مجبور و محصور لبنانی وزیراعظم کا ٹی وی انٹرویو اور سعودی عرب کے عزائم – مستجاب حیدر نقوی
لبنانی وزیراعظم سعد حریری کے استعفے کا ڈرامہ جب مطلوبہ نتائج پیدا کرنے میں ناکام رہا تو سعودی عرب نے ایک لکھا لکھایا سکرپٹ حریری کے حوالے کیا اور اس کی ذاتی ٹی وی چینل سے اسی سکرپٹ پہ مبنی ایک انٹرویو نشر کیا گیا۔اس انٹرویو کے سکرپٹ زدہ ہونے کی خبریں بھی چھپی نہ رہ سکیں۔مڈل ایسٹ پہ مصدقہ اطلاعات فراہم کرنے والے سب سے تجربہ کار برطانوی نژاد صحافی رابرٹ فسک نے ہمیں اپنی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا
‘ ایک انتہائی معمول سے ہٹ کر اور مجبوری میں کیا گیا انٹرویو سعد حریری نے سعودی عرب کی حراست میں ریاض کے اندر بیٹھ کر اپنے ذاتی ٹیلی ویژن چینل کو دیا۔یہ انٹرویو سعودی عرب نے بیروت میں مقیم فیوچر ٹی وی کی ٹیم کو سعودی عرب آنے کی اجازت نہ دینے کے بعد صرف اس صورت میں اجازت دینے کی حامی بھری جب اس انٹرویو کو سعودی عرب کے سرکاری ٹیلی ویژن چینل کے لوگ ہی فلم بند کریں۔’
رابرٹ فسک نے اپنے تازہ مضمون میں یہ انکشاف بھی کیا،’اسی طرح جب ہم نے لبنان کی مقبول اینکر پاؤلا یعقوبین ریاض میں فیوچر ٹی وی کے نیوز ڈائریکٹر ندیم قطیش کی موجودگی میں اس سے سوال جواب کررہی تھی تو سعودی حکام اس کے کسی سوال اور حریری کے جواب کو نشر نہ ہونے دینے یا حریری کے الفاظ کاٹنے کی پوزیشن میں تھے اگر وہ بہت ہی احتیاط سے لکھے گئے سکرپٹ سے ہٹ کر ہوتے۔اور انٹرویو بذات خود حریری کے ان خیالات کی عکاسی نہیں کررہا تھا جو اس نے مسلسل لبنان میں عوام کے سامنے پیش کئے تھے بلکہ یہ تیزی سے ابنارمل اقدامات اٹھانے والے ولی عہد شہزادے محمد بن سلمان کی قیادت کے نیچے کام کرنے والی سعودی حکومت کے خیالات کا عکس تھا۔’
سعد حریری کی فیوچر ٹیلی ویژن چینل پہ اس انٹرویو کے دوران جو بدن بولی/باڈی لینگویج ، چہرے کے تاثرات اور لہجے کا آہنگ تھا، اس کا جائزہ بھی تجزیہ نگاروں نے لیا ہے۔رابرٹ فسک بھی اس بات کی تائید کرتا ہے۔حریری کا چہرہ شگفتگی سے عاری تھا۔چہرے پہ پریشانی عیاں تھی۔عام طور پہ اس کے چہرے پہ جو مسکان پھیلی رہتی تھی وہ غائب تھی۔بلکہ رابرٹ فسک اور دوسرے صحافی کہتے ہیں کہ وہ جب بھی انٹرویو دیتا تھا تو اس کے چہرے پہ مسکراہٹ سجی رہتی تھی۔
حریری نے کہا کہ اس نے اپنی استعفا دینے کا اعلان کرنے والی تقریر سے دو ہفتے پہلے ہی استعفا لکھ کر رکھا ہوا تھا۔حالانکہ ایسے آثار موجود نہیں ہیں کہ اس نے اگر یہ استعفا لکھ کر رکھا تھا تو کسی کو بتایا ہو۔فیوچر پارٹی کی قیادت، اس کی کابینہ، اس کے خاندان میں میں سے کسی نے بھی اس بارے ایک عدد بیان تک نہیں دیا۔پھر اس نے ایک انتہائی ‘احمقانہ’ بات کی،’ میں ایک مثبت جھٹکا لبنانی عوام کو دینا چاہتا تھا تاکہ وہ جان لیں کہ ہم کس قدر خطرناک صورت حال سے دوچار ہیں۔’اس نے یہ بھی کہا کہ وہ وطن واپس آکر جیسے آئین کہتا ہے اس کے مطابق استعفا دے گا۔رابرٹ فسک یہاں پہ وہی سوال اٹھاتا ہے جو ہر کسی کے ذہن میں آئے گا:
‘سعودی عرب کے دارالخلافہ ریاض میں بیٹھ کر اپنے استعفی کا اعلان کرکے وہ کیسے لبنان کو ہلاک سکتا ہے؟’
کیا اس استعفے کا تعلق سعودی اوجیہ شرکۃ کمپنی کے دیوالیہ کے نزدیک پہنچی ہوئی مالیاتی حالت سے ہوسکتا ہے؟ اس کمپنی نے سعودی ریاست کے نو ارب ڈالر دینے ہیں اور سعودک عرب میں اس کے اپنے ملازمیں (جن میں اکٹریت فرانسیسی شہریوں کی ہے) اب تنخواہوں کی وصولی کے لئے مقدمہ کرنے کی سوچ رہے ہیں۔لبنانی حکام وہ دستاویزات موصول ہوچکی ہیں جو کہ یہ خطرہ ظاہر کررہی ہیں کہ سعد حریری جن کے پاس سعودی شہریت بھی ہے ان کو سعودی عدالت میں اوجیہ کے ملازمین کے واجبات ادا نہ کرنے کے مقدمے میں پیش ہونا پڑسکتا ہے۔عدالتی کاغذات میں اس کا نام سعد الدین رفیق الحریری اور اس کا سعودی شہریت نمبر درج ہے۔
حریری کو عدالتی سمن 1428 ہھجری ،24 صفر المظفر یعنی 25 نومبر 2016ء کو یعنی آج سے سال پہلے جاری ہوئے تھے۔عدالتی سمن کو غیر معینہ مدت تک التوا میں رکھا جاسکتا ہے لیکن یہی سمن پھر بحال بھی ہوسکتے ہیں۔تو سعودی عدالت میں حریری کی حاضری کا معاملہ تو پہلے ہی ایک سال سے لٹکا ہوا ہے۔اور خاص بات یہ ہے کہ اسی عدالت نے 23 نومبر 2016ء یعنی حریری کو سمن بھیجنے سے دو دن پہلے سعودی عرب کے امیر ترین شہزادے الولید بن طلال کو پیش ہونے کو کہا تھا۔اور کرپشن کے الزام میں قید الولید بن الطلال خود بھی لبنانی نژاد ہے حریری کی طرح۔ہوٹل رٹز جہاں پہ دو سو سے زائد سعودی شہزادے اور سعودی حکام کو نظربند رکھا گیا ہے اس میں اور گنجائش نہیں رہی تو میریٹ ہوٹل میں کمروں کی بکنگ کرائی گئی ہے جس کا مطلب ہے اور گرفتاریاں ہوں گی اور صاف ظاہر ہے یہ محمد بن سلام کے سیاسی دشمنوں کی ہوں گی۔
لبنانی میرونائٹ کرسچن کیتھولک چرچ کے سربراہ پادری پطرس بشارہ راعی نے سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلام سے ملاقات کی ہے۔پطرس بشارہ راعی جب بیروت سے ریاض کے لئے روانہ ہورہے تھے تو ان سے لبنانی صدر مشعال عون نے ہنگامی ملاقات کی اور ان پہ واضح کیا کہ ہوسکتا کہ سعودی حکام ان کو اس دورے کے دوران سعد حریری کا لکھا استعفا ان کے حوالے کریں اور صدر لبنان کو دینے کا کہیں۔تو وہ اسے قبول نہ کریں۔اگر وہ تحریری استعفا ساتھ لائے اور ان کو پیش کیا تو بھی اسے قبول نہیں کیا جائے گا۔
مجبوری اور مصیبت میں گدھے کو بھی باپ بنالینے کی کہاوت ہمیشہ سنی جاتی رہی ہے۔ہم میرونائٹ کرسچن فرقے کے سربراہ کو گدھا نہیں کہہ رہے لیکن سعودی وہابی رجیم اپنے تئیں ایسا ہی سمجھتا رہا ہے۔اب انہوں نے اسی کہاوت پہ عمل کیا ہے۔اس سے پہلے سعودی عرب کی تاریخ میں لبنان کے میرونائٹ چرچ کے سربراہ کے دورے کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔فسک کہتا ہے کہ اس دورے میں سیاست دان پطرس بشارہ راعی کی جیت ہوگی یا ایک مذہبی عیسائی پیشوا جیت کر آئے گا؟
حریری کی واپسی کا معاملہ ابھی زیر بحث ہے لیکن لبنانی حکام اس بات سے انتہائی پریشان ہیں کہ اگر سعودی حکام کی مرضی اور منشاء کے برخلاف حریری کو بلایا گیا تو محمد بن سلمان صرف حریری کو ہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ ساتھ دو لاکھ لبنانی جو سعودی عرب میں کام کرتے ہیں کو بھی واپس بھیجے گا اور لبنان میں ساری سعودی سرمایہ کاری بھی واپس لے لے گا۔اس سے بھی زیادہ پریشان کرنے والی خبر یہ ہے کہ سعودی عرب نے عرب لیگ کو لبنان کی رکنیت معطل کرنے کو کہا ہے جس پہ ابتک لبنانی حکام کو یقین نہیں آرہا۔اس سے نہ تو مصری خوش ہوں گے نہ ہی عراقی۔لیکن پرانی کہاوت ہے کہ جس کا کھاؤ اسی کے کن گاؤ۔اور ہم سب جانتے ہیں کہ کھلاتا کون ہے تو گن بھی اسی کے گائے جائیں گے۔
سعودی عرب کی لبنان کے اندر معشیت میں جو اہمیت ہے وہ غور کرنے کے لئق ہے۔بیروت کے حکام نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ بحیرہ روم میں جو تیل ہے اس میں ان کا حصّہ 600 ارب ڈالر بنتا ہے۔اور اس میں سعودی حصّہ مانگ رہے ہیں۔اگرچہ ایران نے لبنان کی معشیت کو عدم استحکام سے بچانے کا وعدہ کیا ہوا ہے،لیکن اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ایسا ہونا ناممکن ہے۔ہر سال 12سو لبنانی شہری جو ایران میں مقیم ہیں تین لاکھ ڈالر واپس لبنان کو دیتے ہیں۔جبکہ گزشتہ 25 سالوں میں سعودی عرب میں مقیم لبنانی چار ارب پچاس کروڑ ڈالر سالانہ واپس بھیجتے ہیں۔اور 25 سالوں میں سعودی عرب میں مقیم لبنانیوں نے 70 ارب ڈالر زرمبادلہ لبنان کو کماکر دیا ہے۔لبنان کی ایران کو ایکسپورٹ صرف تین ملین ڈالر ہے۔جبکہ سعودی عرب کو ایکسپورٹ 378 ملین ڈالر سالانہ ہے اور اس میں زراعت کی پیداوار کی ایکسپورٹ بہت زیادہ ہے۔اگر حزب اللہ کو لبنان میں سعودی عرب کی خواہشات کے مطابق نیچا دکھایا جاتا ہے تو لبنانی معشیت بچ سکے گی یہی حریری کا کہنا ہے۔
لیکن سعودی عرب حزب اللہ کے خلاف جو راستا اختیار کررہا ہے اس سے لبنان میں سرے سے معشیت کی بنیاد ہی ختم ہوجائے گی۔سعودی عرب اصل میں یمن جیسا حل پیش کررہا ہے کہ پہلے یمن کو تباہ و برباد کردیا جائے گا اور پھر اسے تعمیر کیا جائے گا۔یمن میں سعودی منصوبہ جو ہولناک تعبیر لیکر آیا ہے وہ سب کے سامنے ہے جبکہ لبنان میں تو یہ اور بھی تباہ کن ثابت ہوگا۔
جبکہ اگر لبنانی اپنی باہمی یک جہتی قائم رکھتے ہیں اور موجودہ آئینی سیٹ اپ کے تحت معاملات چلاتے رہتے ہیں تو سعودی عرب کے انتقامی اقدامات سے پیدا معشیت کو خطرے سے بچانے کے لئے سعودی عتاب کا شکار ایک اور امیر ترین عرب ملک قطر اس کو برباد ہونے سے بچانے کے لئے میدان میں اتر سکتا ہے۔قطر نے خاموشی سے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ لبنانی باشندے بغیر کسی ویزے کے صرف پاسپورٹ کی بنیاد پہ ان کے ملک داخل ہوسکتے ہیں۔اور ان کو دوحہ ائرپورٹ پہ ہی انٹری مہر لگادی جائے گی۔اور قطریوں نے لبنان کو پیشکش کی ہے کہ اگر سعودی عرب اپنی سرمایہ کاری لبنان سے نکالتا ہے تو وہ اپنے فنڈز سے لبنان کی کمی پوری کرکے سعودیہ پہ تھوک دیں گے۔
یہاں یہ یادر رکھنے کی ضرورت ہے کہ اس ساری مشق کا مقصد لبنان کی خودمختار حکومت کو انتشار کا شکار کرکے گرادینا،نئے الیکشن کرانے اور شیعہ حزب اللہ کے وزیروں کو کابینہ سے نکالا اور اس طرح سے لبنان میں ایران کی طاقت کو توڑنا ہے۔ایسا نظر آتا ہے کہ یہ سب محمد بن سلمان کا منصوبہ اور ارادہ ہے۔اتوار کی رات اپنے انٹرویو میں، حریری کہا کہ وہ بیروت واپس آکر حزب اللہ کو ایک سمجھوتے کی دعوت دے گا۔یہ سمجھوتا کیا ہوسکتا ہے؟حزب اللہ کو غیر مسلح کرنا،کابینہ سے نکل جانے کا کہنا۔حزب اللہ غیر مسلح تو کبھی نہیں ہوگی اور کابینہ سے نکلنے کا مطلب بیروت حکومت کا خاتمہ ہے۔
رابرٹ فسک ہمیں لبنان اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات کی نوعیت بارے مزید واضح کرنے کے لئے تاریخ سے ایک مثال ڈھونڈ کر لاتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ موجودہ جو گھمبیر سیاسی صورت ہے لبنانیوں کے لئے یہ دلچسپ صورت حال بھی ہے جو بند ہوگئے اخبار ‘روزنامہ ہدف’ کا 28 فروری 1967ء کی اشاعت کا صفحہ نمبر پانچ ایک دوسرے کو بھجوا رہے ہیں جس کی شہ سرخی ہے:‘سعودی عرب کی لبنان کو دھمکی پہ مختلف ردعمل سامنے آگئے۔’
دھمکی میں سعودی عرب میں کام کرنے والے لبنانیوں کو ملک بدر کرنا اور بیروت سے سعودی پیسہ نکالنے کا انتباہ بھی موجود ہے۔یہ وہی خوف ہے جس کا موجودہ حکومت کو سامنا ہے۔1967ء میں اس وقت کی لبنانی حکومت اور عوام کو آل سعود سعودی عرب کے دشمن مصری قوم پرست جمال عبدالناصر کی حمایت سے دستبردار ہونے کو کہہ رہے تھے جیسے وہ آج ان کو حزب اللہ اور ایران سے بالکل قطح تعلق کرنے کو کہہ رہے ہیں۔
افسوس،(افسوس یہاں طنزیہ طور پہ استعمال ہوا ہے) کہ لبنانیوں نے بشمول سنّی لبنانیوں نے ناصر کو ترجیح دی تھی۔روزنامہ ہدف بیروت نے کہا تھا کہ کجھ لبنانی درمیانے راستے کو اور کچھ غیر جانبداری کو ترجیح دیتے ہیں۔اور یہی وہ پالیسی ہے جو آج کے بحران میں بیروت حکومت کی ترجیح نظر آتی ہے۔
To read article written by Robert Fisk please visit link:http://www.independent.co.uk/…/lebanon-saad-hariri-saudi-ar