سعد حریری کے لئے سعودی فضا مہربان نہیں رہیں – مستجاب حیدر نقوی
برطانوی صحافی رابرٹ فسک جنھوں نے ہمیشہ مڈل ایسٹ کے معاملات پہ اپنے پڑھنے والوں کو ماضی،حال اور مستقبل تین زمانوں کو ایک مستقل لہر کی شکل میں بہتے دکھایا ہے اور اکثر ان کی پیشن گوئی ٹھیک خیال ہوتی ہے۔ابھی دو دن پہلے انھوں نے اپنے پڑھنے والوں کو خبر دی ہے کہ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکراں لبنان کے مغوی وزیر اعظم کو ان ک خاندان کے ساتھ پیرس لیجانے کو تیار ہوگئے ہیں۔اس موقعہ پہ رابرٹ فسک نے اسے سعودی عرب کی تاریخ میں سب سے شریفانہ یرغمال بنانے کا واقعہ بھی قرار دیا۔
سعد حریری سعودی عرب سے پیرس کے لئے روانہ ہوتوگئے لیکن ان کا خاندان ابھی سعودی عرب میں ہی ہے۔
رابرٹ فسک کہتے ہیں کہ ان کو اس موقعہ پہ چند سال پہے سعد حریری کی کہی ہوئی بات یاد آگئی جب 2009ء میں وہ پہلی بار لبنان کے وزیراعظم بنے تھے۔رابرٹ فسک کہتے ہیں کہ وہ قریطم پیلس میں حریری کے دفتر میں بیٹھے تھے اور انھوں نے اس سے پوچھا کہ کیا وہ لبنان کا وزیراعظم بننے پہ خوش ہیں؟
اس وقت ان کے صرف دو مشیر ان کے ساتھ تھے۔انھوں نے کہا تھا،’میں اپنے والد کے نقش قدم پہ چل رہا ہوں۔’اور یہ بات انھوں نے بار بار دوھرائی تھی۔وہ اپنے والد رفیق حریری کی بات کررہے تھے جو کہ لبنان کے وزیراعظم رہے اور 2005ء میں بیروت میں ایک بم دھماکے میں مارے گئے تھے۔
حریری اپنے والد کے نقش قدم کی پیروی کرنے کی بات ہمیشہ کرتے تھے۔اور اس بات پہ لوگ ان کو برا بھلا بھی کہتے تھے۔تو ان کے اس جواب کے بعد بھی رابرٹ فسک نے کہا کہ انھوں نے پھر اپنے سوال کو دوھرایا تو حریری کے جواب نے ان کو ہلا کر رکھ دیا۔
‘تم جانتے ہو کہ یہ میری ڈیوٹی/فرض ہے،’ سعد حریری نے کہا۔’میں سعودی عرب کو بہت مس کرتا ہوں۔میں اپنے خاندان کو کار میں باہر لیکر پھیرنے اور صحرا کے اندر رات کو سیر کرنے اور اپنے چہروں پہ صحرا کی ٹھنڈی ہوا محسوس کرنے کو مس کرتا ہوں،اور جبکہ ہم بس ہم تنہا ہوتے۔کوئی پولیس والا نہیں،کوئی سیکورٹی نہیں،کوئی فوجی نہیں۔’
رابرٹ فسک کہتا ہے کہ اس وقت اس نے اس بات سے یہ اندازہ لگایا تھا کہ سعد حریری کو لبنان میں پولیس،سیکورٹی اور فوجیوں کے ساتھ رہنے سے زیادہ سعودی عرب کے ساتھ جڑے رہنا پسند ہے۔لیکن اس بات میں خود حریری خاندان کا بھی دلچسپ عکس ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے۔
رابرٹ فسک یہ کہہ کر ہمیں سعد حریری کے والد کی زندگی کی چند جھلکیاں دکھانے کے لئے ماضی میں لیجاتا ہے۔وہ لکھتا ہے:
‘میں اس کے والد کو اس کی نسبت زیادہ اچھے سے جانتا تھا۔جب وہ 21 افراد کے ساتھ بیروت میں 2005ء میں ایک ساحلی ریستوران میں خودکش بم دھماکے میں مارا گیا،تو میں نے رفیق حریری کی لاش ایک سڑک کنارے پڑے دیکھا۔اور پہلے میں نے یہ سوچا تھا کہ وہ کوئی لبنانی ساحل پہ پودینہ روٹی بیچنے والا کوئی آدمی ہوگا،یہاں تک کہ میں نے کالر پہ اس کے بال دیکھے تو مجھے سمجھ آیا۔اس کی جرابوں میں آگ لگی ہوئی تھی۔ایک ساتھی کے ساتھ میں پہلی بار رفیق حریری کو بیروت نہیں بلکہ ریاض میں ملا تھا،جہاں پہ اس کے بیٹے کو یرغمال بنایا گیا۔اگرچہ وہاں پہ وہ آسائشوں کے ساتھ رکھا گیا جس کی حریری خاندان کو عادت ہے۔
یہ 1990ء کی بات ہے،جب ابھی وہ وزیراعظم نہیں بنا تھا۔رفیق حریری اس وقت جوان تھا۔وہ ایک عمارت کے اندر اپنے دفتر میں بیٹھا تھا۔یہ عمارت اوجیہ شرکۃ سعودی کمپنی کا ہیڈکوارٹر تھا جو اب دیوالیہ ہوچکی ہے۔وہ عرب کارباریوں کی فرسٹریٹ کرنے والی مرغوب عادت کی طرح اپنے مشیروں سے بات کرنے کے دوران مستقل ٹیلی ویژن سکرین کی طرف دیکھ رہا تھا تاکہ بات چیت سے تھوڑا سا دھیان ہٹاسکے۔
حریری لبنان کے لئے اپنے تئیں عظیم خیالات رکھتا تھا۔ظاہر سی بات ہے وہ خانہ جنگی کے بعد لبنان کی تعمیر نو چاہتا تھا۔تو ہم نے اس سے پوچھا،’تو آپ سعودی عرب میں کیوں ہیں؟’۔اس نے کہا،’مجھے کیوں نہیں ہونا چاہئیے؟ یہ رہنے کے لئے اچھا ملک ہے۔یہ عظیم ملک ہے۔بس اتنا اہتمام کریں کہ آپ سیاست میں ملوث نہ ہوں۔’
آہ،یہی تو اصل مسئلہ تھا۔رفیق حریری ہمیشہ حزب اللہ کے بڑھتے ہوئے سیاسی عزائم بارے بہت فکرمند رہتا تھا۔جب حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے رفیق حریری کے جنوبی لبنان میں سٹیل اینڈ کلاس کے تعمیر کردہ نئے ہوائی اڈے کے عین سامنے شہداء کی یادگار تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا تو اس نے میرے سامنے اپنے سخت غصّے کا اظہار کیا۔’کیا تم تصور کرسکتے؟یہ آدمی اسرائیل کے ہاتھوں مارے جانے والے حزب اللہ کے لوگوں کی لاشیں (قبریں) عین انٹرنیشنل ائرپورٹ کے داخلی راستے کے مدمقابل رکھنا چاہتا ہے،یعنی سیاح آتے ہی سب سے پہلے ان کو دیکھیں۔’ حریری نے وہ منصوبہ رکوادیا تھا۔
دنیا، جس سے اس وقت مراد امریکہ تھی نے ایرانی فنڈڈ حزب اللہ پہ حریری کے قتل کا الزام عائد کیا،اور تب سعد حریری وزیراعظم بن گئے،ان کو بھی حزب اللہ سے خطرہ لگتا تھا، اگرچہ بہت سے جس میں،میں خود بھی شامل ہوں اس بارے میں شکوک ہیں کہ یہ کام کسی اور ہے حزب اللہ کا نہیں۔گزشتہ سال جب سعد حریری دوبارہ بطور وزیراعظم کے لوٹے تو انھوں نے اپنی حکومت میں حزب اللہ کے وزیروں کی شمولیت کے ساتھ اور بھی کئی خطرے اپنے اردگرد منڈلاتے محسوس کئے۔بطور سنّی شہری اور ساتھ ساتھ لبنانی ہونے کے سعودی عرب کو اس سے توقع تھی کہ وہ حزب اللہ کو توڑ پھوڑ کا شکار کرے گا۔لیکن اسے متحدہ لبنان پہ حکمرانی کرنا تھی نہ کہ ایک اور خانہ جنگی کی طرف اپنے ملک کو لیکر چلا جاتا۔
تو جب سعودی عرب کے 32 سالہ نوجوان شہزادے محمد بن سلمان نے شیعہ اسلامکی طاقت توڑنے کی کوشش کی، تو لبنان اور حریری بھی اس خطرناک نوجوان آدمی کے غیض و غضب کی لپیٹ میں آگئے۔شہزادے نے بشار الاسد کی حکومت کو تباہ کرنے کی کوشش کی۔وہ ناکام ہوگیا،اس نے یمن کے زیدی شیعہ (اور سابق سنّی صدر عبداللہ صالح کے حامیوں) کے خلاف جنگ شروع۔یہ ایک بڑی تباہی میں بدل گئی۔اس نے قطر کو معاشی پھانسی دینے کی کوشش کی کہ اس طرح سے وہ ایران سے اپنے قریبی روابط ختم کردے، اور الجزیرہ چینل کو بند کردے لیکن یہ منصوبہ بھی ناکام ہوگیا۔تو اب اس نے اپنی بڑے پیمانے پہ در آنے والے جنون کا رخ لبنان کے خلاف کردیا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ یہ منصوبہ بھی سرے سے ناکام ہوگا۔اور جزوی طور پہ اس ناکامی کی وجہ صدر میکراں ہیں۔اور سعد حریری کیونکہ فرانسیسی شہری بھی ہیں،اس لئے میکراں ان کے لئے کھڑا ہونے کا جواز رکھتے ہیں۔میکراں حریری کی بیوی اور اس کے دو بچوں کو بھی فرانس اپنے ہمراہ لیجانا چاہتے ہیں۔تاکہ پیچھے کوئی یرغمالی نہ رہے۔لیکن پیچھے رہ جانے والے تو ہیں۔سعد کا بھاؤی بہا حریری ہے۔
تمام تر جوش اور غیض کے بلبلے اٹھانے کے ایک بات بہت واضح ہے کہ سعودی خود ایران پہ حملہ نہیں کریں گے۔کیونکہ ولی عہد شہزادے کے لئے ایسا کرنا بہت خوفناک اور ڈرادینے والا عمل ہوگا کہ جسے چلانا ممکن نہیں ہوگا۔لیکن یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ حریری کو کس قدر سعودی عرب پسند تھا اور شاید اب بھی وہ اسے پسند کرتا ہے۔جب سعد حریری نے مجھے بتایا تھا کہ وہ کیسے سعودی عرب میں رات کو اپنے خاندان کے ساتھ صحرا کی لانگ ڈرائیو کو پسند کرتا ہے تو اس کے فوری بعد جب ميں نے لبنان کے لئے اس کے عزائم بارے پوچھا تھا تو اس نے جواب دیا تھا: ‘لبنان میں پانچ سال سیاست کرنے کے بعد میں چلا جاؤں گا۔’
آٹھ سال پہلے اس نے کہا،اور آٹھ سال بعد سعودی ٹی وی پہ اسے زبردستی اپنے استعفے کا اعلان کرنے کو کہا گیا۔تو وہ اس عمل سے واقعی چلا گیا۔خبریں گردش کررہی ہیں کہ ریاض میں یورپی سفیروں نے حریری کے استعفے کے بعد اس کی جان کو خطرہ ہونے کا احساس اپنے اندر پایا۔جبکہ کچھ سفیروں کو سعودی وزیر خارجہ اور امریکہ میں رہے سفیر عادل الجبیر کے مستقبل بارے خدشات تھے، جنھوں نے لازمی شہزادہ ولی عہد محمد بن سلمان کو حریری کو نہ دبانے کا مشورہ دیا ہوگا۔اگر اس نے ایسا کوئی مشورہ دیا تھا تو ظاہر ہے اس پہ کان نہیں دھرے گئے۔جب الجبیر بعد میں ٹی وی سکرین پہ نمودار ہوا تو اس کی آنکھوں سے دکھ و پریشانی عیاں تھی جو اس کے حریری خاندان سے گہرے تعلقات کی عکاسی تھی۔
حریری بیروت میں فیوچر موومنٹ کے اندر اپنے کچھ انتہائی قریبی مشیروں سے خود بھی مطمئن نہ تھا۔فیوچر موومنٹ بھی سعودی فنڈڈ اتحاد ہے۔کوئی ابتک یہ نہیں بتاسکتا کہ کون اس کی پیثھ میں چھرا گھونپنے پہ آمادہ ہے۔بعض فواد سینورا کی جانب اشارہ کرتے ہیں،جوکہ ایک ماہر،خداداد صلاحیتوں کا مالک معاشی ماہر اور اکیڈمک ہے اور اسے وفادار دوست خیال کیا جاتا ہے۔اور یقینی بات ہے کہ وہ ڈاکٹر فاؤسٹ نہیں ہے۔میں نے ہمیشہ سینورا کو پسن کیا ہے۔
وہ سعد کے والد رفیق حریری کے ساتھ ہمیشہ کھڑا رہا جب جب اس کے دشمنوں نے رفیق حریری کی لبنانی حکومت پہ بدعنوانی کے الزامات لگائے۔لیکن بیروت کی سیاست سعودی عرب سے بھی کہیں زیادہ پھسل جانے والی اور بعض اوقات بہت خطرناک اور اچانک سے بدل جانے والی ہے۔
جب سعد حریری کو سعودی سیکورٹی اہلکاروں نے ریاض ائڑپورٹ سے لیا تو اس رات ریاض میں اس نے خود کو ریاض رٹز-کارٹلن ہوٹل سے چند سو قدموں کی دوری پہ پایا تھا جہاں ولی عہد شہزادے کے درجنوں حریف پہلے سے ہی بدعنوانی کے الزام میں نظر بند کردئے گئے تھے۔وہ یقینی بات ہے کہ حیرانی سے سوچ رہا ہوگا کہ کیا اسے بھی ان کے پاس بھیج دیا جائے گا۔تو یقینی بات ہے کہ اس وقت سعودی صحرا کی آزادی اسے اتنی پرکشش نہیں لگی ہوگی۔’