٹ روڈ (یہ غالباََ اب چشمہ روڈ کہلاتا ہے) اس کی خالہ کے ہاں ڈیرے ڈالے اور اگلے دن چودہویں کے چاند کا نظارہ کرنے دریائے سندھ کے کنارے پہنچے۔ ان دنوں دریائے سندھ کا پاٹ بہت چوڑا ہوا کرتا تھا۔ بھکر اور ڈیرہ اسماعیل خان کے درمیان دریا میں ایک مسافر بردار بحری جہاز بھی چلا کرتا تھا۔ واقعتاََ ایسا ہی محسوس ہوتا تھا کہ چاند دریا کے سینے سے طلوع ہو رہا ہے۔

یہ ڈیرہ سے پہلا اور نہ بھولنے والا تعارف تھا۔ چار پانچ دنوں کے قیام کے دوران ہم نے درگاہ بلوٹ شریف اور ٹانک بھی گئے۔ میٹھی سرائیکی بولنے والوں کے اس شہر میں اجنبیت کا احساس بالکل بھی نہیں ہوا۔ ڈیرہ سے پہلا تعارف لازوال تعلق کا باعث بنا۔ اس ڈیرہ اسماعیل خان کو “ڈیرہ پھلاں دا سہرا” بھی کہا جاتا تھا۔ اس لئے لکھا ہے کہ دریائے سندھ کے کنارے آباد اس شہرِ محبت کو نجانے کس کی نظر لگ گئی۔ 1970ء کے عام انتخابات میں اس شہر سےپشتو بولنے والے مولانا مفتی محمود کبھی ذوالفقار علی بھٹو کو شکست دے کر کامیاب نہ ہوتے اگر انتخابات سے کچھ وقت پہلے اس شہر کے محبوب و دلنواز سیاسی رہنما حق نواز گنڈا پور شہید نہ کر دیے جاتے۔ ہمارے کلاس فیلو دوست ارشد علی کے والد حق نواز گنڈا پور سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے حق نواز کا قتل جو سرخ آندھی لایاتھا وہ کبھی ڈیرے کی جان نہیں چھوڑے گی۔

خدا لگتی بات یہ ہے کہ اس سرخ آندھی نے تقریباََ ساڑھے چار دہائیوں بعد بھی ڈیرہ اسماعیل خان میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ اس شہر بے مثال میں پچھلی دو دہائیوں کے دوران جتنا خون بہا اور جتنے ڈیرے وال زمین زادے موت کا رزق ہوئے اس حساب کو سمجھنے کے لئے ڈیرہ کے قبرستانوں میں دو دہائیوں کے دوران بنی قبریں شمار کرنا پڑیں گی۔ سچ یہ ہے کہ شاید ہی کوئی ڈیرے وال ایسا ہو جسکے سینے اور آنکھوں میں اس کے ایک آدھ پیارے کی قبر نہ ہو۔

ڈیرے والوں اور سندھ دریا کے کنارے آباد اس قدیم تاریخی شہر سے محبت بھرا رشتہ قیام پشاور کے دنوں میں مستحکم ہوا۔ ڈیرے وال خوش تھے کہ ان کا ایک ہم زبان پشاور کے اخبارات کے ادارتی عملے میں شامل ہے اور ان کے سرائیکی تشخص کے لئے لکھتا ہے۔ نیئرسرحدی اور سیدہ فرزانہ علی کے علاوہ بھی کچھ ڈیرے وال پشاور کی صحافت میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔ اردو کے عہد ساز شاعر پروفیسر غلام محمد قاصر مرحوم کا خمیر بھی اسی مٹی سے اٹھا ہے۔ پر اس شہر پر مسلط لال آندھی ٹلتی دیکھائی نہیں دیتی۔ پچھلی دو دہائیوں کے دوران جہاں سرائیکی بولنے والے شیعہ مسلمانوں کی ٹارگٹ کلنگ اور خودکش حملوں میں سینکڑوں شہادتیں ہوئی ہیں وہیں ایک منصوبے کے تحت غیر ڈیرے والوں کو ڈیرہ اور ٹانک میں لا بسایا گیا ۔

قبائلی علاقوں سے لا کر شہر میں بسائے گئے کچھ تو وہ ہیں جنہیں مقتدر حلقوں کی آشیر باد حاصل تھی اور کچھ وہ جو مولانا فضل الرحمٰن کے اس منصوبے کا حصہ ہیں کہ کسی طرح ڈیرہ کی سرائیکی آبادی کو جو سرائیکی قومی تشخص اور قومی مزاحمتی تحریک کا ہمیشہ سے ہراول دستہ رہی ہے ، اقلیت میں تبدیل کر دیا جائے۔ ڈیرہ بنیادی طور پر صوفی سنیوں( بریلویوں) اور شیعہ مکتب کے سرائیکی بولنے والوں کا شہر ہے۔ خیبر پختونخواہ کی عمارت جس این ڈبلیو ایف پی نامی صوبے کی نشانیوں پر اٹھائی گئی ، ڈیرہ اسماعیل خان کو اس نئے صوبے میں لارڈ کزن نے 9 نومبر 1920ء میں سرائیکی وسیب سے کاٹ کر این ڈبلیو ایف پی میں شامل کیا تھا۔ ڈیرے وال اس لئے 3 سال کم ایک صدی سے ہر سال 9 نومبر کو یوم سیاہ مناتے ہیں۔ کسی زمانے میں ڈیرہ اسماعیل خان ، دریا خان اور ڈیرہ غازی خان خود مختار ریاستیں ہوا کرتی تھیں۔ مگر یہ بہت پرانے زمانے کی بات ہے۔

پچھلی دو دہائیوں کے دوران اس شہر مثال میں جتنے صوفی سنی اور شیعہ ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے یا نماز جنازہ پر ہوئے خود کش حملے اور ہسپتال حملے میں شہید ہوئے ان کی 99 فیصد تعداد سرائیکی بولنے والوں کی تھی۔ آخر ڈیرے والوں کا کون ایسا دشمن ہے جس کا نشانہ صرف سرائیکی شناخت رکھنے والے مختلف الخیال مسلمان بنتے ہیں؟ اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہوئے دانتوں پسینہ آ جاتا ہے۔ ذاتی طور پر میں ان چند لوگوں کو بھی ذمہ دار سمجھتا ہوں جو نجی محفلوں میں یہ کہتے نہیں تھکتے کہ مولان فضل الرحمٰن ڈیرے کو خالص پشتون آبادی والا شہر بنانے کا منصوبہ رکھتے ہیں مگر انتخابات کے دنوں میں وہ اسی فضل الرحمٰن کے قصیدے پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ ڈیرہ کی قدیم ترین آبادی کوٹلی امام حسین ؑ کا تو شائد ہی کوئی گھر ایسا ہو جہاں بچ رہنے والے کے سینے اور آنکھوں میں دو چار پیاروں کی قبریں نہ ہوں۔

مظلوم و مجبور ڈیرے والوں کی کیسی قسمت ہے کہ ریاست نے ان کی نسل کشی کا کبھی نوٹس نہیں لیا۔ عدالتوں نے بھی تب بھی نہیں جب چودھری افتخار سموسوں کی قیمت اور آدھی بوتل شراب پر ازخود نوٹس لے لیا کرتے تھے۔ ڈیرے میں آئے دن گرنے والی ہر لاش اس قدیم واسیوں سے جس شہری ، سماجی اور ثقافتی اتحاد کا تقاضہ کرتی ہے یہ شہر اس سے بھی محروم ہے۔ ان کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ان کے بہت سارے لیڈر ڈیرے میں تو خود کو فخر سے سرائیکی کہتے ہیں لیکن پشاور پہنچتے ہی وہ پشتون بن جاتے ہیں۔ یقین نہ ہو تو کنڈیوں اور گنڈا پوریوں کی پچھلی دس سالہ “تاریخ” پر نگاہ ڈال لیجیئے۔

لال آندھی کے آسیب کی گرفت میں آئے دن اپنے کسی بیٹے کے لہو سے غسل لیتے ڈیرہ اسماعیل خان کا نوحہ کہنے والا ہوئی ہے نہ سننے والا۔ نوحہ خوانی بھی تو تبھی ہوتی ہے جب کوئی سنے۔ مظلوم طبقات کی اس ملک میں کوئی نہیں سنتا۔ محبت بولنے، محت بونے، محبت تقسیم کرنے والے ڈیہ وال پیاروں کی لاشیں اٹھاتے ہیں، کفناتے اور دفناتے ہیں پھر آنسو بھری آنکھوں سے نیلے آسمان کی طرف دیکھ کرفقط اتنا کہتے ہیں “چنگا سوہنا مالک آ !جیویں تیڈی رضا” سوال یہ ہے کہ گرتی لاشیں ، بنتی قبریں مالک کی رضا ہیں یا ایک منظم نسل کشی کے منصوبے پر عمل کا نتیجہ؟ یہ دس ملین ڈالر کا سوال نہیں۔ اس کا جواب ڈیرے والوں کے چہروں پر لکھا ہے بس کھلی آنکھوں سے پڑھنا شرط

Comments

comments